ہم ماہ رمضان کو ضائع ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

ہم ماہ رمضان کو ضائع ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

ہم ماہ رمضان کو ضائع ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

عبادت کے لیے خاص کر لیجئے:

سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رمضان کے آخری عشرے میں جس قدر عبادت میں محنت کرتے ، وہ اس کے علاوہ اور کسی دن میں نہ فرماتے ۔ صحیح مسلم: 1175
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماہ رمضان اور پھر اس کے آخری عشرے میں ہر مہینے سے بڑھ کر عبادتیں کرنی چاہیں۔

اخلاص

ماہ رمضان میں ہر کام میں اخلاص ضروری ہے۔ مگر بطور خاص قیام اور صیام اخلاص سے کسی صورت خالی نہیں ہونے چاہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا، اس کے سابقہ گناہ بخشش دیئے جاتے ہیں۔ صحيح البخاری : 37
اسی طرح قیام کے بارے میں فرمایا۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان میں روزے رکھے، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ صحیح البخاری: 38، صحیح مسلم: 759

تقوی کا حصول

ماہ رمضان میں فرض ہونے والوں روزوں کا اصل مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ( البقرة : 183)

اے ایمان والوں ! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقوی اختیار کرو۔
اس آیت مبارکہ میں متقی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ سے ڈرنے والے، عبادت کرنے والے، احکامات پر عمل کرنے والے اور منہیات سے رک کر زندگی گزارنے والے بن جاؤ۔ جس طرح تم حالت روزہ میں بہت سی حلال چیزوں اور حلال کاموں سے اللہ کے حکم سے بچتے ہو، اسی طرح روزے کے علاوہ زندگی میں بھی اسی اللہ کے حکم سے حلال پر عمل کرو اور حرام سے اجتناب کرو۔ اس لیے ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت کی ذمہ داری ہے کہ ماہ رمضان سے حقیقی تربیت حاصل کر کے اپنے دل میں تقویٰ پیدا کیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم آپ کے اس ارشاد کے مصداق ٹھہریں

رُبَّ صَائِمِ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ

کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں روزے صرف بھوک ہی حاصل ہوتی ہے اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے بھی ہیں کہ جنہیں قیام سے صرف شب بیداری ہی ملتی ہے۔ سنن ابن ماجه : ۱۹۹۰ قال الألباني: صحیح

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ روزہ تو رکھتے ہیں، مگر روزہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ۔ روزہ رکھ کر اللہ کی معصیت والے کام بجا لاتے ہیں۔ پہلے کی طرح ہی چغلی، غیبت، گالی ، حسد، کینہ، لغویات، رشوت ، سود، دھوکہ بازی ظلم اور دیگر عادات رذیلہ کے مرتکب رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ، جب تک کہ روزے کی روح مطلب تقوی کو حاصل نہ کر لیں۔

برے اعمال اور بری عادات سے کلی نجات

گناہوں سے انسانی دل سیاہ ہو جاتا ہے، گناہ گار اللہ اور لوگوں کی گناہ میں حقیر و ذلیل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی دیگر مہینوں میں بالعموم اور ماہ رمضان میں بالخصوص بندہ مسلم کو گناہوں سے باز رہنے کی دعوت دیتا ہے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ماہ رمضان کی پہلی رات ایک آواز لگانے والا من جانب الله آواز لگاتے ہوئے کہتا ہے :

وَيَا بَاغِيَ الشَّرِ أَقْصِرُ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ

اور اسے برائی کے چاہنے والے ! اپنی برائی سے رک جا ، کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور یہ (رمضان کی ) ہر رات کو ہوتا ہے۔ سنن ابن ماجه : 1642
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی تو گناہ گار کا روزہ تک قبول نہیں کرتا ، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةً فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

جس نے بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے اجتناب نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

خواہشات نفس کو کنٹرول کرنا

روزہ دار کا بھوکا پیاسا رہنا اللہ تعالیٰ کو مطلوب نہیں بلکہ اس بھوک پیاس کے ذریعے ایک اہم مقصد ہے وہ ہے خواہشات پر کنٹرول ۔ اگر کوئی شخص بھوکا پیاسا ر ہے اور محض اللہ کے حکم سے جو خود اختیاری طور پر باوجود بھوک کے نہ کھائے اور باوجود پیاس کے نہ پیئے تو اسے ضبط نفس اور اپنے اوپر قابو کی بے مثال قوت حاصل ہوگی ۔ ضبط نفس معمولی بات نہیں ۔ دنیا کے اکثر جھگڑے، فسادات اور باہمی اختلافات کا اصل سبب ضبط نفس کی کمی ہے۔ ہر انسان میں انانیت اور خود پسندی کا جذبہ ہوتا ہے۔ جس وقت کوئی اس کے اس جذبے کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو اس کا نفس بے قابو ہو جاتا ہے اور وہ ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو بسا اوقات بڑی خرابی اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ روزہ انسان کو باوجود قدرت کے رُکے رہنے اور صبر وضبط سے کام لینے کی مشق کراتا ہے اور پھر اس کا عملی اظہار بھی کراتا ہے، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

جس نے بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے اجتناب نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صحيح البخاری: 1903
روزہ انسان کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ اس صبر وضبط کا ایک تربیتی نصاب ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت کھانا پینا ہے۔ روزے میں وہ ان ضروریات سے رکتا ہے اور با وجود قدرت ، اشتہا اور تقاضے کے ان جائز چیزوں سے بھی احتراز کرتا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ انسان کیساتھ اس کی ”انا“ کا ہوتا ہے۔ کسی سے اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو وہ فورا چراغ پا ہو جاتا ہے اور فریق مخالف سے جھگڑا کرتا ہے لیکن روزے کی حالت میں جس طرح بھوک اور پیاس پر صبر کرنا ضروری ہے، اسی طرح انانیت پر بھی قابورکھنا ضروری ہے۔ جو شخص اس تربیتی نصاب کو حسب ہدایت پوار کرے گا تو یقین کیا جاسکتا ہے کہ اس کے بقیہ ایام میں بھی یہ تربیت اس کو تکبر سے دور ، غریبوں کا ہمدرد، کمزوروں کا معاون اور معاشرے کا ایک اچھا انسان بننے میں مدد دے گا۔

معاف کرنے کا جذبہ

روزے کی حالت میں لڑائی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ رمضان چاہتا ہے کہ لوگ باہم محبت والفت سے رہیں مسلمانوں کے درمیان عداوت، ناچاقی لڑائی جھگڑا اور فساد نہ ہو۔ کیونکہ بڑی بڑی لڑائیوں اور جھگڑوں کے پیچھے اصل زبان کا کردار ہوتا ہے۔ زبان نازیبا الفاظ بولتی ہے، جس سے انسان تیش میں آتا ہے اور نتیجہ لڑائی اور فساد برپا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام دنوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً رمضان میں لغو باتیں اور گحش گوئی سے منع فرمایا ہے ، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا، فَلَا يَرْفُتُ وَلَا يَجْهَلْ، فَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَهُ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ : إِنِّي صَائِمٌ، إِنِّي صَائِمٌ

جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں صبح کرے نہ تو وہ پخش گوئی کرے اور نہ ہی جاہلیت والے کام کرے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو وہ اسے کہے: کہ میرا روزہ ہے میرا روزہ ہے) صحیح البخاری: ۱۸۹۴
اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے

لَيْسَ الصِّيَامُ مِنَ الْأَكْلِ وَالشَّرْبِ إِنَّمَا الصِّيَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، فَإِنْ سَابَكَ أحَدٌ، وَجَهِلَ عَلَيْكَ فَقُلْ : إِنِّي صَائِمٌ

کھانے پینے سے رکنے کا نام روزہ نہیں ، بلکہ روزہ تو لغوا در بخش باتوں اور کاموں سے رکنے کا نام اور اگر تجھے کوئی گالی دے یا تیرے ساتھ جہالت کا کام کرے تو تجھے یہ کہنا چاہیے میرا روزہ 719 ہے۔

راہ الہی میں خرچ کرنے کا شوق

ماہ رمضان لوگوں کے درمیان خیر خواہی اور دوسروں کے دکھ درد بانٹنے ، معاشرے کے کمزور اور محروم افراد کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا تجربہ کرنے اور اپنی خوشحالی اور کشادگی میں ان کو شامل کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک کی انفرادیت یہ ہے کہ صبح سے شام تک وہ کھانا پینا، لذیذ غذائیں اور نفسانی خواہشات جو حلال تھیں ، ان کا استعمال ممنوع ہو جاتا ہے۔ جن نعمتوں سے انسان سال بھر محظوظ ہوتا ہے وہ نعمتیں ایک خاص وقت تک منع ہو جاتی ہیں۔ ویسے اللہ تعالی کو سی کو بھوکا پیاسا رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس وقت اس کو بھوکا پیاسا رکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ بہت سے انسان جنہوں نے کبھی بھوک کا مزہ نہیں چکھا، جنہیں کبھی پیاس کی شدت کا احساس نہیں ہوا، جنہیں بھی لذتوں سے محرومی کا تجربہ نہیں ہوا، جنہیں بھوک سے پہلے کھانا موجود ملا اور پیاس سے پہلے پانی حاضر ، وہ اپنے اس بھائی کے درد اور تکلیف کا اندازہ کر سکیں جسے ایک وقت کھانا میسر ہے تو دوسرے وقت فاقہ ہے، ایک چیز موجود ہے تو دوسری موجود نہیں ۔ اس طرح اس کی برکت سے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے دکھ، درد اور ان کی آزمائشوں کا بذات خود تجربہ کرتا ہے اور اس کے اندر اپنے بھائیوں کی تکلیف کو دور کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ انسان جب تک خود تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا اسے تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوتا اور جب تک اسے تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہو گا اس وقت تک اس تکلیف میں مبتلا لوگوں کے ساتھ اس کو حقیقی خیر خواہی بھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ حقیقی خیر خواہی کا جذبہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب حقیقی تکلیف کا احساس ہو۔ اس مہینہ میں کشادہ دست اور تنگ دست دونوں ایک کیفیت سے دو چار ہو جاتے ہیں اور دونوں کے درمیان ایک وقتی لیکن حقیقی مساوات پیدا ہو جاتی ہے اور یہ مساوات خوشحال لوگوں کو بد حال لوگوں کی خیر خواہی پر ابھارتی ہے۔ اس لئے ہمیں دوسروں پر خرچ کرنا چاہیے ۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں