
ہمسایوں کے حقوق
ہمسایوں کے حقوق
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں ہسایوں کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے قرابت داروں تک پہنچ گئے جن کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کے لیے لازم اور ضروری قرار پایا حضور صلی الہ علیہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا حضرت ابو شریح رضہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون؟
فرمایا کہ جس کا ہمسا یہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں ”
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:,
جبرائیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ہمسایہ کو وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے اس احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہمسائے کے حقوق ہم پر لازم ہے
وَٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا۟ بِهِۦ شَيْـًۭٔا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًۭا وَبِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينِ وَٱلْجَارِ ذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْجَارِ ٱلْجُنُبِ وَٱلصَّاحِبِ بِٱلْجَنۢبِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًۭا فَخُورًا
”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)ء اور جن کے تم مالک ہو چکے ہوہ (ان سے نیکی کیا کرو)ء بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو“النساءء 4 : 36
آپ صلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے ہسائے کی عزت نفس اور اس کے گھر کے تقدس کا احترام کرنے کا حکم فرمایا۔ ہسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس امر کی وضاحت بھی فرما دی کہ ہمسایہ کون ہے اور کس ہمسائے کے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دو ہمسائے ہیں۔ پس میں ان میں سے کس کے لئے تحفہ بھیجا کروں؟ فرمایا کہ ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔“
بخاریء
جب کہ ایک بہت ہی زیادہ مشہور حدیث ہے کہ (المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ) “پکا سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔”
چونکہ عموماً کسی کو تکلیف دو چیزوں سے پہنچائی جاتی ہے ۔ ان میں ایک زبان اور دوسری چیز ہاتھ ہے۔ لہذا ان دونوں کا صحیح استعمال کرنا چاہئے اور اس کے صحیح استعمال کا سب سے زیاده خقدار آپ کاپڑوسی ہے۔ اس لیے کہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہوئی ہے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، – قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، – عَنْ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ، يُخْبِرُ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ “ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ ” . (سلم:165)
“ ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص الہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کی تکریم کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ کلمۂ خیر کہے یا پھر خاموش رہے
برے پڑوسی کا علاج:
بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ آدمی اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ تو کرنا چاہتا ہے مگر پڑوسی ہمیشہ اس کے درپے آزار رہا کرتا ہے۔ کبھی سکون کی سانس لینے نہیں دیتا ہے۔ آدمی اس سے ہراساں اور پریشان رہتا ہے۔ مگر اسکے باوجود اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا اہ ایمان کاشیوہ ہے۔ اس کی بد سلوکی سے اپنا احسان کرنا ترک کر دینا عقلمند ی کی بات نہیں ؛ بلکہ اپنا مشن جاری رکھنا ہی جواں مردی ہے۔ ممکن ہے آپ کے مسلسل حسن سلوک اور اچھے برتاؤ سے وہ راہ راست پر آجا تو یہ آپ کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے پھر وہ سدا آپ کا احسان مند رہےگا۔ مگر اس کے برعکس اگر آپ کا پڑوسی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا ہے۔ اور آپ اس سے عاجز آچکے ہیں تب بھی آپ کو اس کا حق ادا کرنا ہے اور جہاں تک اس کی مسلسل ایذا رسانی کا معاملہ ہے تو اس کے لیے کوئی مناسب حل اور اس بیماری کا علاج تلاش کرنا چاہئے۔
ایک ایسا ہی واقعہ عہد نبوی صلی الہ علیہ وسلم میں پیش آ یاتھا ۔ سنن ابو داؤد کے اندر یہ حدیث موجوہے:
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَشْكُو جَارَهُ فَقَالَ ” اذْهَبْ فَاصْبِرْ ” . فَأَتَاهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا فَقَالَ ” اذْهَبْ فَاطْرَحْ مَتَاعَكَ فِي الطَّرِيقِ ” . فَطَرَحَ مَتَاعَهُ فِي الطَّرِيقِ فَجَعَلَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ فَيُخْبِرُهُمْ خَبَرَهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْعَنُونَهُ فَعَلَ اللَّهُ بِهِ وَفَعَلَ وَفَعَلَ فَجَاءَ إِلَيْهِ جَارُهُ فَقَالَ لَهُ ارْجِعْ لاَ تَرَى مِنِّي شَيْئًا تَكْرَهُهُ .(أبوداود: 1003)قال الشیخ الألبانی: حسن صحیح
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: جاؤ صبر کرو۔ پھردوسری یا تیسری بار جب وہ شکایت لے کر حاضر ہوا تو آپ صلی اه علیہ وسلم نے اسے حکم دیا : جاؤ اپنا مال ومتا ع راستہ میں ڈال دو۔ چنا نچہ ایسا ہی کیاگیا۔ جو لوگ راستہ سے گزرتے وہ اس سے پوچھتے کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ جوابا کہاجاتا کہ اس کاپڑوسی اسےاذیت دیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جولوگ بھی یہ سنتے وہ اس پڑوسی پر الله کی لعنت بھیجتےە یہاں تک کہ وہ پڑوسی خود اس کے پاس آیا اور یہ درخواست کرنے لگا کہ اپنا سامان اپنے گھر واپس لے چلو۔ اب تم میری جانب سے کبھی کوئی ایسی چیز نہ دیکھوگے جو تمہیں نا پسند ہو۔”