پچے اور ہماری ذمہ دارياں
پچے اور ہماری ذمہ دارياں
يہ ايک حقيقت ہےکے بچے اللہ تعالی کا بہت بڑا عطیہ ہے خود قران کریم نے ان کو انکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے[ الفرقان 74]
اللہ تعالی نے دواولوالعزم پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کے سلسلے میں ذکر فرمایا انہوں نے خدا سے اولاد کے لیے دعا فرمائی اور اللہ تعالی نے اس کو قبول فرمایا [الصافات 100 – مریم 5] اس سے معلوم کے بچوں کی خواہش انسان کی ایک فطری اور جائز خواہش ہے اللہ تعالی نے ہی ان کو انسان کے لیے انکھوں کا نور اور دل کا سرور بنایا ہے بچوں کے بغیر کسی خوبصورت اور جاذب قلب و نظر سماج کا تصور بھی ممکن نہیں اسلام میں جیسے سماج کے مختلف طبقات کے حقوق اور واجبات متعین کیے ہیں اسی طرح بچوں سے متعلق ان کے سرپرستوں اور سماج کے فرائض کی بھی رہنمائی کی ہے بچوں سے متعلق اسلام کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان دنیا میں نئے انسان کی امد پر خوش ہورناک کے غمگین اور فکرمند اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام کی پیدائش کی اطلاع دی تو اس کو خوشخبری سے تعبیر فرمایا گیا بچوں کی پیدائش خوشی کی بات ہے اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی کوئی تفریق نہیں اسلام سے پہلے لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہوتے اور اس کو اپنے لیے باعث عار تصور کرتے تھے قران مجید نے اس کو کافرانہ طریقے قرار دیا ہے اور اس کی مذمت فرمائی ہے-
کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے لڑکے زیادہ مفید ہوں گے یا لڑکیاں اور کون مشکل وقتوں میں اس کے کام ائے گا بچوں کا سب سے بنیادی حق ان کے زندہ رہنے کا حق ہے اسلام نے جس طرح اس حق کی رعایت رکھی ہے شاہد ہی اس کی مثال مل سکے عام طور پر بچے کا قانونی وجود اس وقت مانا جاتا ہے جب اس کی پیدائش ہو چکی ہو لیکن اسلام کی نگاہ میں جس روز ماں کے رحم میں تخم انسانی نے قرار پکڑا اسی دن سے وہ ایک قابل احترام اور لائق حفاظت انسان ہے اسی لیے اسلام کی نظر میں اس قوت حمل جائز نہیں بچے کی پیدائش کے بعد اس کی حفاظت اور بقا کا انتظام نہ صرف والدین اور سرپرست بلکہ پوری انسانی برادری کا فریضہ ہے اسی مقصد کے لیے شریعت نے ماں پر یہ اخلاقی حق رکھا ہے کہ وہ بچوں کو دودھ پلائے قران مجید نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس کا ذکر کیا ہے اس لیے میڈیکل سائنس میں ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ مفید کوئی غذا نہیں پھر جب تک بچے اس لائق نہ ہو جائیں کہ خود قصب معاش کر سکیں اس وقت تک بچوں کی کفالت والدین اور والدین نہ ہوں تو دوسرے قریبی رشتہ داروں پر رکھی گئی ہے ماں باپ کے لیے یہ روا نہیں کیا گیا کہ وہ نابالغ بچوں کو مزدوری پر لگائیں اور اپنی ذمے داری سے پہلو تہی برتیں.
اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرپرستوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ بچوں کے معاملے میں ایثار سے کام لیا جائے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛
اللہ تعالی نے ہر شخص کے لیے مجھ سے پہلے جنت کا داخلہ حرام کر دیا ہے لیکن میں قیامت کے روز اپنی داہنی طرف ایک عورت کو جنت کے دروازے کی سمت دوڑتے ہوئے دیکھوں گا کہوں گا کہ اسے کیا سوجی کہ مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے مجھ سے کہا جائے گا کہ ایک خوبصورت بیوی تھی اس کی یتیم لڑکیاں تھی اس نے اپنی ساری خوبصورتی ان لڑکیوں کی تربیت کی بھینٹ چڑھا دی یہاں تک کہ لڑکیاں جوان ہو گئی اللہ تعالی نے اس کے اس فعل کی قدردانی کی اس کا نتیجہ اپ دیکھ رہے ہیں سب سے زیادہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی تاکید فرمائی وہ بچوں کی تعلیم اور ان کی تربیت ہے تربیت کے سلسلے میں پہلی چیز گھر کا وہ ماحول ہے جو والدین نے برقرار رکھا ہوتا ہے۔ والدین کی ذات میں اگر صبر و تحمل اور سمجھداری موجود ہے، وہ جذباتی کمزوری کا شکار نہیں، وہ معمولی بات پر آپے سے باہر نہیں ہوتے اور ان کا اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہے تو پھر یہ چیزیں آہستہ آہستہ بچوں کی ذات میں بھی اترتی جاتی ہیں اور وہ بیرونی دنیا میں ہزار خطروں اور چیلنجز کے باوجود مشکلات کا شکار نہیں ہوتے۔اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بچوں کی جبری تعلیم کا بھی قائل ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا کیونکہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان کے لیے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے ظاہر ہے کہ فرائض میں ضرورت پڑنے پرجبر سے بھی کام لیا جاتا ہے.
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک عنوان کے تحت ثابت کیا ہے کہ پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا اغاز ہونا چاہیے تعلیم میں دین کی تعلیم بھی داخل ہے کہ بقدر ضرورت علم دین حاصل کے بغیر نہ انسان اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتا ہے اور نا اخرت سنور سکتی ہے اس لیے ایسے علم کا حصول بھی ضروری ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی معاشی ضروریات پوری کر سکے اور ایک باعزت اور خوشدار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اس کے لیے ممکن ہو قران مجید نے اس کے لیے ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے کہ اپنے اپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ بچوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دین کی تعلیم تو ضروری ہی ہے طریقہ معاش کی بھی تعلیم ضروری ہے تاکہ وہ جائز طریقہ پر اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور غیر سماجی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں بچوں کی تعلیم اسلام کی نگاہ میں کس درجہ اہم ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ گو اصولی طور پر بالغ ہونے کے بعد بچوں کے کفالت باب پر واجب نہیں سوائے اس کے کہ وہ معذور ہو لیکن اگر لڑکے حصول تعلیم میں مشغول ہوں اور والدین ان کی اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو پھر ان کا نفقہ بھی واجب ہے اسی طرح فقہاء نے طلباء کے لیے زکوۃ کو جائز قرار دیا اور اہل علم نے اس کو بھی قران مجید کے بیان کیے ہوئے مصارف زکوۃ فی سبیل اللہ کے زمرے میں رکھا ہے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے تربیت ہی اصل انسان کو انسان بناتی ہے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص نے اپنی اولاد کو اچھے اخلاق کو اداب سے بہتر عطیہ نہیں دیا چنانچہ قرآن کریم میں بہت سی آیات میں بچوں کے حوالے سے احکام آئے ہیں اور بچوں کی تربیت کا بہت زبر دست اہتمام موجود ہے ۔ یہ آداب و احکام اس لئے ذکر کیے گئے ہیں کہ بچے جو کہ اس معاشرے کا بنیادی حصہ ہیں اور انہوں نے آگے چل کر اس معاشرے میں ایک بلند کردار ادا کرنا ہے تو ابھی سے اُن کی تربیت بہترین نہج پر ہو ۔ اس کے لئے قرآن مجید میں بچوں کی عظیم تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے ۔
قرآن کریم میں طفل کا کلمہ چار مرتبہ آیا ہے ۔ طفل سے مراد وہ بچے ہیں کہ جو ابھیاتنے چھوٹے ہیں کہ سن تمیز کو نہیں پہنچے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بچوں کی تربیت اور شخصیت سازی کے حوالے سے خصوصی احکامات اور فضائل بیان فرمائے ہیں ۔ آپ علیہ السلام بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے ، جب کبھی کوئی غلط بات دیکھتے تو پیار اور شفقت سے اُن کو سمجھایا کرتے تھے ۔