
قبلہ اول اور اسکا تحفظ
قبلہ اول اور اسکا تحفظ
فلسطین اس شام میں شامل ہے جس کی احادیث میں بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ شام وہ سرزمین ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا گیا، دیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا ، جن میں سیدنا ابراہیم، سید نا اسحاق، سیدنا یعقوب ، سید نا یوشع علیہ السلام شامل ہیں۔ بلکہ سیدنا موسیٰ نے تو اس سرزمین ( بیت المقدس ) پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالی سے دعا فرمائی تھی۔
(صحیح بخاری: (107)
جب یہودیوں نے سید نا عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور ان کا دو بار و نزول اسی سرزمین پر ہوگا ۔ ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور بعثت اگر چہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجد اصلی ( بیت المقدس) کی سیر کرائی گئی جہاں آپ س نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس ( مسجد اقصی ) سے ہی ہوئی۔ یہود نے اکثر مسلمانوں کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اسی مقدس زمین کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی ، وہ ہمیشہ سے اس مقدس سرزمین کی بے حرمتی کرتا چلا آ رہا ہے۔
فلسطین ( شام ) اور مسجد اقصی کی اہمیت و فضیلت
فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی فضیلت واہمیت کا اندازہ ان نصوص سے لگایا جاسکتا ہے۔
کائنات ارضی پر اللہ کا دوسرا گھر :
قبلہ اول دنیائے کائنات پر بننے والا اللہ کا دوسرا گھر ہے۔ سید نا ابوذر رض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
يا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأَرْضِ أَوَّلَ؟ قَالَ : المَسْجِدُ الحَرَامُ، قَالَ: قلت : ثم أي؟ قَالَ المَسْجِد الأقصى قُلْتُ : كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ : أَرْبَعُونَ سَنَةً
یا رسول اللہ ! کرہ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسجد الحرام ۔ ابوزر رض کہتے ہیں میں نے پھر عرض کی: دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی ؟ آپ نے فرمایا: مسجد الاقصیٰ ۔ سیدنا ابوذر رض نے پھر سوال کیا: ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟
آپ نے فرما یا : چالیس سال۔
(صحیح بخاری و مسلم (520)
روایات میں آتا ہے کہ جب سید نا داؤد علیہ السلام نے مسجد بیت المقدس کی تعمیر شروع کی تو اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی کی کہ بقیہ تعمیر جناب سیدنا سلیمان علیہ السلام کریں گے۔
( فتح الباری : (1300)
پھر سنن نسائی کی ایک روایت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر فرمائی اور ساتھ باری تعالی سے دعائیں بھی کی ۔ (1966) یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ مقامات مقدسہ بیت اللہ بیت المقدس اور مسجد نبوی انبیاء کرام علیہ السلام کی میراث ہیں ۔اور انبیاء کرام کے حقیقی وارث مسلمان ہی ہیں ۔
با برکت ، مقدس اور پاک سرزمین
فلسطین جو در حقیقت شام میں واقع ہے۔ یہ انتہائی مقدس اور بابرکت زمین ہے جہاں اللہ رب العالمین نے اپنے پیغمبروں سے اپنا گھر تعمیر کروایا اور یہی وہ مقدس سرزمین ہے جہاں مالک الملک نے ا اپنے بہت سارے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو انبیا کی سرزمین کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم اور سید نا لوط علیہ السلام کو ان کی قوم سے نجات دے کر اسی با برکت زمین کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا:
وَنَجَيْنَهُ وَلَوْطا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي برَكْنَا فِيهَا الْعَلَمِينَ ( الانبیاء : 71)
اور ہم ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کو ان ( ظالموں ) سے نجات دے کر ایسی زمین کی طرف لے کر آئے جس میں ہم نے جہان والوں کیلئے برکتیں کی ہیں۔
امام ابن کثیر نے آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
مهاجرا إلى بلاد الشام، إلى الأرض المقدسة منها
یعنی اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو بلا د شام میں مقدس سرزمین ( بیت المقدس) کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔
(تفسیر ابن کثیر: 11073)
اسی طرح جناب موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو جب اس بستی میں داخل ہونے کا کہا تو اسے لفظ ” مقدس” کے ساتھ بیان فرمایا:
يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ (المائدة: 21)
اے میری قوم ! اس مقدس ( پاک) سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔
اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ کیا ، وہاں اس سرزمین کو با برکت سرزمین کہتے ہوئے فرمایا:
ولسليمن الريح عاصفة تَجْرِى بِأَمْرِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي برَكْنَا فِيهَا ( الانبياء : 81)
اور سلیمان علیہ السلام کیلئے ہم نے تند و تیز ہوا کو بھی تابع بنادیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین (شام) کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں :
إلى الأرض التي باركنا فيها، يعني الشام”
یعنی : اس بابرکت سرزمین سے مراد شام ہے۔
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَرَكْنَا فيها ( الاعراف : 134)
اس آیت مبارکہ سے بھی مفسرین نے یہی سرزمین مراد لی ہے۔
مسجد اقصیٰ پر سکون جگہ ہے
قرآن مجید میں باری تعالی نے سیدہ مریم اور ان کے بیٹے سیدنا عیسی علیہ السلام کو بھی اسی سرزمین میں بسایا اور ساتھ اس سرزمین کی فضیات بیان کرتے ہوئے اسے پر سکون جگہ قراردیا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأَمَّهُ آيَةً وَأَوَيْنَهُمَا إِلَى رَبوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ ومَعِين ( المؤمنون: 50)
اور ہم نے مریم کے بیٹے اور ان کی والدہ کو (اپنی قدرت کی ) ایک نشانی بنادیا اور نہیں ایک ایسے ٹیلے ( بلند مقام ) پر جگہ دی جو پر سکون ، قابل اطمینان اور چشمے والا تھا۔ حافظ ابن کثیر نے نے اس کو ترجیح دی ہے کہ اس بلند جگہ یا ٹیلے سے مراد بیت المقدس ہے۔
مسلمانوں کا قبلہ سابقہ
بیت اللہ سے قبل مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے مگر بعد میں اللہ تعالی نے قبلہ تبدیل کر کے مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ کر دیا۔ چنانچہ سیدنا براء بن عازب رض فرماتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم صلى إلى بيت المقدس سنة عشر شهرًا، أو سبعة عشر شهرًا، وكان يُعْجِبُهُ أن تكون قَبْلَتُهُ قِبَلَ البَيْتِ، وَأَنَّهُ صَلَّى، أو صلاها، صلاة العصر وصلى معه قوم مخرج رَجُلٌ مَنْ كَانَ صَلَّى مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى أقل المسجد وهُم رَاكِعُونَ، قَالَ : أَشْهَدُ باللَّهِ، لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلم قبل مكة، فداروا كما هم قبل البيت، وَكَانَ الَّذِي مَاتَ عَلَى القِبْلَةِ قبل أن تحول قبل البيت رجال قتلوا، لم نذرِ مَا تَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنزَلَ اللهُ: (وَمَا كان الله لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ( کعبہ ) ہو جائے ( آخر ایک دن اللہ کے حکم سے ) آپ نے عصر کی نماز ( بیت اللہ کی طرف رخ کر کے) پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ رضی اللہ نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی ، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جو لوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں ۔ ( ان کی نمازیں قبول ہو ئیں یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
(صحيح البخاری و صحیح مسلم )
ثواب کی خاطر مسجد اقصیٰ کی طرف رخت سفر کا جواز
سفر کر کے کسی مقام کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن چند مقامات کی طرف اجازت ہے ان میں سے مسجد بعد اقصی کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی طرف خصوصی طور پر سفر کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سید نا ابوھریرہ رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد المسجد الحرام، ومَسْجِدِ الرسول صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِد الأقصى
تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا ( زیادہ ثواب اور برکت کی نیت سے خاص ) قصد کر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، مسجد الحرام، مسجد الرسول ( نبوی ) اور مسجد الاقصیٰ ۔
(صحیح البخاری)
سرزمین اسراء و معراج
ہمارے پیارے پیغمبر کو اللہ تعالی نے جب معراج کروانا چاہی تو وہ بیت المقدس ہی تھی جہاں سے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو آسمانوں کی سیر کروائی۔ قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
سبحانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي باركنا حوله لنريه من آياتِنَا إِنَّهُ هُوَ السمیع البصیر ( بني اسرائيل: (1)
اس اللہ کی ذات پاک ہے جو اپنے بندے کو ایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ( بھی ) ہم نے (بڑی) برکت رکھی ہے تا کہ ہم اپنے بند ے کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں بلاشبہ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
مسجد اقصیٰ میں امام الانبیاء کی امامت
زمین کی پشت پر مسجد اقصیٰ وہ واحد جگہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء کرام بی کا اجتماع ہوا اور باجماعت نماز ادا فرمائی، یہ اعزاز کسی اور جگہ کو حاصل نہیں ہے۔ اور یہ اعزاز ہمارے پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ علیہ کو حاصل ہے کہ ان تمام انبیائے کرام کی امامت آپ نے کروائی ۔ جیسا کہ صحیحمسلم والی روایت میں آپ نے فرمایا:
حانت الصلاة فأممتهم
یعنی جب نماز کا وقت ہوا تو میں نے انبیاء کی امامت کی۔
بیت المقدس میں نماز کی فضیلت
سیدنا ابوذر رض سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی مجلس میں آپس میں اس بات پر گفتگو کی کہ بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ ) زیادہ افضل ہے یا رسول اللہ علیہ کی مسجد ( نبوی ) ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة في مسجدي هذا أفضل من أربع صلوات فِيهِ، وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى، وَلَيُوشِكُن أن لا يكون للرجل مثل شطن فَرَسِهِ مِنَ الأرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خير له من الدنيا جميعا ، أو قال : خير مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فيها
میری اس مسجد نبوی) میں ایک نماز (اجر و ثواب کے اعتبار سے ) اس (بیت المقدس مسجد اقصی ) میں چار نمازوں سے زیادہ افضل ہے اور وہ ( مسجد اقصیٰ ) نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔ عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کر سکے (اس کے لئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا ) پوری دنیا یا فرمایا دنیا و مافیھا سے زیادہ افضل ہوگا۔ (المستدرك على الصحيحين الحاكم : 550 ر قال الألباني:
مسجد اقصی میں نماز گناہوں کی معافی کا سبب
سید نا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں :
لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بن دَاوُدَ مِنْ بَنَاءِ بَيْتِ الْمُقْدِسِ، سَأَلَ اللَّه ثَلَاثًا ، حُكْمًا يُصَادِفُ حكمه، وملكا لا ينبغي لأحدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَإِلَّا بِأَتِي هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يريد إلا الصلاة فيه، إلا خرج من ذنوبه كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمَّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أَعطيهما، وَأَرْجُو أَنْ يَكُون قد أعطى الثالثة
جب سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں کیں: یا اللہ میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق ( درست ) ہوں۔ یا اللہ مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ یا اللہ ! جو آدمی اس مسجد ( بیت المقدس) میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گنا ہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : للہ تعالی نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فرمائی ہیں کہ ان کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔
(سنن ابن ماجه و سنن نسانی)
دجال بیت المقدس نہیں جائیگا
دجال کا فتنہ اس امت کا بہت بڑا فتنہ ہے اس سے ہر نبی نے اپنی قوم کو ڈرایا ۔ جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن عمر رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
إِنِّي لأَنذِرْ كَمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِي إِلَّا أَنذَرَهُ قَوْمَهُ، لقَدْ أَنذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنِّي أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لمْ يَقُلْهُ شَي لِقَوْمِهِ : تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرُ
بالا شبہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں۔ اور کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو۔ البتہ نوح نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا اور لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو میں تائی۔ جان لو کہ ہکاتا ہے اور بلاشہ اللہ کا نہیں ہے۔
صحيح البخاري 3337
اور دجال چار مقامات پر داخل نہیں ہو سکے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: لا يأتي أربعة مساجد – فذكر المسجد الحرام، والمسجد الأقصى، والطور والمدينة
دجال چار جگہوں پر نہیں جاسکے گا: مسجد حرام مسجد اقصیٰ کو بطور اور مدینہ۔
(مسند احمد)
قبلہ اول کا تاریخی پس منظر
خلافت راشدہ کے دور میں بیت المقدس کی فتح ہوئی، اسی زمانہ میں ارض فلسطین اور بیت المقدس سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں 15 ہجری کو فتح ہوئے ۔ حضرت عمر اپنی خلافت کے دوران چار دفعہ ملک شام تشریف لائے ۔ عیسائیوں نے بیت المقدس میں ہی آپکے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور بیت المقدس کی چابیاں آپکے حوالے کیں ۔ جس کے بعد پانچ سو برس سے زیادہ عرصہ تک یہ مقدس سرزمین مسلمانوں کے قبضہ حکومت میں رہی۔
صلیبی جنگیں :
زمانه خلافت راشدہ و ما بعد میں اسلام کو جو عروج ملا اس سے اسلام چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ اس دور کی پے در پے شکستوں کا انتقام لینے کے لیے عیسائیوں نے گیارویں صدی آخر سے لیکر تیرھویں صدی آخر تک محيط ، عرب، ارض فلسطین اور بالخصوص بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرانے کیلئے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں انہیں تاریخ عالم میں صلیبی جنگوں کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ انہی جنگوں میں ایک بار پھر عیسائی بیت المقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح
بیت المقدس ایک بار پھر 583ھ بمطابق 1187ء میں ایوبی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ فتح بیت المقدس کے بعد صلاح الدین ایوبی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عیسائیوں سے مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ نہیں لیا۔ صلیبی جنگوں کی فتح عظیم کے بعد بیت المقدس پر تقریبا سات سو باسٹھ سال تک مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
یہودیوں کی سازشیں اور بیت المقدس پر
یہودی اپنی شرارتوں اور سازشوں کی بنا پر ہر دور میں نفرت و حقارت کا نشانہ بنتے رہے ہیں ہر ملک نے کبھی نہ بھی ان کو اپنی حدود سے ضرور باہر نکال کیا ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شرارتوں اور سازشوں کی وجہ سے انکو مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا اور یہ خیبر میں جابسے۔ انکی یہ سازشیں اب بھی جاری ہیں انہی سازشوں کے نتیجے میں 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ اور دوسرے اسلام دشمن ممالک کی عالمی سازش سے مسلم دنیا کے عین وسط میں فلسطین کے علاقہ میں یہودی ریاست قائم کر دی گئی ۔ شہر مقدس اور قبلہ اول بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
1967ء میں یہودیوں نے تیسری عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس کے اس شہر پر خوفناک بم باری کی۔ مسجد اقصیٰ کا مرکزی دروازہ مسمار کردیا اور مسجد کا ایک مینار بھی شہید کر دیا۔ جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے۔
جون 1967 کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے بیت المقدس کی عرب حیثیت کو ختم کر کے اسرائیل کا جزو قرار دے دیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔
اگست 1969 ء کو دنیائے اسلام کا المناک ترین سانحہ پیش آیا اس روز ساڑھے تین گھنٹے تک مسجد اقصی میں آگ بھڑکتی رہی۔ مسجد کا ایک بڑا حصہ جل گیا اور سلطان صلاح الدین ابو بی کا یادگار منبر بھی جل کر راکھ ہو گیا۔ سارے عالم اسلام میں غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی لیکن تاحال مسجد اقصی ایک اور صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے جو اسے یہود کے شکنجہ سے آزاد کروا کر اسکی حرمت کو بحال کرے۔
دسمبر 2017 ء کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکی سفارت خانہ اگلے تین برس میں تل ابیب سے بیت بیت المتقدس منتقل کر دیا جائے گا۔
ابھی گزشتہ ایک کوئی ڈیڑھ ہفتہ سے فلسطین کے شہر غزہ پر اسرائیل بمباری کر رہا ہے، 200 سے زائد شہید کیے جاچکے ہیں سینکڑوں گھر مسمار کر دیئے گئے بیسیوں عمارتیں گرادی گئی فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی خبر یں روکنے کے لیے ان کے واحد مواصلاتی نظام کو آزاد یا گیا ہے۔ آخر یہ معاملہ کب تک چلے گا ؟ آخر یہ مظلوم ظلم کو کب تک کہیں گے؟ کب کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا ہوگا جو انہیں پنجہ یہود سے بچائے گا؟