یکم جنوری سال نو کا جشن اور اسلامی تعلیمات Happy New Year

یکم جنوری سال نو کا جشن اور اسلامی تعلیمات Happy New Year

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یکم جنوری سال نو کا جشن اور اسلامی تعلیمات Happy New Year

دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں اور ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے لیکن جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تہوار بنا لئیے ہیں ان میں سے ایک نئے سال کا جشن Happy New Year بھی ہے۔
در اصل یہ نئے سال کا جشن کفار عیسائیوں Christians کا ایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انکے عقیدے کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے Christmas Day منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں Lights سے سجایا جاتا ہے اور 31 دسمبر کی رات میں 12 بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور 12 بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف Happy New year کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ھے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس Dance کا بھرپور انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔

آج ان کفار عیسائیوں کی طرح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں

اور 31 دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدار و روایات کو کمتر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔
*مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے* جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا۔
آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہو گیا ہے؟زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتا ہے۔
گذرا ہوا سال تلخ تجربات، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتا ہے تو عارضی زندگی کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان موت کے قریب ہوتا رہتا ہے۔
🌹حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہو گیا جس میں میرا ایک دن کم ہو گیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہو سکا۔
(📚قیمة الزمن عند العلماء، ص 27)
امام حسن بصری رح فرماتے ہیں کہ: اے آدم کی اولاد! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گذر گیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گذر گیا۔
(📚قیمة الزمن)

یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بنا سکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بنا سکیں۔
🌹حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔

🌹نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
*مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُهٗ مَا لاَیَعْنِیْهِ*.
(📚جامع ترمذی)
ترجمہ:-
مسلمان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔

یہ مختلف طرح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے؛ اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
ارشادھ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
*مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“۔*
(📚سُنن ابی داود)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟

تو مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کرنے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے
1️⃣ اپنی ماضی کا احتساب.

2️⃣ اور مستقبل کی فکر.

اپنی ماضی کا احتساب👇

نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ھے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائے گی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ:
*حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“*۔
(📚جامع ترمذی)
ترجمہ:
اس سے پہلے کے کہ(روز قیامت کو) تمہارا حساب کیا جائے تم خود اپنا محاسبہ کرو۔

اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے۔

مستقبل کی فکر👇

انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو👇
1️⃣اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
2️⃣اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے
3️⃣اپنی مالداری کو فقروفاقے سے
4️⃣پہلے اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے
5️⃣اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
(📚مشکوة المصابیح)

خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کر دیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ھو جائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کر دیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتا ہے۔
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں بلکہ گذرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے. اللہ تعالیٰ راہ نجات پر مرتے دم تک گامزن رکھیے.

اپنا تبصرہ بھیجیں