قرآن مجید کی خوبیاں وخصوصیات

قرآن مجید کی خوبیاں وخصوصیات

قرآن مجید کی خوبیاں وخصوصیات

قرآن مجید کی اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:-

1. آخری آسمانی کتاب :

قرآن مجید اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے جو حضرت محمد صلى اللهُ عَلَيْهِ وسلم پر نازل ہوئی اور قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے یہ سر چشمہ ہدایت ہے۔

2 . محفوظ کتاب :

چونکہ قرآن مجید قیامت تک کے ہر دور اور ہر قوم کے انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خاص وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكَرَوَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (سورة الحجر: 9)

ترجمہ: بے شک ہم ہی نے (اس) ذکر ( قرآن ) کو نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی ضرور حفاظت فرمانے والے ہیں ۔ ہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود قرآن مجید کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت کا ایسا انتظام کر دیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تحریف ( رد و بدل ) سے محفوظ ہو گیا ہے ۔ ہے۔ جب کہ دوسری آسمانی کتابوں میں بڑا رد و بدل ہو چکا ہے۔ ان کا بہت ساحصہ ضائع ہوچکا ہے اور لوگوں نے اپنی طرف سے کئی باتیں شامل کر دیں۔ اب یہ کتا بیں کہیں بھی اپنی اصلی شکل میں دستیاب نہیں ۔ جب کہ قرآن مجید اپنی خالص شکل میں اب بھی موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔

3. زندہ زبان والی الہامی کتاب :

قرآن مجید جس زبان میں نازل ہواوہ ایک زندہ زبان ہے ۔ آج بھی دنیا کے میں سے زیادہ ممالک کی قومی زبان عربی ہے اور یہ زبان دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ جب کہ پہلی آسمانی کتا میں جن زبانوں میں نازل ہو ئیں وہ مردہ ہو چکی ہیں اور اُن کو سمجھنے لے بہت ہی کم لوگ ہیں۔

4. عالمگیر کتاب :

باقی آسمانی کتابوں کے مطالعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف کسی ایک خاص ملک یا خاص قوم کے لوگوں کے لیے تھیں ۔قران مجید تمام انسانیت کے لیے پیغام ہدایت ہے۔ یہ کلام پاک

نأيهَا النَّاسُ

(اے لوگو ) کا خطاب کر کے تمام انسانوں کو ہدایت کا پیغام دیتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر کتاب ہے جس کی تعلیمات ہر دور اور ہر ملک میں قابل عمل ہیں۔
اس کتاب کی تعلیمات فطری ہیں اس لیے کہ ہر دور کا انسان یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے سیاسی کے دور کے لیے نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ اس کی تعلیمات ہر قوم و ملک اور ہر طرح کے ماحول میں بسنے والے افراد کے لیے یکساں طور پر نفع بخش ہیں اور انسانی عقل کے عین مطابق ہیں۔

5. جامع کتاب:

پہلی آسمانی کتابوں میں سے کچھ کتابیں صرف اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں۔ بعض صرف مناجات اور دعاؤں کا مجموعہ تھیں۔ کچھ صرف فقہی مسائل کا مجموعہ تھیں۔ بعض میں صرف عقائد کا بیان تھا اور بعض صرف تاریخی واقعات کا مجموعہ تھیں۔ مگر قرآن مجید ایسی جامع کتاب ہے جس میں ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں عقائد و اعمال کا بیان بھی ہے اخلاق وروحانیت کا درس بھی ہے تاریخی واقعات بھی ہیں اور مناجات بھی۔ غرضیکہ یہ ایک ایسی جامع کتاب ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتی ہے۔

6. عقل و تہذیب کی تائید کرنے والی کتاب:

پہلی آسمانی کتابوں میں سے بعض کتابیں ایسی باتوں پر مشتمل ہیں جو حقیقت کے خلاف ہیں بلکہ بعض کتابوں میں انتہائی ناشائستہ غیر اخلاقی باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ (ظاہر ہے یہ باتیں جعلی ہیں جو کسی نے اپنی طرف سے شامل کر دی ہیں ) جب کہ قرآن مجید ایسی تمام باتوں سے پاک ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو خلاف عقل ہو اور جسے تجربہ اور دلیل سے غلط ثابت کیا جا سکے۔ اس میں کوئی غیر اخلاقی بات نہیں۔ اس نے تمام انبیاء کا ادب و احترام سکھایا اور سب کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ نیکو کار اور پر ہیز گار لوگ تھے۔ ان کی شان کے خلاف جتنی بھی باتیں کہی گئی ہیں سب جھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں۔

7. کتاب اعجاز:

قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا وہ شاہکار ہے جس کا مقابلہ کرنے سے عرب و عجم کے تمام فصیح و بلیغ لوگ عاجز رہے۔ قرآن مجید میں سب مخالفوں کو دعوت دی گئی ہے کہ ایک چھوٹی سی قرآنی سورت کے مقابلے میں کوئی سورت بنالاؤ مگر کوئی بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکا۔ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کسی بندے کا بنایا ہوا کلام نہیں۔ پھر کوئی بشر اس کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ یہی اس کتاب کا اعجاز ہے۔

قرآن مجید کی خوبیاں:

قرآن مجید میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جن کے سبب یہ کتاب زندہ جاوید بن گئی ہے۔ اگر چہ ان تمام خوبیوں کا شمار نا ممکن اور محال ہے۔
تا ہم چند خوبیوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے :

1. قرآن مجید ایک سچی کتاب ہے۔

اس کی دعوت اور پیغام بھی سچائی سے بھر پور ہے۔ اس کے دلائل نہایت مضبوط اور محکم ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے۔

الر كِتَبْ أَحْكِمَتْ أَيْتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ( سورة هود (1)

ترجمہ: الر۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات ( دلائل سے ) پختہ کی گئی ہیں پھر تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ایک بڑی حکمت والے (اور ) بڑے باخبر کی طرف سے۔

چونکہ دلائل نہایت مضبوط ہیں اور سچائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اس لیے تضاد سے پاک ہیں۔ اس کے مضامین میں ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :

وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ( سورة النساء : 82)

ترجمہ: تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سواکسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔

2. کامیابی کی ضمانت:

اس کتاب نے ان افراد اور اقوام کی کامیابی کی ضمانت دی ہے جو سچے دل سے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے لیے یہ کتاب اس جہان میں بھی شرف و امتیاز کا وعدہ کرتی ہے۔ اس حقیقت کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا:

اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے کتنی ہی قوموں کو بلندی بخشے گا اور کتنوں کو پست کرے گا۔ ( صحیح مسلم )

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کو ہی لیجئے اس کتاب ہدایت کا اثر تھا جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو اپنے باپ خطاب کی بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے باپ انھیں جھڑ کا کرتے تھے۔ یہ قوت و عزم میں قریش کے متوسط لوگوں میں سے تھے۔ یہ وہی عمر رضی اللہ عنہ ہیں جو اسلام قبول کر لینے کے بعد تمام عالم کو اپنی عظمت و صلاحیت سے متحیر کر دیتے ہیں اور قیصر وکسری کو تاج و تخت سے محروم کر دیتے ہیں اور اُن کے مقابل ایک ایسی اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالتے ہیں جو دونوں حکومتوں پر حاوی ہے۔ تدبیر سلطنت میں ہمیشہ کے لیے وہ رہنما اصول مقرر کرتے ہیں، جن پر ساری دنیا فخر کرتی ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کے سر براہ ہونے کے وجود ورع و تقوی میں بے مثل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص جس قدر اس کتاب کے قریب ہوگا اسی قدر ا سے شرف و امتیاز نصیب ہوگا اور کے مقابل جو شخص جس قدر اس کتاب کی تعلیمات سے روگردانی کرے گا اسی قدر وہ ذلت وخواری کا شکار ہوگا۔

علامہ اقبال نے اپنی مشہور شکوہ میں مسلمانوں کی موجودہ ذلت وخواری کا اس طرح سے نقشہ کھینچا ہے :
کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سینہ صحرا سے حباب
رہر و دشت ہو سیلی زدہ موج سراب
طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تیرے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے؟

اس کے بعد علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ” جواب شکوہ میں مسلمانوں کی پستی کی وجہ خود ہی یوں بیان فرمائی ہے:
ہر کوئی مست ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر ان اشعار میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کی موجودہ پستی کا واحد سبب قرآن سے علیحدگی کو قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آج بھی مسلمان مل کر قرآن کی راہ پر چلیں تو وہ عزت و شرافت آج بھی انھیں نصیب ہو سکتی ہے- تربیت و تزکیہ

3. تربیت و تزکیہ کا ذریعہ:

تربیت و تزکیہ کے لحاظ سے اس کتاب میں بلا کی خوبی ہے۔ اس کی تربیت سے انسانی قلب در مانع جذبات و خواہشات رحجانات امیلانات اور سیرت و کردار کا بخوبی تزکیہ ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان اخلاقی فضائل اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی ہر بات دل میں از جاتی ہے۔ اس کی تلاوت سے جہاں قلب میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے وہاں عزم و یقین کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔

4. قرآن مجید کی تاثیر :

قرآن مجید چونکہ کلام الہی ہے اس لیے اس میں پڑھنے والوں کے لیے بلا کی تاثیر رکھ دی گئی ہے۔ اس تاثیر کا اندازہ قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتا ہے۔

لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَةِ عامِنْ خَشْيَةِ اللهِ ( سورة الحشر : 21)

ترجمہ: اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو (اے مخاطب !) یقینا تو اسے اللہ کے خوف سے جھک کر پاش پاش ہوتے ہوئے دیکھتا۔ یہ اسی تاثیر کا سبب ہے کہ ایک مومن اس کی تلاوت کے دوران ایک عجیب کیفیت اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ یہی دراصل ایمانی کیفیت ہے جو تعلق باللہ میں استواری اور قرآنی تعلیمات کو اپنے اندر جذب کرنے کا باعث بنتی ہے۔
مومن کا دل حلاوت قرآن کے وقت جہاں کانپ اٹھتا ہے اس کے ساتھ اس کے دل میں سکون کی کیفیت بھی طاری ہوتی ہے۔ گویا دل کے نرم پڑنے کا مطلب ہی سکون کا حاصل ہو جاتا ہے جو رحمت الہی کے نزول کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے تلاوت قرآن کے وقت سکون و رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس وقت رحمت الہی کا امیدوار بننے کے لیے قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی سنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف : 204)

ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تا کہ تم پر رحم فرمایا جائے۔ اللہ تعالٰی کی رحمت کے امیدوار یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کو توجہ سے سنتے ہیں ۔ تاکہ اس کے ذریعے ان کے دلوں میں اتر جائے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں