سورة العبس کا خلاصہ
سورة العبس کا خلاصہ
سورہ عبس مکی ہے، اس میں ۴۶ آیات ہیں، یہاں سے آخر تک ہر سورت ایک رکوع پر ہی مشتمل ہے اس لیے رکوعات کی تعداد بار بار بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس سورت کی ابتدا میں نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا قصہ مذکور ہے جو طلب علم کے لیے ایسے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے جب کہ آپ چند سرداران قریش کو دعوت اسلام دینے میں مصروف تھے، ایسی اہم مصروفیت کے وقت ان کے آنے سے آپ کو طبعی طور پر ناگواری ہوئی اور آپ نے ان کی بات کا جواب دینے سے اعراض کیا ، اس پر سورۃ عبس کی یہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ نے آپ کو تنبیہ فرمائی۔ اس کے بعد جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو ان کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے یہ ہیں وہ جن کی وجہ سے اللہ نے مجھے تنبیہ فرمائی تھی اور ان سے دریافت فرماتے کہ کوئی کام ہے تو بتاؤ آپ نے نابینا ہونے کے باوجود دوغزوات کے موقع پر انہیں مدینہ پر والی مقر فرمایا، یہ واقعہ اس جیسے دوسرے واقعات جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ فرمائی گئی ہے، ان کا قرآن کریم میں مذکور ہونا اس کی صداقت و حقانیت کی دلیل ہے۔ اگر معاذ اللہ ! قرآن آپ کا خود تراشیدہ کلام ہوتا تو آپ ایسی آیات اس میں ہرگز ذکر نہ فرماتے جن میں خود آپ سے باز پرس کی گئی ہے، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد یہ سورت انسان کے ناشکرا ہونے کو بتاتی ہے جو اپنی اصل کو بھول کر اللہ کے سامنے سرکشی اختیار کرتا ہے اگلی آیات میں رب تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کے تکوینی دلائل ہیں (۲۴-۳۲) اور اختتام پر قیامت کا وہ ہولناک منظر بیان کیا گیا ہے جب انسان خوفزدہ ہو کر قریب ترین رشتوں کو بھی بھول جائے گا، نفسانفسی کا عالم ہوگا کسی کوکسی کی فکر نہیں ہوگی ، ہر کسی کو اپنی ذات کا غم کھائے جار ہا ہوگا ، بہت سے چہروں پر کامیابی کی چمک ہوگی اور بے شمار پر نا کامی کی ذلت اور تاریکی چھائی ہوگی ۔ (۳۳-۴۲)