رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی
پیغمبرے اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھی کہ ان کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور افراد خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا اج کے زمانے کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل ترین بات تھی لیکن حیات مبارکہ کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے اتی ہے کہ ازواج مطہرات ہوں یا اولاد خدام ہو یا اقرباء ،متعلقین ہو یا احباب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے حقوق کی رعایت فرماتے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے غافل نظر نہیں اتے ہر ان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حقوق کی فکر دامن گیر رہتی۔ایسا بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماتحت افراد کے لیے تنخواہ اور سخت گیر سرپرست کی حیثیت رکھتے ہوں بلکہ بیویوں کے حق میں ایک محبت کرنے والے شوہر اولاد کے حق میں ایک شفیق و مہربان باپ اور خدام کے حق میں ایک فراخ سے چشم اور حلیم و بردبار اقا کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ابھرتی ہے۔
ازواج مطہرات کے ساتھ حسن سلوک
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے؛
تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم سب سے زیادہ بہتر ہوں۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے وہ حضرات ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہوں۔
پیغمبرے اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جملہ گیارہ شادیاں کی اور بیک وقت نو بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب مدینہ میں ہوتے تو عصر کی نماز کے بعد تمام ازواج کے پاس جاتے اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کرتے اور اس کی تکمیل فرماتے ازواج کے مابین شب با شی کی باری متعین ہوتی گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی پابندی شرعا لازم نہیں تھی۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ طور خود پوری سختی کے ساتھ اس کا اہتمام کرتے ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہہ کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم معمول اور باری کے مطابق حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا موجود ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہاں یہ حفصہ کی باری ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ازواج کے مابین انصاف کا خیال اور اس سلسلے میں عند اللہ جواب دہی کا احساس اتنا شدید تھا کہ اللہ رب العزت سے دعا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان میں قرعہ اندازی کرتے جس کا نام قرعہ میں نکل اتا اس کو ساتھ لے جاتے.
بچوں کے ساتھ حسن سلوک
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچوں سے بہت محبت تھی راستے میں بچے کھیلتے ہوئے مل جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سلام کرتے۔گھر میں بچوں کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش اتے ان کو کندھے پر بٹھاتے گود میں لیتے چومتے ،پیار کرتے۔معلوم ہوا کہ مزاج میں اتنی سختی نہیں ہونی چاہیے کہ بچے دیکھتے ہی سہم جائیں اور چھپنے لگے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کسی ضرورت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی میں نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اٹھائے ہوئے ہیں میں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تم بھی ان دونوں سے محبت فرما اور اس شخص سے بھی جو ان دونوں سے محبت رکھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی بھی اسلام کے اس مزاج و مذاق کا ائینہ دار ہے ایک مرتبہ مسجد نبوی میں عید الفطر کے موقع سے چند حبشی نوجوان نیزوں سے کھیل رہے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتی ہیں میں نے دیکھنے کی خواہش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈے اور گردن کے درمیان سے میں کھیل دیکھتی رہی۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب رخصت ہو کر مدینہ ائیں تو اس وقت بھی ان کی عمر زیادہ نہ تھی اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں کا کھیل کھیلا کرتی تھی لیکن اپ نے کبھی اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا کبھی کبھی ازواج مطہرات کی موجودگی میں خوش طبعی کی باتیں بھی کرتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ دوڑ کا مقابلہ ہوا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ دبلی پتلی تھی اگے بڑھ گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے پھر کچھ زمانے کے بعد یہی مقابلہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبقت حاصل کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا بدلہ ہو گیا۔
غلام و خدام کے ساتھ حسن سلوک
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقاؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا لوگوں جو خود کھاؤ وہی ان کو بھی کھلاؤ جیسا کپڑا خود استعمال کرو ویسا کپڑا ان کے لیے بھی تیار کرو وہ تمہارے بھائی ہیں غلاموں کو بھائی قرار دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیوار کو منہدم کر دیا جو حاکم اور محکوم کے درمیان کھڑی تھی خادموں کے ساتھ شب و روز اور ہر وقت کا ساتھ ہوتا ہے کوتاہی اور لغزش بھول چوک انسانی فطرت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی 10 سال خدمت کی لیکن کبھی اف تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کیا ورنہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور جس کام کو میں نہیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرماتے کہ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا 10 سال کی رفاقت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اف تک نہیں کہا یہ تحمل و بردباری اور شفقت کی ایک مثال ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو اپ پہلے سلام کرتے اور ایسا انداز ہوتا کہ سونے والے بیدار نہ ہوں اور جو بیدار ہوں سلام کی اواز سن لیں اگر گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو خود انجام دے دیتے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آ کر کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھریلو زندگی میں حصہ لیتے تھے اور گھر کا کام بھی کرتے تھے مثلا بکری کا دودھ دوھ لیتے اپنے نالے مبارک سی لیتے۔
گھر میں جو کھانا تیار ہوتا حاضر کر دیا جاتا آپ کی مرغوب اور پسندیدہ شے ہوتی تو تناول فرماتے ورنہ خاموشی اختیار کرتے لیکن کھانے میں کوئی عیب نہیں لگاتے دن کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کرتی رات میں عشاء کی نماز کے بعد غیر ضروری جاگنے کو بالکل ناپسند کرتے اپ کا بستر بالکل معمولی ہوتا بسا اوقات چمڑے کا بستر ہوتا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہوتی اور کبھی چمڑا ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر ارام فرماتے
ایک کامل اور مکمل انسانی زندگی کی بنیادی شناخت یہ ہے کہ دنیا میں چھوٹے بڑے حاکم و محکوم دوستو اور دشمن اپنے اور پرائے امیر اور غریب ہر سطح اور ہر طبقہ کے لوگوں سے جہاں اس کے تعلقات لوگوں کے لیے مشکل مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہوں وہیں اپنی ازواج ،خدام ،اولاد ،متعلقین ،اقربا اور رشتہ داروں سے بھی وہ محبوب و مقبول ہو اور ان کے ساتھ تعلق کو سلوک کے باب میں بھی اس کی زندگی اسوہ اور مثال ہو۔اس طور پر دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کی زندگی اپنی مثال آپ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو زندگی کا جو نقشہ بنایا اور خود اس پر عمل کر کے دکھایا حقیقت یہ ہے کہ وہ گھریلو اور ازدواجی زندگی کے لیے بہترین نمونہ اور ہر طرح کی بے سکونی کا علاج ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے ائینے میں ہم اپنے گھریلو زندگی کو صحیح طور پر گزار سکتے ہیں۔