ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت

ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت

جیسے جیسے زمانہ ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے، جدیدیت اور فیشن کے نام پر ہماری اخالقی اور معاشرتی اقدار کو شدید خطرات الحق ہورہے ہیں۔ ہماری مشرقی تہذیب نہ صرف دھندالتی جارہی ہے بلکہ آئے روز نت نئی مغربی اقدار ورسومات انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہمارے اسالمی کلچر میں نفوذ کرتی جارہی ہیں۔ اگر اس ضمن میں یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ نے دنیا کی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے روشناس بھی کروایا اور ایک دوسرے کے بہت قریب بھی الکھڑا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں مغربی طرز زندگی اور مغربی روایات کا اپنا نا فیشن اور جدیدیت کی عالمت سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنے مذہبی اقدار کے دائرے سے نکل کر مغربی معاشروں کے رہن سہن ، عادات و اطوار کو اپنانا باعث فخر سمجھ رہی ہے۔
انہیں عادات واطوار میں سے ایک ویلنٹائن ڈے بھی ہے، جس میں اخالقیات کی تمام حدوں کو باالئے طاق رکھتے ہیں پورے جوش و خروش سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔

ویلنٹائن ڈے کی تاریخی حیثیت

اس کی تاریخی حیثیت میں کوئی مستند اور حتمی بات تو قابل ذکر نہیں، البتہ چند ایک مشہور باتیں درج ذیل ہیں:
اسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بک آف نالج کے مطابق ویلنٹائن ڈے جو چودہ فروری( کو منایا جاتا ہے محبوبوں کے لیے خاص دن ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ اس کا آغاز رو من سینٹ ویلن ٹائین کی مناسبت سے ہوا جسے مذہب تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے پابند سالسل رکھا گیا، قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی س نے پھانسی پر لٹکائے جانے سے پہلے جیلر کی بیٹی کو الوداعی دعوت نامہ لکھا، جس پر درج تھا تمہارا ویلنٹائن واقعہ ۱۴ فروری کو پیش آیا، چنانچہ اس کی یاد میں یہ دن منایا جائے گا۔

ویلنٹائن ڈے منانا کیوں جائز نہیں

شرعی طور پر اس دن کے منانے چند ایک قباحتیں ہیں جن میں سے چند ایک پیش کی جاتی ہیں:

گناہ کی ابتدا

اس دن چونکہ غیر محرم مرد یا عورت سے اظہار محبت کے لیے پھول سے مزین کارڈ پیش کیا جاتا ہے جو اس بات کی خواہش اپنے اندر لیے ہوتا ہے کہ میں آپ سے تعلقات کا خواہاں ہوں اور یوں یہ کارڈ مرد اور عورت کو غیر شرعی طریقہ سے ایک دوسرے کے قریب کر دیتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ سارے ہی کام ہوتے ہیں جو شرعی طور پر نا جائز ہیں مثال: نظر بازی ، نرم آواز سے گفتگو، فون پر شہوانی خیاالت کا اظہار اور باآلخر عزتوں کی پامالی ۔ یعنی ویلنٹائن ڈے گناہ کی جانب بڑھنے واال پہال قدم ہے اور اس کے بعد عشق ومحبت کی داستانیں جنم لیتی ہیں جو فی الحقیقت تباہی کے دھانے پر ال کھڑا کرتی ہیں۔

حیا کا خاتمہ

ایک پاکیزہ مسلمان عورت کی شان یہ ہے کہ وہ با پردہ ہوس کی نگاہیں جھکی ہوئی اور شرم و حیا سے بھر پور ہوں وہ غیر محرموں سے بے باکانہ گفتگو سے کوسوں دور ہو، اسی طرح مسلم نو جوان شرم و حیا سے مزین اور باوقار آدمی ہوتا ہے۔ لیکن ویلنٹائن ڈے ان سب چیزوں کو ہوا میں اڑا دینے کا نام ہے جہاں شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، بلکہ ان چیزوں کو بزدلی سمجھا جاتا ہے۔ بے باکی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا کارڈ پر عشق و محبت کا کھلے لفظوں میں اظہار کرنا اور رومانوی اشعار میں اظہار محبت کرنا ، ایسی چیزیں ہیں جو شرم وحیا کی دھجیاں اڑادیتی ہیں۔ جب کہ اسالم نے تو
حیا کا درس دیا ہے۔ اپنی نگاہ نیچے رکھنے اور آزانہ اختالط سے روکا ہے۔ حیا کے بارے میں چند ایک آحادیث پیش خدمت ہیں: سیدنا عبادہ بن صامت رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اطمنوا لي سنا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمُ الجنَّةَ اصْدُقُوا إِذَا حَدَّتُكُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدَكُمْ وأدوا إِذَا اوكُنتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ

مجھے اپنی جانوں سے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں جب بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، جب تمہارے پاس امانت رکھوائی جائے تو اسے ادا کرو اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرو، اپنی نظریں جھکا کے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو غلط کاموں سے روکے رکھو۔
(مسند احمد ۲۲۷۵۷۳)
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے:

أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ يَوْمَ النَّحْرِ خَلْفَهُ عَلَى عَجُزِ رَاحِلَتِهِ، وَكَانَ الْفَضْلُ رَجُلاً وَضِيئًا، فَوَقَفَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لِلنَّاسِ يُفْتِيهِمْ، وَأَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ وَضِيئَةٌ تَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَأَعْجَبَهُ حُسْنُهَا، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَنْظُرُ إِلَيْهَا، فَأَخْلَفَ بِيَدِهِ فَأَخَذَ بِذَقَنِ الْفَضْلِ، فَعَدَلَ وَجْهَهُ عَنِ النَّظَرِ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ ‏ “‏ نَعَمْ ‏”‏‏.‏

کہ فضل بن عباس رض ایک خوبرو جوان تھے اور نحر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے فتو ٰی پوچھنے کے لیے آئی اور فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنے لگے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تو فضل بن عباس بھی ان کو ٹھوڑی سے پکڑا اور اس کا منہ اس طرف پھیر دیا. صحيح البخاري : ۱۱۳۳۸
سید نا انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دین کا ایک اخالق ہوتا ہے اور اسالم کا اخالق حیا ہے۔
سنن ابن ماجه، الزهد باب الحيا: ۲۱۸۱
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔
صحیح البخاری : ۵۲۳۳ ،صحیح مسلم: ۲۱۷۳
سید نا عبد اللہ بن مسعود علی الہ فرماتے ہیں: نظر کی حفاظت زبان کی حفاظت سے زیادہ شدید ہے۔
سیدنا انس بن مالک بھی فرماتے ہیں: جب تمہارے پاس سے کوئی خاتون گزرے تو اپنی نظریں جھکا لیا کرو.امام وکیع ایک مرتبہ عید کے دن سفیان ثوری کے ساتھ نکلے تو سفیان ثوری فرمانے لگے آج کے دن جو ہم پہال کام کریں گے وہ اپنی نظروں کو جھکانا ہے. ان تمام احادیث اور اقوال سلف میں نظر کو جھکانے اور اس کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ ویلنٹائن ڈے ہاتھوں سے کارڈ پکڑانے اور نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے کا دن ہے اور جب نگاہیں چار ہوتی ہیں تو ناجائز مراسم کی راہیں آگے خود بخود کھل جاتی ہیں اور ایسے لوگ شیطانی ہوس اور شہوت کے اس قدرسیاہ ہو چکے ہیں کہ آنکھیں بند کیے اپنے پاؤں تلے غیرت وحمیت کو مسلتے چلے جارہے ہیں اور جس کی طرف وہ قدم قدم بڑھتے ہیں وہ در حقیقت رسوائی کا طوق ہے۔

:بقول شاعر

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

بے حیائی کا فروغ

اسالم اپنے ماننے والوں کو حیا کا درس دیتا ہے، جبکہ ویلنٹائن ڈے لوگوں کو بے حیائی، فحاشی اور عریانی کی راہ دکھاتا ہے۔ سید نا عبداللہ بن عمر رض
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الحياء واإليمان قرناء جميعا فإذا رفع أحدهما رفع اآلخر

حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں، جب ان میں سے کوئی ایک چیز اٹھالی جائے تو دوسری بھی اٹھالی جاتی
صحيح الترغيب والترهيب : ٢٦٣٦
اس کا مطلب یہ ہے کہ حیا اور ایمان میں بہت گہرا تعلق ہے۔ کسی بھی شخص میں حیا اور ایمان دونوں ہوں گی ، اگر کسی ایک چیز کو ختم کر دیا جائے تو دوسری خود بخود ختم ہو جائے گی۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر محبت بھرا کا رڈلکھنا، کارڈ پکڑانا، نظری مالپ کرنا یہ تمام اعمال زنا کے قریب کرتے ہیں، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
(آنکھ کا زنا )حرام اشیا کو دیکھنا ہے اور زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس سب کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کرتی ہے.
صحیح البخاری۹۳۳۳
تحیر ہے ان لوگوں پر جن کی بیٹے اور بیٹیاں محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں باہم میل مالقات کرتے ہیں، باہم تنہائی اختیار کرتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ سفر اسفار کرتے ہیں اور وہ والدین اور بھائی گونگے شیطان بن کر اسے آزادی کا نام دیتے ہیں۔ یادر رکھئے ایہ آزادی نہیں، بلکہ بے غیرتی ہے۔
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی ہللا عنہ نے کہا:
گر میں اپنے بیوی کے پاس غیر مرد کو دیکھوں تو اسے تلوار کی دھار سے ماردوں ۔ یہ خبرنبی کریم کو پہنچی تو آپ نےفرمایا: تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم میں سعد سے زیادہ غیرت مند ہوں اور ہللا تعال ٰی مجھ سے بھی زیادہ غیر مند ہے
صحيح البخاري: : ۵۲۳۰

اختلاط مردوزن

ویلنٹائن ڈے آزادانہ اختالط کی راہ ہموار کرتا ہے اس میں وقتی طور پر آزادانہ اظہار محبت ہے جس کے نتائج بہت سنگین نکلتے ہیں ۔ ویلنٹائن ڈے کے ذریعے سے ایک ایک قدم محبت کی سیڑھی چڑھنے والی عورتیں اکثر گوہر عصمت گنوا بیٹھتی ہیں اس کا احساس انہیں بعد میں جاکر ہوتا ہے ۔ دین اسالم اختلاط مردوزن کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔
خلوت کے بارے رسول ہللا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے؛
کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہا ہوتا ہے تو اس کا تیسرا شیطان ہوتا ہے. سنن الترمذی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:سابقہ نبوت کے کالم میں سے لوگوں نے اس بات کو پایا ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو تمہارا دل چاہے کرو۔
صحیح البخاری: ۹۱۲۰
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز کے لیے جاتے ہوئے صحابیات کا صحابہ کرام سے اختلاط ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین سے فرمایا؛ تم پیچھے ہٹ جاؤ تمہارے لیے راستے کے درمیان میں چلنا ٹھیک نہیں ۔ تمہارے لیے راستے کے کنارے کنارے چلنا
مناسب ہے۔
سنن ابی داؤد: ۵۲۷۲
رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد صحابیات کی حالت کچھ اس طرح تھی:پھر عورتیں دیوار سے چپک کر چلنے لگیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے )ڈوپٹے وغیرہ( دیوار کے ساتھ اٹک جاتے تھے۔
سنن ابی داؤد
ذرا سوچنے ! دین اسالم مردوں اور عورتوں کو اللہ کے گھر جاتے وقت اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں دیتا تو ویلنٹائن ڈے اور بے حیائی کی مجالس میں کیسے اکٹھا ہونے دے گا۔۔۔۔؟

عیسائیوں سے مشابہت

ویلنٹائن ڈے کے ناجائز ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس سے کفار پرست رومیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مشابہت ہے ۔
کفار چاہے وہ بت پرست ہوں یا اہل کتاب ان سے عمومی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، چاہے وہ مشابہت عقیدہ میں ہو، یا ان کی عادات و رسم و رواج، یا عید و تہوار میں۔
اللہ کا فرمان ہے:

وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّذِينَ تَفَرَّقُوا۟ وَٱخْتَلَفُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌۭ

(سورة آل عمران :۱۰۵ )
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈاال اور اختالف کیا، انہیں لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ ‏”‏‏.‏ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ ‏”‏ فَمَنْ ‏”

تم اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں کی ضرور با ضرور پیروی کرو گے بالشت در بالشت ہاتھ درہاتھ حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہونگے تو تم بھی ان کی پیروی میں اس میں داخل ہو گے۔ ہم نے کہا اے ہللا کے رسول! کیا یہود اور انصاری؟ آپ مل ٹیم نے فرمایا : پھر اور کون؟
صحیح البخاری : ۷۳۲۰
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے؛

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔ ْ
سنن ابی داود: ۲۰۳۱
شیخ االسالم ابن تیمیہ لکھتے ہیں: اس حدیث کی کم از کم حالت ان سے مشابہت کرنے کی تصریم کا تقاضا کرتی ہے، اگر (چہ حدیث کا ظاہر مشابہت کرنے والے کے کفر کا متقاضی ہے. مزید امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ : کفار کی عیدوں اور تہواروں میں مشابہت اختیار کرنے کی حرمت پر تمام صحابہ کرام کے وقت سے لے کر آج کے علما تک کا اجماع ہے۔
(۵۳/۱ :االقتضاء)
امام ابن قیم نے بھی اسی بات پر علما کرام کا اجماع نقل کیا ہے۔

احكام اهل الدمة البن القيم : ٢٢ ع ۲/۷

فضول خرچی

ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ملک بھر میں پھول کثرت سے خرید لے جاتے ہیں ‘ آئی لو یو والے سرخ غبارے لوگ خریدتے ہیں، اسی طرح سینماؤں میں لوگوں کا ہجوم اور پھر شراب و کباب کی محفلیں، جہاں یہ وقت کا ضیاع ہے ساتھ وہاں ہمارے مال کا بھی ضیاع ہے اور دین اسالم نے ایسے فضول خرچی کرنے S/KB ویلنٹائن نے کوہ ہوں 8000 فضول خرچی.
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ملک بھر میں پھول کثرت سے خریدے جاتے ہیں’ آئی لو یو’ والے سرخ غبارے لوگ خریدتے ہیں ، اسی طرح سینماؤں میں لوگوں کا ہجوم اور پھر شراب و کباب کی محفلیں ، جہاں یہ وقت کا ضیاع ہے ساتھ وہاں ہمارے مال کا بھی ضیاع ہے اور دین اسالم نے ایسے فضول خرچی کرنے والے شخص کو شیطان کا بھائی قراردیا ہے، ہللا تعال ٰی کا ارشاد ہے:

وَءَاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (٢٦) إِنَّ ٱلْمُبَذِّرِينَ كَانُوٓا۟ إِخْوَٰنَ ٱلشَّيَـٰطِينِ ۖ وَكَانَ ٱلشَّيْطَـٰنُ لِرَبِّهِۦ كَفُورًۭا (٢٧)

ور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی ) دو ( اور )اپنا مال ( فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑاہی ناشکرا ہے۔ یہ ایک غیر اسالم تہوار ہے جس کی شریعت میں کوئی اجازت نہیں۔ اس سے عشق اور یو انگی جنم لیتی ہے۔ اس سے دل غیر اخالقی چیزوں میں مبتال ہو جاتا ہے جو کہ طریق سلف صالحین کے بالکل مخالف ہے۔ لہذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اپنے دین پر کار بندر ہے اور ضعیف العتقل بن کر ہر آواز لگانے والے کے پیچھے نہ چلے، میں ہللا تعال ٰی سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمانوں کو ظاہری و باطنی تمام فتنوں سے محفوظ رکھے۔

ویلنٹائن ڈے کی بابت فتاوی جات

محمد بن صالح العثیمین:
شیخ محمد بن صالح سے ویلنٹائن ڈے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
ویلنٹائن ڈے منانا متعد دوجوہات کی بنا پر جائز نہیں ہے
الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین: اس میں کفار کی مشابہت اور ان کی تعظیم کرنے والی اشیا میں ان کی پیروی میں تعظیم کرنا اور ان کے تہواروں اور عیدوں میں ان سے مشابہت ہے جو کہ ان کے دین میں شامل ہے اور حدیث یہ ہے کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت کی ، وہ انہیں میں سے ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سارے فساد اور ممنوعات مرتب ہوتے ہیں جن میں لہو و لعب ، رقص وسرور ، موسیقی ، شر و فساد، بے پردگی و بے حیائی اور مرد و عورت کے اختلاط کے علاوہ بہت سارے حرام کام بھی سامنے ہوتے ہیں، یا پھر ایسے کام جو بے حیائی اور فحاشی کا وسیلہ اور اس کی ابتدا میں شامل ہونے والے کام بھی اسی سے جڑ پکڑتے ہیں، اسے بے نمی اور آسودگی و خوش حالی جیسی چھوٹی تعلیل سے اس کا جواز پیدا نہیں ہوتا جو اسے تحفظ سمجھتے ہیں وہ بھی صحیح نہیں ، لہذا نصیحت کرنے والے نفس کو چاہیے کہ وہ گناہ اور اس کے وسائل سے بھی دور رہے۔
اس بنا پر جب یہ معلوم ہو جائے کہ خریدار یہ تحفے تحائف اور گالب کے پھول ان تہواروں اور عیدوں کے لیے خرید رہا ہے اور اسے تحفے میں دے گا یا ان کے ساتھ وہ اس دن کی تعظیم کرے گا تو یہ اشیا فروخت کرنا بھی جائز نہیں تا کہ: فروخت کرنے واال بھی اس بدتی اور حرام کام میں شریک نہ ہوجائے ۔ فتوی کمیٹی
مسلمان پر اس تہوار یا اس طرح کے کسی اور حرام تہوار میں شرکت کرنا حرام ہے وہ تعاون کسی بھی طریقہ سے ہو چاہے کھانے پینے یا خرید و فروخت یا کوئی چیز تیار کر کے یا تحفہ دے کر یا خط و کتاب کر کے یا اعالن کے ذریعہ ، یہ سب کچھ حرام اور ہللا کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ

(سورة المائده :٢ )نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہا کرو لیکن گناہ اور دشمنی میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کیا کرو۔

ویلنٹائن ڈے اور ہماری ذمہ داریاں

ہمارے ملک پاکستان بھی یہ تہوار پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ بچے نوجوان اور بزرگ پورے اہتمام سے اسے مناتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہماری چند ایک ذمہ داریاں بنتی ہیں جنہیں نبھانا ہمارا فرض ہے۔ چند ایک پیش کرتے ہیں.

ماتحت افراد کو دعوت دیجئے

اس موقع پر ہمارے بھائی ، دوست ، اقربا اور عام پبلک ویلنٹائن ڈے منانے میں مصروف ہوتے ہیں ، اس موقع پر ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کو اس تہوار سے منع کیا جائے اور یہ بحیثیت نگران ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہے۔

تقریر وتحریر کے ذریعے اس کے منفی پہلو سے آگاہی

یہ ایسی بیماری ہے جو دیمک کی طرح پھیلتی چلی جارہی ہے ، اپنے نو جوانوں کو اس بیماری سے بچانے کے لیے ہمیں ہر سطح پر اپنا کر دار ادا کرنا ہوگا۔ رائٹر اپنے قلم سے، استاذ اپنی تدریس سے اور سوشل میڈ یا صارفین میڈیا کے استعمال سے اس بیماری کا گال دبا نہیں ۔ اس روز ہونے والی خرافات کو بیان کیا جائے اور معاشرے پر پھیلنے والے اس کے منفی اثرات سے آگاہی دیجئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں علم ہی نہ ہو اور یہ بیماری ہمارے بچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔

:ایسی مجالس کا بائیکاٹ کیجئے

بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اس غیر مسلم تہوار کو نا پسند کرتے ہوئے ان لوگوں کی مجلس میں شرکت نہ کی جائے ، کیونکہ ان کی محفل میں شرکت ناجائز ہے۔

:حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا کوئی خاص تہوار ہو، تو جس طرح کوئی مسلمان ان کے مذہب اور قبلہ میں ان کے ساتھ موافقت نہیں کرتا بعینہ کوئی مسلمان ان کے تہوار میں بھی شرکت نہیں کر سکتا۔

لشبه الخميس باهل الخميس بحر اله مجله ١٩٣/٣ :الحكمة

ان کی معاونت نہ کی جائے

مسلمانوں میں سے جو بھی اس تہوار جو مناتا ہے اس کی معاونت نہ کی جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو کفار کے تہوار کو منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے۔ شیخ االسالم ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفار کی مشابہت نہیں کرتے تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مددد و اعانت بھی نہیں کی جائیگی بلکہ انہیں اس سے روکا جائے گا۔القصاء: ۵۱۹ ۳/۵۳۰
چنانچہ شیخ االسالم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے فیصلے کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحائف کی تجارت کریں، چاہے وہ کوئی معین قسم کے لباس ہو یا سرخ گالب کے پھول وغیرہ۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس تحفہ کو قبول کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ اسے قبول کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور اسے صحیح تسلیم کرنا ہے اور باطل و معصیت میں مدد ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے؛

وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ

(سورة المائده :٢ )اور نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو اور ہللا سے ڈرو.

تشبه الخميس باهل الخميس بحواله مجله الحكمة: ٣/١٩٣

انہیں مبارک باد نہ دی جائے

یوم محبت کی مبارک باد کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید ، اگر کوئی مسلمان کسی کو اس کی مبارک باد بھی دے تو اسے جوابا مبارک باد نہیں دینی چاہیے، چنانچہ امام ابن قیم فرماتے ہیں: کفار کے خصوصی شعار جو صرف ان کے ساتھ ہی خاص ہیں ان کی مبارک باد دینا متفقہ طور پر حرام ہے۔ مثلًا: انہیں ان کے تہواروں یا روزے کی مبارک باد دیتے ہوئے یہ کہا جائے کہ آپ کو عید مبارک یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو۔ لہذا اگراسے کہنے واال کفر سے بچ جائے تو پھر بھی یہ حرام کردہ اشیا میں سے ہے اور یہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے شخص کو مبارک باد دی جائے ، بلکہ یہ ہللا تعال ٰی کے نزدیک شراب نوشی اور بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور ہللا کو ناراض کرنے والی ہے اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے ہاں دین کی کوئی قدر قیمت نہیں وہ اس کا ارتکاب کرتے ہیں اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے۔ لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی یا کفر و بدعت پر مبارک باد دی اس نے اپنے آپ کو اللہ کے غصہ اور ناراضگی پر پیش کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں