سیرۃ النبی ﷺ اور معاشرتی حقوق
سیرۃ النبی ﷺ اور معاشرتی حقوق
انسان دنیا کی جاندار چیزوں میں سے وہ مخلوق ہے جو ا کٹھے مل جل کر زندگی گزارتے ہیں۔ تمدن، محلے، بستیاں، مکانات ، شہر، ریاستیں ، حکومتیں کسی اور مخلوق میں نہیں ہیں۔ یہ سسٹم نہ شیروں میں ہے، نہ ہاتھیوں میں ہے۔ تمدن یعنی مل جل کر رہنا، ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا، یہ صرف انسانوں میں ہے، اگر چہ دوسرے جاندار بھی یہ کرتے ہیں لیکن محدود دائرے میں ۔ تمدن کو معاشرت بھی کہتے ہیں اور یہ انسان کا خاصہ ہے۔ ایک عام لفظ بولا جاتا ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے، انسان میں مدنیت ، شہریت ، اجتماعیت، معاشرت ہوتی ہے، اور اکٹھے رہنا انسان کی مجبوری بھی ہے، انسان کی ضرورت بھی ہے اور انسان کی عادت بھی ہے۔ اکٹھے رہنے کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھنا اور ایک دوسرے کی ذمہ داریاں پوری کرنا ضروری ہے۔ جہاں چند آدمی اکٹھے رہتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کا لحاظ رکھنا پڑے گا، ایک دوسرے کی بات سننی پڑے گی، ایک دوسرے کا کام کرنا پڑے گا، ایک دوسرے سے کام لینا پڑے گا۔ اس کو معاشرت ، تمدن اور سماج کہتے ہیں۔
معاشرتی حقوق کی ترتیب
اسلام تمدن اور سماج کا مذہب ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے آپس کے جو حقوق بیان کیے ان کی ترتیب یہ ہے کہ؛
گھر والوں کے حقوق
آپ نے سب سے پہلے گھر والوں کے حقوق بیان کیے ہیں، اولاد کے لیے ماں باپ کے حقوق ، والدین کے لیے اولاد کے حقوق، بھائیوں کے لیے بہنوں کے حقوق ، بہنوں کے لیے بھائیوں کے حقوق ، خاوندوں کے لیے بیویوں کے حقوق ، بیویوں کے لیے خاوندوں کے حقوق اور پھر دوسرے قریبی رشتہ داروں کے حقوق ۔ قرآن کریم نے حقوق اس ترتیب سے بیان کیے ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
”ات ذا القربى حقه“ (سورہ الاسراء ۲۶)
سب سے پہلا حق ماں باپ، اولاد، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کا ہے۔
رشتہ داروں کے حقوق
اس کے بعد دوسرے قریبی رشتہ داروں کا حق بیان کیا ہے اور اسے ”حقہ“ کہہ کر بیان کیا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کو بھی ان کے حقوق درجہ بدرجہ ادا کرو، اس کو صلہ رحمی کہتے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صلہ رحمی دوہری عبادت ہے۔ ویسے خرچ کرنا صدقہ ہے اور رشتہ داروں پر خرچ کرنا دوہرا صدقہ ہے کہ اس میں صدقہ کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔
پڑوسیوں کے حقوق
اس کے بعد جناب نبی کریم نے تیسرا دائرہ پڑوسیوں کا ، اردگرد رہنے والوں کا بیان فرمایا؛
والجار ذي القربى والجار الجنب والصاحب بالجنب“ (سورہ النساء ۳۶)
یہ تین قسم کے پڑوسی بیان کیے ہیں، ایک وہ پڑوسی جو رشتہ دار بھی ہیں، دوسرے وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ہیں، اور تیسرے پہلو کا ساتھی جسے کو لیگ کہتے ہیں، جیسے کلاس فیلو ، سفر کا ساتھی کسی کام میں شریک، ملازمت میں ساتھ کام کرنے والا۔ یہ تیسرا دائرہ پڑوسیوں کا ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے کہ پڑوسیوں کا لحاظ رکھا کرو کہ اگر گھر میں کوئی اچھی چیز پکائی ہے تو پڑوسیوں کو بھی دوہ کہتی ہیں میں نے پوچھا پڑوس کی حد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، چاروں اطراف سے دس دس گھر ۔ عرض کیا چالیس گھروں میں بھجوانے کے لیے کھانا تو میرے پاس نہیں ہوتا۔ فرمایا، اس گھر میں بھیجو جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے زیادہ قریب ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق میں یہ بات ہے کہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو، خوشی غمی میں شریک ہو، ایک دوسرے کی ضرورت میں کام آئے۔ آج کل ہمارا حال یہ ہے جدید سوسائٹی (پوش کالونیوں) میں تو پڑوسی کا پتہ نہیں ہوتا کہ کون ہے، جب تک اس گھر میں خوشی غمی کا موقع نہ آئے، کئی کئی سال تک کوئی خبر نہیں ہوتی کہ ساتھ کون رہتا ہے، بلکہ شادیاں بھی آج کل شادی ہالوں میں ہوتی ہیں حالانکہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
“ليس المؤمن الذى يبيت شبعان وجاره جائع في جنبه وهو يعلمه”
جس کا پڑوسی اس کے پڑوس میں رات بھوکا سویا ہے، اس کو معلوم ہے اور یہ خود پیٹ بھر کے سویا ہے، فرمایا اس کو مومن کہلانے کا حق نہیں ہے۔
معاشرے کے حقوق
اس کے بعد چوتھا دائرہ ہے سوسائٹی کا کہ عمومی معاشرے میں جو محتاج اور ضرورت مند ہیں ان کا خیال رکھا جائے ۔ کوئی معذور ہے، کوئی مصیبت زدہ ہے، کوئی پریشان حال ہے تو ان کے حقوق ادا کیے جائیں ۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا؛
وفى اموالهم حق للسائل والمحروم (سورہ الذاریات ۱۹)
جو مال میں نے تمہیں دیا ہے وہ سارا صرف تمہارا نہیں ہے اس میں دوسروں کا بھی حصہ اور حق ہے سائل کا بھی اور محروم کا بھی۔ سائل سے مراد وہ ضرورت مند ہے جو اپنی ضرورت کا خود اظہار کرے ، سائل سے مراد وہ سوالی نہیں ہیں جو گلیوں میں مانگتے پھرتے ہیں۔ جبکہ محروم سے مراد وہ ہے جو ضرورت مند تو ہے لیکن مانگتا نہیں ہے۔ معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں، ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں جو ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا کی وجہ سے، اپنے عزت و وقار کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، ایسے لوگوں کو سفید پوش کہا جاتا ہے کہ بظاہر دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہے، کپڑے اچھے پہنے ہوئے ہیں، مگر اندر کا حال یا وہ جانتا ہے یا خدا جانتا ہے۔ اس کا بھی حق ہے کہ اس پر خرچ کیا جائے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو مانگتا ہی نہیں ہے، اپنی ضرورت کا اظہار ہی نہیں کرتا ، اس کو کیسے پہچانیں گے کہ اس کو اس کا حق دیا جا سکے ۔ قرآن کریم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ؛
تعرفهم بسيمهم لا يسئلون الناس الحافا“ (سوره البقره ۲۷۳)
سمجھدا آدمی علامتوں سے، اس کے حالات و معمولات سے پہچان لیتا ہے، اور ان کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ یعنی سوسائٹی کے وہ افراد جو اپنی ضروریات کا اظہار کرتے ہیں، ان کا بھی تم پر حق ہے اور جو افراد باوجود محتاج ہونے کے اپنی ضروریات کا اظہار نہیں کرتے ان کا بھی تم پر حق ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس سے ایک اور فریضہ بھی عائد ہو جاتا ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنا کہ کون کس کیفیت میں ہے۔ یہ بھی مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ تو معلوم ہوا کہ پہلا درجہ اپنے اہل خانہ کا ہے۔ دوسرا درجہ برادری، رشتہ دار، قبیلہ کا ہے۔ تیسرا درجہ پڑوسیوں کا ہے اور چوتھا درجہ سوسائٹی کا ہے۔ قرآن کریم نے تفصیل اور ترتیب کے ساتھ حقوق بیان کیے ہیں۔ یتیموں، مسکینوں، پڑوسیوں، مسافروں اور غلاموں کے حقوق درجہ بدرجہ بیان کیے اور یہ فرمایا کہ یہ تمہارا احسان نہیں ہے بلکہ ان کا حق ہے .
جانوروں کے حقوق
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں۔ اس زمانے میں اونٹ ،گھوڑے اور خچر کی سواری ہوتی تھی، اگر کوئی سوار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے تھے سواری کدھر ہے اسے کہاں باندھا ہے؟ ایک مرتبہ آپ مسجد میں تھے ایک آدمی آیا، اس نے اونٹ باہر چھوڑا اور خود مسجد میں آگیا ، سلام عرض کیا آپ نے اس سے پوچھا کیسے آئے ہو؟ عرض کیا اونٹ پر ۔ فرمایا اونٹ کدھر ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ! اللہ کے تو کل پر باہر چھوڑ دیا ہے۔ فرمایا نہیں جا کر پہلے اونٹ کے پاؤں باندھو پھر تو کل کرو۔ میزبان کی ذمہ داری ہے کہ پہلے مہمان کے جانور کے چارے کا اور اس کے آرام کا اہتمام کرے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خیال کیا کرتے تھے ۔ آج کل مثلاً اگر مہمان موٹر سائیکل یا گاڑی پر آیا ہے تو اس سے پوچھنا چاہیے کہ موٹر سائیکل، گاڑی کہاں کھڑی کی ہے، محفوظ جگہ پر کھڑی کی ہے؟ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن یہ بھی حقوق میں شامل ہیں۔
راستے کے حقوق
لوگ آج انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو راستے کا حق بھی بیان فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ راستے میں مت بیٹھا کرو جہاں لوگ آجار ہے ہوں، وہاں بیٹھ کر مجلس مت لگاؤ ، اس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے کوئی ساتھی ملنے کے لیے آگیا اور گھر میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہو تو باہر گلی میں ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ اگر کسی مسئلے میں کوئی مجبوری ہوتی تھی تو صحابہ عرض کر دیا کرتے تھے کہ یا رسول اللہ یہ مجبوری ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجبوری کا حل بتاتے تھے یا کسی کا بتایا ہواحل قبول فرماتے تھے۔ مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر پالتو گدھے کی حرمت کا اعلان فرمایا اورحکم فرمایا “ ہنڈیا الٹادو جس میں گدھے کا گوشت پک رہا ہے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا دھونے سے کام چل نہیں جائے گا ؟ گوشت پھینک دیتے ہیں لیکن ہنڈیا کی پھر بھی ضرورت پڑے گی تو آپ نے اجازت فرمادی کہ ہنڈیا دھو لو۔ اسی طرح جب صحابہ نے کہا راستے میں بیٹھنا ہی پڑتا ہے تو آپ نے فرماما؛
اعطوا الطريق
راستے کے حقوق دو، اگر راستے میں مجلس لگانا ہی پڑتی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! کیا راستے کا بھی کوئی حق ہوتا ہے؟
ما حق الطريق
گلی اور سڑک کا کیا حق ہوتا ہے؟ آپ نے راستے کے یہ حقوق بیان کیے
غضوا البصر
تاک جھانک نہ کرو
“كفوا الاذى عن الطريق“
راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز ( روڑا، کیلے کا چھلکا وغیرہ ) نظر آئے تو اسے ہٹا دو ۔ گویا آنے جانے والوں کا حق ہے کہ ان کو تکلیف سے بچاؤ۔ اور فرمایا ” ردوا السلام سلام کہنے والے کو جواب دو۔ سلام کہنا اور سلام کا جواب دینا راستے کا مستقل حق ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے، ان کے شاگرد ہیں امام التابعین حضرت نافع ۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک دن ابن عمر نے مجھے کہا ، نافع ! مجھے بازار لے جاؤ چکر لگانا ہے، کام ہے۔ میں ساتھ چل پڑا، بازار میں چلتے گئے چلتے گئے ایک جگہ جا کر فرمایا چلو واپس چلتے ہیں۔ نافع نے عرض کیا ، حضرت! آپ بازار میں کس کام آئے تھے؟ بازار میں آدمی خرید و فروخت کرتا ہے، آپ
نے تو کوئی خرید وفروخت نہیں کی۔ فرمایا میں جس کام سے آیا تھا وہ کام کر لیا۔ عرض کیا، حضرت میں بھی ساتھ ہی تھا، آپ نے کیا کام کیا ہے؟ فرمایا، بازار جاتے ہوئے کچھ لوگوں کو میں نے سلام کہا، انہوں نے جواب دیا، کچھ نے مجھے سلام کہا، میں نے جواب دیا، میں اسی کام کے لیے بازار آیا تھا کہ کافی عرصہ ہوا تھا میں گھر سے بازار نہیں آیا تھا اور راستے کا سلام جواب نہیں ہوا تھا جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کا ایک یہ حق بیان کیا ؛
الامـر بـالـمـعـروف والنهي عن المنکر
نیکی کا حکم کرنا، نیکی کے کام میں کسی کوکو تا ہی کرتے ہوئے دیکھ کر اسے تنبیہ کرنا اور برائی سے منع کرنا ، یہ بھی راستے کے حقوق میں سے ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرتی حقوق بیان فرمائے ، اس کے میں نے کچھ دائرے بیان کیے ہیں، گھر، رشتہ دار، پڑوی، عمومی سوسائٹی، راستہ اور سڑک وغیرہ کے حقوق جن پر عمل پیرا ہونا کامیابی کی کنجی ہے۔