بدعت سے شرک اور شرک سے کفر تک
بدعت سے شرک اور شرک سے کفر تک
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
کفر، بدعت اور شرک کی وضاحت
ہم جانتے ہیں کہ کفر، بدعت اور شرک کیا ہے۔ کفر کہتے ہیں اللہ اور ان کے رسول ﷺ کی بات سے انکار کرنے کو، اور جو لوگ یہ کرتے ہیں انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ یہ تو آپ اور میں، ہم سبھی جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام، جو کہ اللہ کے نبی ہیں، جنہیں ہم خلیل الرحمن کے نام سے بھی جانتے ہیں یعنی اللہ رحمان کے دوست، وہ مسلمان تھے۔ ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام بھی اللہ کے نبی تھے، جن سے اللہ رب العزت نے نسل چلائی ہمارے حضورِ اقدس ﷺ تک۔ اب اسماعیل علیہ السلام بھی اللہ کے نبی تھے اور وہ بھی مسلمان تھے۔ تو ہمارے حضور اقدس ﷺ تک آتے آتے یہ عرب کفار کب ہوگئے اور ﷺ کو ان کے عزیز رشتے دار یہ کہہ کر کیوں ٹھکراتے تھے کہ وہ اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑ سکتے، جبکہ ابراہیم علیہ السلام تو مسلمان تھے؟
بدعت کی ابتدا اور شرک کا آغاز
میں نے تھوڑا غور و فکر کیا اس پر، اور اسے آپ تک پہنچانے میں اگر کہیں کمی کوتاہی ہوجائے تو اللہ کی پناہ۔ ہم واپس آتے ہیں مکہ میں، جہاں اسماعیل علیہ السلام کے بعد بھی عرب مسلمان تھے۔ انہیں اللہ کے واحد ہونے پر یقین تھا، وہ صرف ایک اللہ کو مانتے تھے، توحید اب بھی قائم تھی اور ایک لمبے عرصے تک قائم رہی، حتیٰ کہ وہ اپنے مذہب کے کچھ حصے بھول گئے۔ پھر بھی وہ اللہ کو ہی مانتے تھے، حتیٰ کہ لوٹ آیا خزعہ کا سردار، عمرو بن لحی، شام کے سفر سے۔
اب یہاں سے شروع ہوئی بدعت۔ اب یہ بدعت کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ بدعت بہت بڑا گناہ ہے، لیکن یہ ہے کیا؟ بدعت کہتے ہیں کسی نئی تبدیلی کو، یعنی نئی رسم و رواج کا ایجاد کرنا جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نہیں سکھائی، جو اللہ کے حکم کے خلاف ہے۔ جیسے کہ ہلدی، گانا بجانا کرکے خوشی کا اظہار کرنا، یہ سب بدعت ہیں۔ اب یہ جان لیا کہ بدعت کیا ہے، اب واپس آتے ہیں مکہ میں۔ عمرو بن لحی اپنے قبیلے کا ایک معزز شخص تھا۔ اس نے شام میں بت پرستی دیکھی جس سے وہ متاثر ہو گیا۔ وہ مکہ لوٹتے وقت اپنے ساتھ ایک مورت لے آیا جس کا نام تھا ہبل، جسے اس نے لاکر بیت اللہ کے پاس رکھ دیا۔ لوگوں سے کہا کہ وہ بھی اسی کو پوجیں اور مورتیوں کے ذریعے اللہ سے تعلق بنائیں۔
شرک اور اس کے نتائج
اب یہ معاملہ شرک تک پہنچ گیا۔ شرک کہتے ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کو۔ اب دھیرے دھیرے لوگ ان مورتیوں کو پوجنے لگے اور اپنے خالق کو بھلا دیا۔ شیطان نے ان کو ان کا دین بھلا دیا۔ اب اللہ نے یہاں اپنے خاتم الانبیاء ﷺ کو بھیجا، اور اسلام کی خلافت قائم ہوئی اور اللہ کا دین ایسا پھیلا کہ ساری دنیا میں پھیل گیا۔ لیکن آج کے مسلمان کو فرقوں کی تبدیلی، رسموں کی تبدیلی سے کون روکے؟ اب یہ کام کس کا ہے؟ اللہ نے اب یہ کام امت کو سونپا ہے۔ لیکن یہ ہم کیسے کریں؟ اس پر بھی تھوڑا غور و فکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں خود اپنے دین کو جاننا اور سمجھنا ہے تاکہ ہم وہ دین سیکھ سکیں جو حضورِ اقدس ﷺ نے ہم تک پہنچایا اور اس میں اور یہ تبدیلیاں جو لوگ آج کل کر رہے ہیں ان میں فرق کر سکیں۔
اللہ کے اور اپنے درمیان کسی کو شریک نہ کریں کہ فلاں پیر ولی کے مزار پر منت مراد کرنے سے اللہ راضی ہو جائیں گے۔ ہم پانچ وقت کی نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں، لیکن نیاز وقت سے کرتے ہیں، پیر اولیاء کے مزار پر چلہ کاٹ آتے ہیں۔ کیا نماز فرض نہیں؟ سب سے پہلا سوال تو نماز کا ہوگا نا۔ جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔ ذرا سوچیں تو، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا جو دونوں جہاں کی شہزادی ہیں، ان کی شادی میں یہ ہلدی، ناچنا بجانا وغیرہ ہوا تھا؟ جب ہماری رول ماڈل نے یہ نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟ ہم کس کی پیروی کرنے لگے ہیں؟ اگر ہم یہی کرتے رہیں تو کیسے منہ دکھائیں گے حضور اقدس ﷺ کو، جو تین تین دن کے فاقے کرتے تھے ہماری خاطر، راتوں کو اٹھ کر اپنے مبارک آنسو بہاتے تھے ہماری خاطر۔ کیا ہم اس لائق ہیں کہ ہمارے لیے یہ عظیم ہستی ﷺ آنسو بہائیں؟ کیسے حساب دیں گے ہم اللہ کو!
آپ کو، مجھے، خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس شر سے بچانا ہے۔ شادی کو بوجھ نہ بنائیں، یہ رسمیں ہلدی وغیرہ ہمارا طریقہ نہیں ہیں، اور جس نے کافروں کی پیروی کی وہ انہی میں سے ہوگیا۔ اور رہا سوال تبدیلی کا، تو وہ ہمیں خود میں لانی ہے نہ کہ دین میں۔ اور وہ ایسے کہ ہم خود کو بدلیں، گناہ سے بچنے کی کوشش کریں، دین کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں، خود کو اللہ کی رضا کے لیے بدلیں۔ اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال لیں جس میں اللہ رب العزت ہمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اللہ سے مانگیں، دعا کریں اور شرک، بدعت اور شیطان کے وسوسوں سے پناہ مانگیں۔