حج

حج

حج

حج کے معنی

ہماری چوتھی بنیادی عبادت حج ہے۔ حج کے لفظی معنی زیارت کا ارادہ کرنا ، کسی کے پاس بار بار جانا کے ہیں ۔ لفظ حجۃ” کے معنی برس” اور سال بھی ہیں۔ اس طرح حج کے لفظی معنی بنتے ہیں سالانہ زیارت“۔ عربی میں اس لیے حج کے دنوں کو ” موسم حج بلکہ بعض دفعہ صرف موسم بھی کہتے ہیں۔ حج کا یہ نام اس کے ہر سال آنے کی بناء پر رکھا گیا ہے۔
اسلامی اصطلاح کے طور پر حج کا مطلب ہے ” ایام حج میں خانہ کعبہ کی زیارت کو جانا اور تمام مناسک حج پورے پورے ادا کرنا ۔ اسلامی بنیادی عبادت کے طور پر حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ واجب ہے مندرجہ بالا عبارت میں ایام حج ، خانہ کعبہ ” مناسک، استطاعت’اور ایک دفعہ“ کے الفاظ غور طلب ہیں اور تشریح طلب بھی۔
ایام حج” سے مراد قمری تقویم کے آخری مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 13 تاریخ تک کے دن ہیں۔ اصل حج کا دن تو 9 ذوالحجہ ہے مگر حج کے تمام مناسک مذکورہ تاریخوں میں پورے کیے جاتے ہیں۔ ایام حج کے علاوہ خانہ کعبہ کی زیارت اور نعض افعال کو “عمرہ” کہتے ہیں۔ کعبہ مکہ مکرمہ کے اس کمرہ نما مرکز عبادت کو کہا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد آج سے قریباً چار ہزار (4,000) سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رکھی تھی۔ اسے کعبہ تو اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی قریب قریب برابر ہے، یعنی ” مکعب نما۔ اس کا دوسرا مشہور بلکہ اصل نام بیت اللہ اللہ کا گھرا ہے۔
اسے قرآن کریم میں البیت الحرام” (عزت والا گھر ) ، البیت العتیق ( قدیم ترین گھر ) اور بعض دفعہ صرف ” البیت” (گھر) بھی کہا گیا ہے۔

فارسی کے لفظ ” خانہ“ کے معنی گھر یا مکان ہی ہیں۔ اسی سے خانہ کعبہ (ترکیب توصیلی ) اور خانہ خدا ( ترکیب اضافی ) ہمارے ہاں مستعمل ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عربی میں بیت عموما ر ہائشی جگہ ، گھر کو نہیں بلکہ صرف مکان کو کہتے ہیں۔ رہائشی مکان یا جگہ کو عربی میں “دار” کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کعبہ کو اللہ کی طرف نسبت دیتے ہوئے ”دار اللہ نہیں بلکہ بیت اللہ کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جگہ نہیں رہتا ، وہ تو سب جگہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا نام بیت اللہ اس لیے رکھا تھا کہ اس میں صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے گی۔ ان معنوں میں ہی ہم مسجد کو بھی اللہ کا گھر کہتے ہیں۔ اس لیے مسجدوں کے بارے میں قرآن کریم میں آیا ہے؛

وَانَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا

( یقیناً مسجدیں صرف اللہ کی عبادت کے لیے ہیں ۔ پس اللہ کے ساتھ کسی اور کومت پکارو )۔ مناسک حج سے مراد وہ تمام شرعی احکام ،افعال اور قواعد وضوابط ہیں جن کی حج میں پابندی کی جاتی ہے۔ اس میں میقات ، احرام ، طواف، سعی ، عرفہ ، رمی ، قربانی وغیرہ امور شامل ہیں۔ استطاعت کا مطلب ہے کہ آدمی ہر لحاظ سے سفر حج پر جانے اور واپس آنے کے قابل ہو۔ اس میں سفر کے مکمل اخراجات ( بلکہ اس دوران اپنے گھر والوں کے اخراجات بھی) کے علاوہ صحت ، راستے کا پرامن ہونا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اگر مالی استطاعت ہو مگر دوسری رکاوٹیں نہ جانے دیں تو ایسے آدمی کو وصیت کر جانا چاہیے کہ اس کی موت کی صورت میں کوئی دوسرا آدمی (مرنے والے کے خرچ پر ) اس کی طرف سے حج کرے۔ اس حج کو حج بدل“ کہتے ہیں۔ اسلامی عبادات میں سے بدل“ کا حکم صرف حج کے لیے ہے )
ایک دفعہ کا مطلب واضح ہے، حج مسلمانوں پر زندگی میں صرف ایک دفعہ واجب ہے۔ ایک سے زیادہ دفعہ حج کا موقع ملے تو یہ بڑی سعادت ہے۔ مگر حکومت کی طرف سے دوسری دفعہ حج پر پابندی کو یہ جھوٹ بول کر توڑنا کہ پہلی دفعہ حج پر جا رہا ہوں سخت گناہ ہے۔

حج کی اہمیت

اسلام کی بنیادی عبادت ہونے کے لحاظ سے حج کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل امور سامنے رکھیے: قرآن کریم میں مسلمانوں پر حج کے فرض ہونے کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی استطاعت کے ہوتے ہوئے حج نہ کرنے کو کفر کہا گیا ہے:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً وَمَنْ كَفَرٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (آل عمران : 97) ( لوگوں پر اللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے (اس کے ) گھر کا حج اور جو کفر و انکار کرے تو اللہ تعالیٰ سب جہانوں سے بے نیاز ہے)۔
حج ہی ایک ایسی عبادت ہے جو ملت ابراہیمی کا خاص شعار ہے اور یہی عبادت ہے جو پچھلے تین چار ہزار سال سے تاریخی تسلسل کے ساتھ چلی آ رہی ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو حج کعبہ کے لیے بلائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر حج کو بھی دوسری بنیادی عبادت کی طرح ان چیزوں میں شمار کیا ، جن پر اسلام قائم ہے اور جن میں سے کسی ایک کا انکار، یا ترک، ایوانِ اسلام کو گرا دینے کی کوشش سمجھا جائے گا.

حج کے مقاصد اور منافع

حج کے بہت سے مناسک حضرت ابراہیم علیہ السلام ، ان کی بیوی ہاجر اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعض اعمال کا اعادہ (دہرانا) ہے، مثلاً طواف سعی، رمی ، قربانی وغیرہ۔ قرآن وسنت میں یہ بات واضح طور پر بیان ہوئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دین اسلام کو اپنے عظیم جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کردہ سنت کی بنیادوں پر دوبارہ زندہ کیا حج کا ایک اہم مقصد اسی سنت ابراہیمی کی تجدید کا عہد کرنا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آج کی دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی واحد شخصیت ہیں، جن کی تعظیم اور احترام اس کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت کے دل میں ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے علاوہ مسیحی اور یہودی بھی اس میں شامل ہیں اور دُنیا کی غالب آبادی ان تین مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو اللہ کی وحدانیت ( توحید ) اور اس سے اخلاص تھا۔ حج اس کی دائمی یادگار اور زندہ دعوت ہے۔
انسان ایک جذباتی مخلوق ہے۔ انسانی فطرت میں سب سے قومی جذبہ ”محبت“ ہے۔ انسان کسی کو دل دے کر اپنی ساری شخصیت کو اس کے آگے جھکا دینے میں ایک فطری لذت محسوس کرتا ہے۔ انسانی عشق و محبت کی داستانوں میں اسی فطری جذبے کی حیرت انگیز جلوہ گری نظر آتی ہے۔ بڑے صاحب جبروت بادشاہوں نے اپنے کسی محبوب کے قدموں پر اپنا سر رکھنے میں ایک لذت محسوس کی ۔ وہ نام نہاد محبت جو انسان سے اغواء اور قتل جیسے جرائم کراتی ہے ، وہ محبت نہیں ہوس اور شیطانی خواہشات ہوتی ہیں۔ اصل محبت تو گھل گھل کر مرنے میں ایک لذت پانے کا نام ہے۔ اسی لیے مجازی عشق عشق بتاں ) کو حقیقی عشق (عشق خدا) کو پانے اور سمجھنے کی ابتدائی مثال قرار دیا جاتا ہے۔ حج اسی محبوب حقیقی ( اللہ تعالیٰ) کے حضور میں حاضری کی ایک صورت ہے۔ اہل دل کے لیے سفر حج در محبوب پر حاضری دینے کے ذوق کی تسکین اور لذتِ درد کا ایک سامان ہے۔ محبوب کی یاد کی لذتہر جگہ اور ہر وقت ممکن ہے مگر جو لطف محبوب سے نسبت رکھنے والے مکان کو دیکھنے میں ہے وہ صرف یاد میں کہاں؟ یہیں آ کر تصوف اور شاعری کے تخیل کی حدیں آپس میں ملتی ہیں.
بہت سی خرابیوں کے گھس آنے کے باوجود حج ہمیشہ اہل اسلام کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ کہے کی پوری تاریخ میں اس قسم کے انسانوں کا سب سے پہلا بڑا اجتماع حجتہ الوداع تھا ، جس میں خود رسول اللہ ﷺ اپنے جانثاروں کو اپنے ساتھ لیے مناسک حج ادا فرما رہے تھے۔ بعد میں حاجیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اب تو لاکھوں تک پہنچتی ہے مگر وہ عشق و مستی غائب ہوتی چلی گئی ہے اور ہوتی چلی جارہی ہے۔
دوسری عبادات کی طرح حج کے منافع و مقاصد اور اس میں پوشیدہ حکمتوں کو جاننا اور سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ حج کی اہمیت کے مختلف پہلو جاننے کے لیے بھی اور اس کے لیے بھی کہ کس طرح آج مسلمانوں نے ان مقاصد کو نظر انداز کر رکھا ہے اور ان حکمتوں سے آنکھیں بند کر لی ہیں مثلاً :
احرام کا لباس کس طرح شاہ و گدا کی تمیز مٹا دیتا ہے۔ (اگر چہ کعبہ کے متولی ہمیشہ اس تمیز کو کسی نہ کسی رنگ میں برقرار رکھتے رہے ہیں، آج بھی کعبہ کا دروازہ صرف بادشاہوں اور سربراہوں کے لیے کھولا جاتا ہے)۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہو کر علمی و سیاسی اور معاشرتی مسائل پر بحث کا موقع ملتا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ حج پر جا کر طلب علم کے لیے مہینوں اور برسوں وہاں قیام بھی کرتے تھے۔ آج کل تو حج ایک مشینی عمل بن کر رہ گیا ہے ۔ جانا ، ایک رواں دواں پروگرام کے مطابق سب کاموں سے کم سے کم وقت میں فارغ ہونا اور واپس ہو جانا۔ بعض لوگ تو حج کو مسلمانوں کی ایک سالانہ کانفرنس ہی سمجھ لینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ حالانکہ حج ایک عبادت ہے۔ یہ کانفرنسوں کی طرح نشستید ، گفتند و برخاستند والا معاملہ نہ ہے نہ ہونا چاہیے۔ حج کے تمام اصلی فوائد و مقاصد، مثلاً: مسلمانوں میں اتحاد و مساوات ، باہمی خیر سگالی اور خیر خواہی ، افہام و تفہیم وغیرہ اسی لیے حاصل نہیں ہو رہے کہ حج کو اللہ سے رابطہ کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، جو تمام اسلامی عبادات کی اصل حکمت اور امتیازی شان ہےیہ تھا اسلام کی بنیادی عبادات نماز، زکوۃ، روزہ اور حج کا مختصر بیان۔ اللہ کے ساتھ براہِ راست ربط کی صورت ہونے کے باعث یہ عبادات ، بذات خود ایک مقصد ہیں۔ ان کی ظاہری صورت پر عمل کرنا اور ان کی پابندی کرنا بھی برکات سے خالی نہیں۔ اسی لیے یہ ظاہری پابندی بھی واجب ہے ۔ یہ وجوب قرآن وسنت سے ثابت ہے۔اسلام کے بہت سے مقاصد ان کی عبادات کی ظاہری بجا آوری سے بھی پورے ہو جاتے ہیں۔ عبادات کی ظاہری اہمیت کو گھٹانا اور اس کے فلسفہ و حکمت اور اس کے ذریعہ اسلامی تربیت ہونے پر ہی زور دینا گاڑی کو گھوڑے کے آگے جو تنے والی بات ہے۔ رہا ظاہری پابندی کے ساتھ ساتھ ان عبادات کی باطنی حکمتوں پر غور و فکر اور ان کے حاصل کرنے کی کوشش کرنا، تو اس سے انکار کرنے والوں کی جہالت میں کیا شک رہ جاتا ہے؟
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ کے بعد اس پر مکمل طور پر عمل کی توفیق عطا فرمائے.

آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں