
سیرت محمدی ﷺ کا پیغام دنیا کے لیے
سیرت محمدی ﷺ کا پیغام دنیا کے لیے
جس وقت نبی کریم ﷺ کی بعثت دنیا میں ہوئی تب بھی دنیا کوئی قبرستان یا ویران نہیں تھی تھوڑے بہت فرق سے سب کچھ یونہی چل رہا تھا تجارت، زراعت،کاروبار اور حکومتیں سب کچھ تھا اور یہ سب چلانے والے اپنے اپنے طرز زندگی پہ بالکل مطمئن تھے انکو کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی اللہ ﷻ کو اس وقت کے لوگوں کی یہ ترتیب بالکل پسند نہیں تھی اسلئے اللہ ﷻ نے اپنے آخری نبی کو مبعوث فرمایا ایک قوم مسلمان کو کھڑی کیا اگر مسلمانوں کو صرف تجارت کے لئے پیدا کیا تھا تو اس وقت کے اہل مکہ جو شام و یمن میں تجارت کرتے تھے انکو اور یہود مدینہ جو سوداگر تھے اور بہت اچھی معیشت چلاتے تھے یہ پوچھنے کا حق تھا کہ ہم کونسی تجارت میں کمی کر رہے تھے جو یہ امت کھڑی کی جارہی ہے اگر دنیا کی مشینری میں صرف فٹ ہونا تھا اور اجرت پہ دفاتر کے نظم اور حکومتوں کو چلانا تھا تو اہل روم اور ایران یہ پوچھ سکتے تھے کہ ان فرائض کی انجام دہی کے لیے ہم لوگ کافی ہیں اور بہت سے لوگ بے روزگار ہیں اور لوگوں کی کیا ضرورت ہے؟
لیکن مسلمان دراصل بالکل نئے اور الگ کام کے لیے پیدا کیے جا رہے تھے جو دنیا میں کوئی اور انجام نہیں دے رہا تھا اور نا انجام دے سکتا تھا اسی لیے الله ﷻ نے فرمایا تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئ ہو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ ﷻ پہ ایمان رکھتے ہو اسی مقصد کے لیے صحابہ بے گھر ہوئے کاروبار کا نقصان برداشت کیا اپنی جمی جمائی تجارتوں کو سمیٹ دیا اپنی کھیتی باڑی کو ویران کیا اپنے عیش و عشرت کو خیر آباد کہا دنیا کی ہمارے جیسی بہت سی کامیابیوں سے آنکھیں بند کر لیں اپنے بچوں کو یتیم کیا عورتوں کو بیوہ ہونے دیا ان مقاصد اور عیش و عشرت جن پہ آج کے مسلمان مطمئن ہیں انکے لیے تو اوپر بتائی قربانیوں کی ضرورت ہی نہیں تھی ان سب کے حصول کا راستہ تو بہت آسان اور بغیر خطرے کے تھا نا ہی ان میں دنیا سے کوئی تصادم تھا نا ہی ان مقاصد پہ اہل مکہ کو کوئی اختلاف تھا بلکہ یہ تو وہ چیزیں ہیں جن کی خود نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو پیش کش کئی بار کی گئی۔ جو آج کے مسلمانوں کا نصب العین ہیں۔ ہر بار اسلام کے داعی نے انکو ٹھکرایا سوچنے کی بات ہے اگر پھر سے مسلمانوں نے اسی لائف سٹائل پہ انہیں مقاصد پہ آجانا تھا تو جو اس وقت کے ناسمجھ لوگوں کے تھے انہیں چیزوں کو کامیابی قرار دینا تھا جن کو نبی کریم ﷺ متعدد بہترین مواقع پہ رد کر چکے تھے تو یہ اسلام کی ابتدائی تاریخ پہ پانی پھیرنے کے مترادف ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ انسانوں کا وہ بیش قیمت خون جو بدرو حنین و احزاب اور قادسیہ و یرموک میں بہایا گیا۔۔۔ بے ضرورت بہایا گیا آج اگر سرداران قریش کو آج بولنے کی طاقت ہوتی تو وہ مسلمانوں کو خطاب کر کہ کہتے کہ تم جن چیزوں کے پیچھے سرگرداں ہو اور اپنی زندگی کا مقصد سمجھ رکھا ہے ان سب کو تو ہم گناہ گاروں نے تمہارے پیغمبر ﷺ کے سامنے پیش کیا تھا یہ سب انہیں خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر حاصل ہو سکتی تھیں تو اس تمام جدوجہد کا حاصل کیا تھا اگر زندگی اسی زمانے کے لوگوں کے اخلاق اور ترجیحات کی سطح پہ ہی گزارنی تھی۔ اگر سرداران قریش کو جرح کرنے کا موقع ملے تو آج ہمارا کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی اسکا تشفی بخش جواب نہیں دے سکتا اور ۔۔۔۔۔۔
امت کے پاس شرمندہ ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں یہی خطرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں سے1 متعلق تھا کہ وہ دنیا میں پڑ کر اپنا مقصد نا بھول بھی جائیں اور دنیا کی عام سطح میں نا آجائیں اسی لیے آپ ﷺ نے وفات کے قریب جو تقریر فرمائی اس میں مسلمانوں سے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کے متعلق فقر و افلاس کا خطرہ نہیں بلکہ اس چیز کا اندیشہ ہے کہ تم کو دنیا میں وہی کشائش نا حاصل ہو جائے جو پہلے لوگون کو حاصل تھی
حاصل کلام یہ ہے کہ مسلمان کی زندگی کی اصلی ساخت یہی ہے کہ یا تو اسلام کی دعوت اور عملی جدوجہد میں مشغول ہو یا اس عملی جدوجہد کرنے والوں کے لیے پشت پناہ و مددگار ہو اور ساتھ ساتھ خود بھی عملی جدوجہد میں حصہ لینے کا عزم اور شوق رکھتا ہو
اپنی زندگی میں مطمئن اور محض کاروباری زندگی اسلامی زندگی نہیں
اور کسی طرح بھی یہ ایک مسلمان کا مقصود حیات نہین ہوسکتا جائز مشاغل زندگی اور جائز وسائل مشیت ہرگز ممنوع نہیں بلکہ نیت کی اصلاح کے ساتھ اجر کی طلب کے ساتھ عبادت اور قرب الہی کا ذریعہ ہیں مگر اس وقت جب یہ سب دین کے سایہ میں ہوں اور صحیح مقاصد کا وسیلہ ہوں نا کہ خود مقصود بالذات ہوں سیرت محمدی ﷺ کا یہ سب سے بڑا پیغام ہے اور خالص مسلمانوں کے نام ہے اسکی طرف توجہ نا کرنا اسکے مقصد کو ضائع کر دینا ہے اور سب سے بڑی حقیقت کی طرف سے چشم پوشی کرنا ہے جو سیرت محمدی ﷺ مسلمانوں کے سامنے پیش کرتی ہے
سیرت نبی ﷺ کی عصر حاضر میں معنویت و افادیت
*نبی کیا کام کرتا ہے جسکی وجہ سے اسکو اتنا بلند مقام ملتا ہے*
*وہ نوع انسانی کے لیے کیوں ضروری ہے*
دنیا میں چلتے لوگوں کے قافلے کے لئے یہ بات خطرے سے بھرپور کیوں ہے اگر اس سفر میں انہیں ایک پیغامبر ایک راہنما کی رہنمائی حاصل نہیں اسکے لیے ایک کہانی دوبارہ سے سمجھیں۔ ایک بار چند نوجوانوں کو سیر کا خیال آیا، وہ دریا کے قریب ایک بستی میں رہنے والے تھے برسات کا موسم تھا انکو شوق ہوا کہ دریا کی سیر کرتے ہیں اور موسم کا لطف اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے ایک کشتی کرائے پہ لی اس پہ سوار ہوئے۔ بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے، دریا بھی روانی پہ تھا انکی طبیعت پہ بھی موجوں کا اثر تھا۔ انہوں نے ملاح سے اسکی عمر پوچھی جو اس نے بتایا کی 60 سال ہے، ایک نوجوان نے پوچھا آپ نے کیا پڑھا ہے۔ ملاح نے کہا میری کیا اوقات ہے میں نے تو شروع سے بس کشتی چلائی ہے، مجھے پڑھنے کا موقع نہیں ملا، اتنے میں ایک نوجوان نے پوچھا چچا آپ نے جغرافیہ پڑھا، بیچارے ملاح نے کہا میں نے تو اسکا نام ہی کبھی نہیں سنا، دوسرے نے پوچھا آپ نے ہسٹری پڑھی ہے،ملاح نے کانوں کو ہاتھ لگایا، ایسے ہی نوجوانوں نے جیومیٹری اور باقی مضامین کا پوچھا، ملاح بے چارے میں پریشانی اور شرمندگی میں سر جھکا دیا۔ جس پہ نوجوانوں نے کہا کہ چچا آپ نے تو اپنی آدھی عمر گنوا دی ہے۔ آپ نے کچھ کام نہیں کیا اتنے میں دریا میں موجیں کچھ ہوا سے تیز ہوئیں کشتی ڈانواڈول ہوئی ادھر ادھر جھکنے لگی۔ ملاح کی جان پہ بن آئی لیکن خدا کو اسکی حالت پہ رحم آیا۔ اس نے کہا میں بھی ایک بات تم لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ تم سب نے یہ سب کچھ پڑھا ہے کیا تیرنا بھی سیکھا ہ انہوں نے کہا نہیں سیکھا تو ملاح نے کہا جاو تم نے اپنی پوری عمر ڈبو دی انہوں نے تو ملاح کو آدھی عمر کھونے کا کہا ملاح نے کہا کہ تم نے اپنی پوری عمر ڈبو دی ہے اگر کشتی الٹ گئی تو میں تو ہاتھ پیر مار کر کنارے پہ چلا جاؤں گا دریا میرا گھر ہے میں اسکی مچھلی ہوں تم نے جو اتنے مشکل نام لیے اپنی تعلیم کے وہ تمہارے کیا کام آئیں گے۔
یہاں تو بس سیدھا سیدھا تیرنا ہی کام آئے گا۔ جسکو دریا عبور کرنے کا فن نہیں آتا اسکے اور کوئی علم اب کام نہیں آئے گا ہماری پوری زندگی کی یہی مثال ہے۔ ہمارے تمام انسانی علوم کے ماہر بانی، دنیا کے دانش ور، فلسفی، حکیم، ڈاکٹر، ریاضی دان، سائنس دان ان سب سے گزارش ہے اے انسانی عقل کے کمالات دکھانے والو، زمین کے خزانوں کو اگلوانے والو، آسمان کے تارے توڑنے والو، اے چاند پہ پہنچنے والو۔۔۔۔
*جان لو کہ تم سب خطرے میں ہو جب تک تمہیں وہ علم نہیں آتا جن پہ زندگی کی بنیاد ہے، جس کی وجہ سے یہ انسانی شیرازہ جمع ہے، وہ بڑے مقاصد جن کی وجہ سے دنیا قائم ہے، اور اگر تم نے وہ سب نہیں سیکھا جو پیغمبر سکھاتے ہیں اسکے علاوہ سب کچھ سیکھ لیا ہے*
تو اگر وہ فرد ہے تو وہ خطرے میں ہے اگر قوم ہے تو خطرے میں ہے، اگر تمدن ہے تو خطرے میں ہے، تہذیب ہے تو خطرے میں ہے، علمی مرکز ہے تو خطرے میں ہے، قیادت ہے تو وہ خطرے میں ہے۔
اگرچہ یہ مثال مقام نبوت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی لیکن اسکو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمیں اپنی حقیقت کا علم نہیں، ہمیں علم نہیں زندگی کتنی وسیع کتنی نازک یے, اسکو گزارنا کتنا بڑی ذمہ داری ہے، زندگی کے دریا کو عبور کرنے کے لیے کن بنیادی حقیقتوں پہ ایمان لانے اور ان پہ مضبوطی سے قائم رہنے کی ضرورت ہے، انکی حفاظت کے لیے کیسے ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے، پیغمبر بڑے بڑے دعوے نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ زندگی کے دریا کو پار کرنے کا فن ہم سے سیکھا جائے۔ اگر یہ زندگی عزیز ہے اور اگر تم انسانوں کی طرح اس دنیا میں رہنا چاہتے ہو خالق کائنات کو سمجھنا چاہتے ہو اسکو راضی کرنا چاہتے ہو تو اسکے لیے ہم حاضر ہیں ہمیں خدا نے اسکے لیے معمور کیا ہے نبی کریم ﷺ اور تمام انبیاء علیہم السلام کیا کام انجام دیتے تھے ملاح کی مثال کو دوبارہ دیکھئے نوجوانوں نے لائبریریوں کی لائبریریاں اپنے دماغ میں اتار لیں فلسفے کے سمندر پی لیے لیکن یہ سب ملاح کے فن کے آگے بالکل بے وقعت انسان تھے انکی زندگی خطرے میں تھی، وہ سب کشتی پہ سوار تھے جو بس ملاح چلانا جانتا تھا، وہ اس فن سے ناشناس تھے
نبوت کا کام نبی ہی جانتا ہے
جتنے علوم کو لوگ دنیا میں مسخر کرتے ہیں حاصل کرتے ہیں اپنی زندگیاں لگاتے ہیں دنیا کے کتنے متضاد عناصر مثبت منفی قوتیں ایک مصالحت اور تعاون سے ساتھ ساتھ کیوں چل رہی ہیں ان میں ٹکراو کیوں نہیں ہوتا کوئی چیز اپنی حد سے آگے کیون نہیں بڑھتی
سب تکوینی علم کے پیچھے کونسی طاقت کارفرما ہے نبی کا کام ہے کہ وہ اعلان کرے کہ اس عالم سے پرے بھی ایک دنیا ہے۔ خالق کائنات ہے.اسکی ذات اسکی صفات ہیں اسکا ایک طریقہ کار ہے اگر ہم نے نبی کے بتائے گئے طریقے سے یہ سب نا سمجھا تو ہماری زندگی ختم ہو جائے گی اور یقینا ساری کی ساری اکارت جائے گی۔