رسالت خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ کی خصوصیات

رسالت خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ کی خصوصیات

رسالت خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ کی خصوصیات

(DISTINGUISHED QUALITIES OF HOLY PROPHET)

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب کیا ہے۔ یہ خاص بندے انبیاء اور رسول کہلائے ۔ سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ ہر دور، ہر زمانے اور ہر قوم میں اللہ کے نبی اور رسول آتے رہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ (يونس: 47)

اور ہر امت کے لئے رسول بھیجا گی

وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ ( فاطر: 24)

اور ہر امت میں ڈرانے والا گزر چکا ہے۔

آخر میں ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ رسالت کا یہ سلسلہ ان پر ختم ہو گیا۔ وہ کمالات اور خوبیاں جو اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کرام کو عطاء فرمائی تھیں وہ سب نبی آخر الزمان کی ذات اقدس میں بھی جمع کر دی گئیں ۔

مشہور صوفی شاعر حضرت امیر مینائی کے ایک شعر شعر یہ ہے:

حسن یوسف، دم عیسی، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری

یہ شعر فارسی میں ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ “جو حسن حضرت یوسفؑ کو دیا گیا، جو معجزہ حضرت عیسیٰؑ کے دم میں تھا، اور جو ہاتھ حضرت موسیٰؑ کا روشن ہوا کرتا تھا، وہ سب خوبیاں اکٹھی کسی اور میں نہیں، بلکہ صرف تم میں پائی جاتی ہیں۔

رسالت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔

(1) رسالت عامہ ( بین الاقوامیت)

(GENERALITY/UNIVERSAL PROPHETHOOD)

خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل جو انبیاء اور رسول تشریف لائے وہ خاص اقوام ، خاص علاقوں اور مختلف ادوار کے لیے تھے ۔ بلکہ یوں کہئے کہ ہر قبیلہ کا نبی علیحدہ ہوتا تھا۔ اس طرح ایک ہی وقت میں کئی انبیاء بھی مبعوث ہوئے مگر آپ کی نبوت بین الاقوامی ہے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

(1)قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: 158)

کہو اے انسانو! میں تم سب کی طرف خدا کا رسول ہوں ۔

(2) وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ ( الانبياء: 107 )

اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔“

(3) وَمَا أَرْسَلْتُكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ( سباء : 28)

اور ہم نے تو آپ کو تمام دنیا کے لیے خوشخبری سنانے اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-

وَكَانَ النبي يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةٌ وَبعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً

مجھ سے پہلے ہر نبی مخصوص طور پر اپنی ہی قوم کے لئے نبی بنا کر بھیجا جاتا تھا۔ لیکن میں تمام لوگوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ ( صحیح بخاری: 335)

خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نمایاں خصوصیت کا مظاہرہ ہمارے سامنے ہے آج دنیا میں کوئی خطہ ارض ایسا نہیں ہے جہاں مسلمان موجود نہ ہوں ۔ دنیا کا کون سانشر و اشاعت کا ادارہ ہے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر بلند نہ ہوتا ہو۔

(2) سابقہ شریعتوں کا نسخ:

(CANCELLATION OF EARLY RELIGIOUS LAWS)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:-

مَا نَنسخ مِنْ آيَةٍ أَوْ ننسهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ( البقرة: 106 )

اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت (شریعت) لے آتے ہیں۔

(۲) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ” (آل عمران : 85)

اور جو کوئی اسلام کے سواکسی اور دین کی تلاش کرے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔

قرآن حکیم کے ان ارشادات کے مطابق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت حقیقی طور پر سابقہ شریعتوں میں سے کوئی بھی موجود نہ تھی اور اگر کسی بگڑی ہوئی صورت میں کوئی دعوی بھی کرے تو بھی وہ منسوخ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعتوں کا دور ختم ہو چکا۔ اب شریعت محمدی اور امت محمدی کا عہد ہے۔ جس انسان نے کلمہ توحید پڑھ لیا وہ مسلمان اور جس نے اس کا انکار کیا وہ کافر ہے۔ اب ساری انسانیت کی کامیابی اور فلاح کا دارو مدار شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے میں ہے۔

(3) تکمیل دین:

(COMPLETION OF DIN)

دین اسلام کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا، اس کی تکمیل خاتم النبین حضرت محمد مصطفی سال کی آمد سے ہو گئی ۔ آپ کو جو دین کامل عطا ہوا وہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے کافی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

الْيَوْمَ الْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَالْمُمْتَ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ہے ۔ ” ( المائدہ 3)

(4) حفاظت کتاب:

PRESEVATION OF BOOK

اس کتاب (قرآن مجید ) کی حفاظت اور نگرانی کے سلسلہ میں ارشاد باری تعالی ہے:

انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّالَهُ لَحفِظُونَ (الحجر: 9)

ہم ہی نے اس ذکر (کتاب) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
آیت بالا سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ہمارے سامنے ہے ۔ سابقہ آسمانی کتب پہلے ہی خورد برد اور کمی بیشی کا شکار ہو چکی تھیں۔ سابقہ آسمانی کتب میں لفظی اور معنوی تبدیلیاں ہوئیں حتی کہ ان کی صحیح تعلیمات میں غلط اور من گھڑت عقائد کی اس قدر بھر مار ہوگی کہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بالکل ناممکن ہو گیا۔ باری تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کے انتظامات کچھ اس طرح کیے ہیں۔

(1) اس کا طریقہء نزول خود اس کی حفاظت کا ضامن تھا۔
(2) اس کا طریقہ ، ضبط
(3) تلاوت قرآن
(5) نماز میں قراءت کرنا
(6) قرآن کریم کی تعلیم و تدریس مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے۔
(7) قراءت و تجوید ایک مستقل فن ہے۔
(9) تفاسیر کا فن جس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ ہے۔
(4) حفاظ قرآن کی کثیر تعداد
(8) کثیر اشاعت

جیسا کہ شاعر نے کہا:-
نہ ہو ممتازکیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں
وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں
(5) سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت

PRESERVATION OF SUNNAH

سنت چونکہ قرآن کریم کی تشریح ہے۔ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کی حفاظت کا باقاعدہ انتظام کیا ہے۔ صرف کتابوں کی صورت میں محفوظ نہیں کیا ہے بلکہ ہر مسلمان قوم کا یہ عظیم اور بے مثال کارنامہ ہے کہ اس نے اپنے ہادی و پیغمبرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پوری حیات طیبہ کے مطابق خود کو ڈھالا ہے۔ یہ عملی صورت کسی اور تہذیب میں نہیں ملتی ۔

(١) آیت مبارکہ میں ارشاد ہے:

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ( الم نشرح : 4)

ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا۔

(۲) حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے:

نَضْرَ اللَّهُ إِمْرَأَ سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلِّغَهُ كَمَا سَمِعَ (جامع ترندی: 2657)

اللہ تعالی سر سبز و شاداب رکھے اس شخص کو جس نے مجھ سے کوئی بات سنی اور اسے دوسروں تک ویسے پہنچایا ۔

(6) تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامعیت:

COMPREHENSIVENESS OF TEACHINGS

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نہایت جامع ، سادہ اور قابل عمل ہیں۔ یہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں۔اپ کی تعلیمات صرف چند عبادات کا محور نہیں بلکہ ہم گیر اور مکمل ضابطہ حیات پیش کرتی ہیں۔ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس قدر جامع ہیں کہ قیامت تک کے انسان خواہ کی بھی قوم، علاقے یا زمانے سے تعلق رکھتے ہوں ان تعلیمات سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں.

(7) سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمہ گیریت:-

UNIVERSALITY OF SEERAH

خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات میں آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ جامع اور اکمل انسان ہیں۔ آپ پوری انسانیت کے قائد اور قافلہ نبوت کے سپہ سالار ہیں۔ آپ کا اُسوہ حسنہ ہر دور کے انسانوں کے لیے ایک بے مثال نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی معاملات ، سیاسی ہو یا معاشی، معاشرتی ہو یا اخلاقی ، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشہ کے لیے سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب: 21)

بے شک رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔“

(8) تمام روئے زمین سجدہ گا ہے:

THE WHOLE EARTH IS A PLACE OF WORSHIP

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس میں تمام روئے زمین کو سجدہ گاہ کی حیثیت دی گئی ہے اس میں عبادت کے لیے کسی مخصوص جگہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جبکہ دنیا کے باقی مذاہب میں عبادات کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے جس کے علاوہ کسی اور جگہ پر عبادت نہیں کی جاسکتی ۔ اس بات کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا۔
جہاں تیرا نام آیا وہیں پر جبیں جھکا دی”

(9)مقام محمود:-

THE HIGHEST LEVEL FOR THE BELOVED PROPHET

رسالت محمدی کی یہ سب سے نمایاں خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کا وعدہ فرمایا ہے ۔ جس کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں بھی آیا ہے۔
عسى ان يبعثك مقام محمودا
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مقام محمود عطا کیا جائے ۔ یہ وہ مقام و مرتبہ ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی کو حاصل نہیں ہوا۔

(10) حوض کوثر :

RIVER OF KAUSAR

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ اپکو روز محشر حوض کوثر عطا کیا جائے گا۔ یہ جنت کی ایک نہر کا نام ہے روز قیامت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نہر سے اپنی امت کو پانی پلائیں گے۔ قرآن کریم میں اس کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں آیا ہے۔

إِنَّا أَعْطَيْكَ الْكَوْثَر

بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کوثر ( خیر کثیر ) عطا کی ۔“

(11) ختم نبوت:

CULMINATION OF PROPHET HOOD

حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمایاں خصوصیات میں ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کسی نبی نے نہیں آنا۔ قرآن -پاک میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ختم النبین کے لقب سے پکارا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے

وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن ( آل عمران ۱۱۰)

لیکن آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں