
سورة الفاتحه
سورة الفاتحه
زمانه نزول
یہ پہلی مکی سورت ہے جو دعوت کے ابتدائی خفیہ دور میں نازل ہوئی۔
چونکہ یہ قرآن مجید کی ابتدائی سورت ہے۔ اس کا اپنے مابعد دو سورتوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
مختلف نام
اس سورت کا معروف نام سورۃ الفاتحہ ہے ۔ فاتحہ کا معنی ” کھولنے والی“ کے ہیں ۔ اس جگہ اس سے مراد قرآن مجید کی ابتدا ہے۔ کیونکہ اس سورت سے قرآن مجید کا آغاز ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا نام الفاتحة ” رکھا گیا ہے۔ اس سورت کے کئی ایک نام ہیں :
فاتحة الكتاب
فاتحة القرآن
ام الكتاب
ام القرآن
الشافية
اساس القرآن
السبع المثاني
سورة الصلاة
فضیلت و اہمیت
قرآن مجید کی سب سے عظمت والی سورت :
سید نا ابوسعید فرماتے ہیں کہ :
كُنتُ أُصَلِّي فِي المَسْجِدِ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَجِبْهُ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ : أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يحييكم) . ثُمَّ قَالَ لِي : لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِي أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي القُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ . ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، قُلْتُ لَهُ : أَلَمْ تَقُلْ لَأُعَلَّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ سُورَةٍ فِي القُرْآنِ، قَالَ : الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ) هي السَّبْعُ المَثَانِي، وَالقُرْآنُ العَظِيمُ الَّذِي أوتيته
میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا ، میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
( پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کر ) عرض کی اے اللہ کے رسول ! میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا : اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو۔ پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے ۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( الحمد لله رب العالمین یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا۔ صحيح البخاري: 4474
اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی :-
سید نا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :
تُحِبُّ أَنْ أَعَلَّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الإِنجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الفُرْقَانِ مِثْلُهَا ؟ قَالَ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ ؟ قَالَ : فَقَرَأَ أُمَّ القُرْآنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الإِنجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ المَثَانِي وَالقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أَعْطِيتُهُ
کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ! ( ضرور سکھائیے ) رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا : نماز میں تم (قرآن) کیسے پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے ام القرآن ( سورۃ فاتحہ ) پڑھی ۔ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تورات میں، انجیل میں، زبور میں (حتیٰ کہ ) قرآن مجید میں اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہی سبع مثانی ( سات آیتیں ) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا۔ (سنن الترمذی)
سورۃ الفاتحہ ایسا نور ھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل نہیں کیا گیا
سید نا ابن عباس رض فرماتے ہیں :
بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ : هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ : هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلُ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ : أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيَتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِي قَبْلَكَ : فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ
ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے اوپر زور سے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور فرمایا: یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھلا ہے ، آج سے پہلے یہ بھی نہیں کھولا گیا۔ تو اس سے ایک فرشتہ اترا، پھر فرمایا: یہ فرشتہ زمین پر اترا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس فرشتے نے سلام کیا اور کہا: آپ کو دونوروں کی خوش خبری ہو، جو آپ کو دیئے گئے ہیں، آپ سے پہلے وہ کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے، فاتحہ الکتاب اور سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے وہ چیز آپ کو ضرور عطا کر دی جائے ۔ سے گی۔
نزول فاتحہ کے وقت ابلیس کا رونا
سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنَّ إِبْلِيسَ رَنَّ حِينَ أُنْزِلَتْ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ
بلا شبہ ابلیس زور سے رویا جب سورۃ الفاتحہ نازل ہوئی۔ صحیح مسلم: 806
سورة الفاتحه ام القرآن ( پورے قرآن کی ماں ) ہے
المعجم الاوسط : 4788
سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الفاتحہ کے بارے میں فرمایا:
هي أُمُّ الْقُرْآنِ، وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي، وَهِيَ الْقُرْآنُ الْعَظِيمُ
یہی ام القرآن ہے، یہی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور یہی قرآن عظیم ہے۔
جمعہ کے روز سورۃ الفاتحہ پڑھنے کی فضیلت
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رض فرماتی ہیں:
مسند احمد مَنْ قَرَأَ بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ، وقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ، وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، وَقُلْ أَعُوذُ برب النَّاسِ حَفِظَ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ
جس نے جمعہ کے بعد سورة الفاتحہ، قل هو الله احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھیں، اس کی ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک حفاظت ہوگی ۔
امام وسیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فجربناه فوجدناه كذالك
میں نے اس کا تجربہ کیا تو میں نے ایسے ہی پایا۔ مصنف ابن ابی شیبه : 29602،
سورۃ الفاتحہ دعا ہے
سیدنا ابو ہریرہ رض فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ : (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، قَالَ اللهُ تَعَالَى : حَمِدَنِي عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ : (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، قَالَ اللهُ تَعَالَى : أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ : مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ، قَالَ : مَجْدَنِي عَبْدِي – وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي – فَإِذَا قَالَ : (إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ قَالَ : هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ : اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ : هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ
میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ، وہ اسی کا ہے۔ جب بنده ( الحمد لله رب العالمین (سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔)
تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری شنا بیان کی۔ پھر جب وہ کہتا ہے : ( مالک یوم الدین ) جزا کے دن کا مالک تو ( اللہ ) فرماتا ہے : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک دفعہ فرمایا: میرے بندے نے (اپنے معاملات ) میرے سپرد کر دیے۔ پھر جب وہ کہتا ہے : ( ایاک نعبد و ایاک نستعین ) ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ تو (اللہ) فرماتا ہے: یہ (حصہ ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ، وہ اس کا ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے : ( اهدنا الصراط المستقیم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب علیہم والا الضالین ) ” ہمیں راہ راست دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ غضب کیے گئے لوگوں کی ہو اور نہ گمراہوں کی “ تو (اللہ ) فرماتا ہے: یہ میرے غیر بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہی ہے جو اس نے مانگا۔ صحیح مسلم: 878
سورۃ الفاتحہ شفا ہے
سیدنا ابو سعید خدری رض سے روایت ہے ، انہوں نے کہا:
كُنَّا فِي مَسِيرٍ لَنَا فَنَزَلْنَا، فَجَاءَتْ جَارِيَةٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ سَيِّدَ الحَي سَلِيمٌ، وَإِنَّ نَفَرَنَا غَيْبٌ فَهَلْ مِنْكُمْ رَاقٍ؟ فَقَامَ مَعَهَا رَجُلٌ مَا كُنَّا تَأْبَتُهُ بِرقْيَةٍ، فَرَقَاهُ فَبَرَأَ، فَأَمَرَ لَهُ بِثَلَاثِينَ شَاةً، وَسَقَانَا لَبَنًا، فَلَمَّا رَجَعَ قُلْنَا لَهُ : أَكُنتَ تُحْسِنُ رُقْيَةً أَوْ كُنْتَ تَرْقِي؟ – قَالَ : لَا ، مَا رَقَيْتُ إِلَّا بأم الكتاب، قُلْنَا : لا تُحْدِثُوا شَيْئًا حَتَّى نَأْتِي – أَوْ نَسْأَلَ – النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا المَدِينَةَ ذَكَرْنَاهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : وَمَا كَانَ يُدْرِيهِ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي بِسهم
ہم ایک سفر میں تھے تو ایک قبیلے کے نزدیک ) ہم نے پڑاؤ کیا۔ وہاں ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ قبیلے کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں کیا تم میں سے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے کے لیے کھڑا ہوا، حالانکہ ہم اسے جھاڑ پھونک والا خیال نہیں کرتے تھے، چنانچہ اس نے دم کیا تو سردار تندرست ہو گیا اور اس نے ( شکرانے کے طور ) تیس (30) بکریاں دینے کا حکم دیا، نیز ہمیں دودھ بھی پلایا ۔ جب وہ شخص واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا۔ کوئی دم جانتے ہو اور تیرے پاس اچھا سادم ہے؟ اس نے کہا: نہیں میں نے تو صرف فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا۔
ہم نے کہا: جب تک ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ پوچھ نہ لیں ان کے متعلق کچھ نہ کریں پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو ہم نے آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: اس کو کیسے معلوم ہوا کہ فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے بہر حال بکریاں تقسیم کر لو اور میرا بھی ان میں حصہ رکھو۔
ایک دوسری روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ان لوگوں نے سیدنا ابو سعید خدری رض اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی سے انکار کیا تھا ، اس لیے انہوں نے تیس بکریوں کی شرط رکھی تھی۔
سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بغیر نماز نہیں ہوتی
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ
جس نے ام القرآن ( یعنی سورۃ الفاتحہ ) پڑھے بغیر نماز ادا کی تو وہ ( نماز ) ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نامکمل ہے۔
ترجمہ سورہ فاتحہ
میں چاہیے کہ : ہمیشہ اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد کریں :
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
بے حد رحم والا نہایت مہربان ہے۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلے کے دن کا مالک ہے۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )
“ان لوگوں کے راستے جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ کہ ان لوگوں کے راستے جن پر غضب نازل ہوا، اور نہ ہی جو گمراہ ہیں۔” (الفاتحة: 7)
خلاصه سورت
سورة الفاتحہ سارے قرآن مجید کا خلاصہ ہے اور سورۃ الفاتحہ کے خلاصہ میں چار باتیں ہیں
عقیدہ توحید
اللہ تعالی کی عبادت
اسلامی طرز زندگی
نیک و بدلوگوں کے کردار اور ان کے انجام کے قصوں سے راہنمائی حاصل کر کے خود کی اصلاح ۔