تحفظ ختم نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

تحفظ ختم نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

تحفظ ختم نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ختم نبوت

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ تاریخِ اسلام کا ایک روشن باب ہے۔ نبی کریم ﷺ کی نبوت کے بعد کسی جھوٹے مدعیِ نبوت کو برداشت نہ کرنا صحابہ کا ایمان تھا، اور اس کی حفاظت کے لیے انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں جھوٹے نبیوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں کیں اور فرمایا:
“اگر کوئی زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کرے گا تو میں اس سے قتال کروں گا، چہ جائیکہ کوئی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے!”
حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں بھی عقیدہ ختمِ نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا۔
حضرت علیؓ نے بھی ہر دور میں اس عقیدے کی حفاظت کی اور کسی جھوٹے نبی کو برداشت نہیں کیا۔

1. جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد

جب نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بعض افراد نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، تو صحابہ کرام نے ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی۔

مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ

مسیلمہ کذاب نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا، اور آپ ﷺ نے اسے جھوٹا قرار دیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں جب اس نے مدینہ کے خلاف بغاوت کی، تو صحابہ کرام نے اس کے خلاف جنگ یمامہ میں شرکت کی۔
اس جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے زبردست بہادری دکھائی۔
حضرت وحشیؓ (جنہوں نے پہلے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا، بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا) نے مسیلمہ کو قتل کر کے اس فتنے کا خاتمہ کیا۔
تقریباً 1200 صحابہ اور تابعین نے اس معرکے میں جامِ شہادت نوش کیا، جن میں 700 حفاظِ قرآن بھی شامل تھے۔

مسیلمہ کذاب چونکہ مدعی نبوت تھا، بہت سارے لوگ اسکے پیروکار تھے، اسے اپنا نبی مانتے تھے تو سیدنا ابوبکر رض نے خلافت سنبھالتے ہی مرتدین اور مدعیان ختم نبوت کے خلاف جہاد کیا۔

جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے لشکر سے سید نا ثابت بن قیس رض کا مقابلہ:
سیدنا انس کے بیٹے موسیٰ بن انس بیان کرتے ہیں :

وَذَكَرَ يَوْمَ اليَمَامَةِ – قَالَ : أَتَى أَنَسٌ ثَابِتَ بنَ قَيْسٍ وَقَدْ حَسَرَ عَنْ فَخِذَيْهِ وَهُوَ يَتَحَنَّطُ، فَقَالَ : يَا عَمّ، مَا يَحْبِسُكَ أَنْ لَا تَجِي؟ قَالَ : الْآنَ يَا ابْنَ أَخِي، وَجَعَلَ يَتَحَنَّطُ – يَعْنِي مِنَ الحَنُوطِ – ثُمَّ جَاءَ، فَجَلَسَ، فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ الْكِشَافًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : هَكَذَا عَنْ وُجُوهِنَا حَتَّى نُضَارِبَ القَوْمَ، مَا هَكَذَا كُنَّا نَفْعَلُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِئْسَ مَا عَوَّدْتُمْ أَقْرَانَكُمْ

وہ ذکر کر رہے تھے بیان کیا کہ انس بن مالک بھی للہ ثابت بن قیس بھی کے یہاں گئے انہوں نے اپنی ران کھول رکھی تھی اور خوشبو لگا رہے تھے۔ انس بھی نے کہا چا! اب تک آپ جنگ میں کیوں تشریف نہیں لائے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ بیٹے ابھی آتا ہوں اور وہ پھر خوشبو لگانے لگے پھر ( کفن پہن کر تشریف لائے اور بیٹھ گئے ) مراد صف میں شرکت سے ہے ) انس رض نے گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے کچھ کمزوری کے آثار کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ تا کہ ہم کافروں سے دست بدست لڑیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔ (یعنی پہلی صف کے لوگ ڈٹ کر لڑتے تھے کمزوری کا ہرگز مظاہرہ نہیں ہونے دیتے تھے ) تم نے اپنے دشمنوں کو بہت بری چیز کا عادی بنا دیا ہے ( تم جنگ کے موقع پر پیچھے ہٹ گئے ) وہ حملہ کرنے لگے۔ صحيح البخاري: 2845

جنگ میں بعض لوگوں کی طرف سے سستی اور سید نا ثابت بن قیس اللہ کا جذبہ شہادت :
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ثابت بن قیس نے جب جنگ یمامہ میں اپنے بعض ساتھیوں کو دیکھا کہ وہ وقتی طور پر شکست سے دو چار ہور ہے ہیں تو انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن پہن کر کہا:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأَ إِلَيْكَ ممَّا جَاءَ بِهِ هَؤُلَاءِ، وَأَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ

اے اللہ جو کچھ انہوں نے کیا میں تیری عدالت میں اس سے بری ہوں اور جو کچھ انہوں نے کیا میں تیری طرف سے معذرت خواہ ہوں ۔

پھر انہوں عمدہ انداز میں کفار کے جنگ لڑی اور جام شہادت نوش کیا۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم: 5035 إسناده صحيح

ستر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تحفظ ختم نبوت کے لیے قربان ہونا :

مسیلمہ کذاب کے ساتھ لڑی جانے والی اس جنگ میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی ۔ شہید ہونے والے صحابہ کرام میں صرف ستر تو انصار سے تعلق رکھنے والے تھے، باقی اس سے الگ تھے، چنانچہ سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں:
کہ جنگ یمامہ میں صرف انصار صحابہ میں ستر (70) صحابہ کرام بھی اللہ شہید ہو گئے۔ مستخرج ابی عوانه: 6849

مسیلمہ کذاب واصل جہنم :

اس جنگ میں اگر چہ بہت سے صحابہ کرام شہید ہوئے ، بظاہر مسلمانوں کو شکست نظر آنے لگی ستر تو انصار سے تعلق رکھنے والے تھے، باقی اس سے الگ تھے، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار فرمایا اور سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا لشکر فاتح بنا۔ اللہ تعالی نے سیدنا وحشی بن حرب رض اور ایک اور انصاری نوجوان کے حصے میں یہ سعادت رکھی ہوئی تھی کہ انہوں نے مسیلمہ کذاب کو جہنم واصل کیا ، جیسا کہ سید نا وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الكَذَّابُ، قُلْتُ : لأخْرُجَنَّ إِلَى مُسَيْلِمَةَ، لَعَلِّي أَقْتُلُهُ فَأَكَافِى بِهِ حَمْزَةَ، قَالَ : فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ، قَالَ : فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةٍ جِدَارٍ، كَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرُ الرأس، قَالَ : فَرَمَيْتُهُ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ، قَالَ : وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَى هَامَتِهِ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الله بن الفَضْلِ : فَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ : ” فَقَالَتْ جَارِيَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتِ : وَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، قَتَلَهُ العَبْدُ الأَسْوَدُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو مسیلمہ کذاب نے خروج کیا۔ اب میں نے سوچا کہ مجھے مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں ضرور شرکت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے میں اسے قتل کر دوں اور اس طرح حمزہ رض کے قتل کا بدل ہو سکے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی اس کے خلاف جنگ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ نکلا۔ اس سے جنگ کے واقعات سب کو معلوم ہیں ۔ بیان کیا کہ میدان جنگ میں ) میں نے دیکھا کہ ایک شخص ( مسیلمہ ) ایک دیوار کی دراز سے لگا کھڑا ہے۔ جیسے گندمی رنگ کا کوئی اونٹ ہو۔ سر کے بال منتشر تھے۔ بیان کیا کہ میں نے اس پر بھی اپنا چھوٹا نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ اس کے سینے پر لگا اور شانوں کو پار کر گیا۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک صحابی انصاری جھپٹے اور تلوار سے اس کی کھوپڑی پر مارا۔ انہوں ( عبدالعزیز بن عبداللہ ) نے کہا، ان سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا کہ پھر مجھے سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہوں نے عبداللہ بن عمر ہی سے سنا، وہ بیان کر رہے تھے کہ ( مسیلمہ کے قتل کے بعد ) ایک لڑکی نے چھت پر کھڑی ہو کر اعلان کیا کہ امیر المؤمنین کو ایک کالے غلام ( یعنی وحشی ) نے قتل کر دیا۔ صحيح البخاري : 4072

سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور تحفظ ختم نبوت

تابعی عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان کے دور خلافت میں ایک آدمی
( میرے والد ) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا : اے عبدالرحمن ! یہاں ایک ایسی قوم ہے جو مسیلمہ کذاب کی کتاب پڑھ رہی ہے۔ سید نا عبد اللہ بن مسعود رض نے کہا : کیا اللہ کی کتاب کے علاوہ بھی کوئی کتاب ہے اور کیا اللہ کے رسول کے علاوہ بھی کوئی رسول ہے؟ اس کے بعد کہ اسلام پھیل چکا ہے ( مطلب یہ کہ ایسا نہیں ہو سکتا ) ۔ انہوں نے اس شخص کو واپس بھیج دیا تو وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا اور عرض کی : اے اللہ ! اس ذات کی قسم کہ جسکے علاوہ کوئی دوسرا الہ نہیں ! ( یہ بد بخت ) لوگ ایک گھر میں جمع ہو کر مسیلمہ کی کتاب پڑھ رہے ہیں اور انکے پاس مسیلمہ کی کتاب صحیفہ کی شکل میں موجود ہے۔ یہ سیدنا عثمان غنی رض کے دور خلافت کی بات ہے۔ توسید نا عبد اللہ بن مسعود رض نے گھڑ سواری کے ماہر قرظہ نامی شخص سے کہا: جاؤ اور انہیں اسی گھر میں گھیر لو اور سب کو گرفتار کر لو۔ تو قرظہ اسی (80) آدمیوں کو گرفتار کر کے لائے.

سید نا عبد اللہ بن مسعود نے کہا:- تباہی و بربادی ہو! کیا اللہ کی کتاب کے علاوہ بھی کوئی کتاب ہے اور کیا اللہ کے رسول کے علاوہ بھی کوئی رسول ہے؟ انہوں نے کہا: ہم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تو بہ کرتے ہیں، یقینا ہم نے اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ تو سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ معاف کرتے ہوئے ملک شام کی طرف روانہ کر دیا سوائے ان کے سردار ابن نواحہ کے ، کیونکہ ان نے تو بہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق قرظہ کو حکم دیا: اسے لے جاؤ اور اس کی گردن تن سے جدا کر کے اس کا سر اس کی ماں کی گود میں پھینک دو، کیونکہ میں نے ( آج سے پہلے بھی اسے دیکھا ہے اور اس کے برے کاموں کو بھی جانتا ہوں ۔ چنانچہ قرضہ نے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔

پھر سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابن نواحہ اور ابن اثال دونوں مسیلمہ کے سفیر بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے، تو آپ نے ابن نواحہ سے کہا تھا :

تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةً رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْلَا إِنَّكَ رَسُولُ لَقَتَلْتُكَ فَجَرَتِ السُّنَّةُ يَوْمَئِذٍ أَنْ لَا يُقْتَلَ رَسُولٌ

کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو اس نے کہا : کیا آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسلمہ اللہ کا رسول ہے؟ تو رسول اللہ نے فرمایا: اگر تو سفیر نہ ہوتا تو میں ضرور تجھے قتل کر دیتا۔ تو اس وقت سے سفیر کو قتل نہ کرنے کا طریقہ جاری ہوا۔ المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4378

اس روایت سے معلوم ہوا کہ مدعی نبوت کا فتنہ کافی دیر تک چلتا رہا ، یہاں تک کہ سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی وہ ایک بڑی تعداد میں موجود تھے، جو مسیلمہ کذاب کو اپنا نبی مانتے تھے، اس کی پیروی کرتے اور اس کی کتاب کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے۔

طلیحہ اسدی کے خلاف سید نا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا معرکہ

طلیحہ اسدی کذاب بھی مدعی نبوت تھا، سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق سید نا خالد بن ولید رض نے اس کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ انتہائی جنگجو انسان تھا ، اس نے سید نا عکاشہ بن محصن اور سید نا ثابت بن اقرم کو شہید بھی کیا۔ لیکن جلد اس کے لیے حق واضح ہو گیا اور یہ مسلمان ہو گیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر عمرہ بھی ادا کیا۔
السنن الكبرى للبيهقي: 16728 استاده حسن

اسود عنسی اور فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ

یمن میں اسود عنسی نامی شخص نے بھی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی ہی میں حضرت فیروز دیلمیؓ اور دوسرے صحابہ نے مل کر اسے قتل کر دیا، اور یمن کو اس فتنے سے پاک کر دیا۔

عقیدہ ختمِ نبوت پر اجماعِ صحابہ:-

صحابہ کرام کا اس بات پر مکمل اجماع تھا کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں، اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا۔ اس لیے جب بھی کسی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا، صحابہ نے بغیر کسی اختلاف کے اس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی۔
صحابہ کرام نے تحفظ ختمِ نبوت کے لیے اپنی جانیں قربان کر کے ثابت کر دیا کہ اس عقیدے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں آج تک امتِ مسلمہ اس عقیدے پر متحد ہے۔ اللہ ہمیں بھی اس عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں