نوحہ اور ماتم کرنے کا شرعی حکم

نوحہ اور ماتم کرنے کا شرعی حکم

نوحہ اور ماتم کرنے کا شرعی حکم

نوحہ اور ماتم کرنے کا شرعی حکم : ماه محرم خصوصا عاشورا کے دن سیدنا حسین اور دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شہادت کے غم میں نوحہ اور ماتم کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے، مرثیے پڑھے جاتے ہیں، نوحے اور ماتم کے پرو گرام اور مجالس منعقد کی جاتی ہیں، پوسٹیں بنا کر شیئر کی جاتی ہیں، الغرض غم پھیلانے، غم بڑھانے ، خود رونے اور دوسروں کو رلانے کا بھر پور مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام کام شریعت کی تعلیمات اور مزاج دونوں کے خلاف ہیں۔ قرآن و سنت سے واقف اور ان کے پیروکار اہل السنت والجماعت نے کبھی ان کو جائز قرار نہیں دیا، حالاں کہ اہل السنتہ والجماہ سے زیادہ حضرت حسین اور شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم کے مقام اور مرتبے کو سمجھنے والا کون ہے ؟؟ نوحے اور ماتم سمیت مذکورہ تمام کاموں کے ناجائز ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں :

مصائب کے آنے پر صبر ہی دینی تعلیم ہے:

شریعت نے غم لاحق ہونے یا عزیز و اقارب کے فوت ہونے پر صبر کی تلقین کی ہے کہ دل کو اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رکھتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کیا جائے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر صبر کا حکم دیا ہے اور اس کے فضائل و انعامات بیان فرمائے ہیں، احادیث میں بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے، یہ ساری صور تحال کسی مسلمان سے مخفی نہیں۔ اس لیے نوحہ اور ماتم کرنا صبر اور رضا بالقضا جیسی عظیم دینی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ صبر کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالی سورۃ البقرہ میں فرماتے ہیں:

وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِين ۔ الَّذِينَ إِذَا أَصْبَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَهُمُ الْمُهْتَدُونَ

ترجمہ : ” اور دیکھو ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے کبھی خوف سے ، اور کبھی بھوک سے ، اور کبھی مال و جان اور۔ پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ ایسے حالات میں ) صبر سے کام لیں تو ان کو خوشخبری سنادو ( یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ”ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی جانب سے خصوصی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں۔
اسی طرح صبر کی فضیلت سے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیں: 1 حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” مؤمن کا معاملہ بہت ہی اچھا ہے ، اس کا ہر معاملہ خیر والا ہے، اور یہ مؤمن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہے ، مؤمن کو جب کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے، تو یہ بھی اس کے لیے خیر کا ذریعہ ہے، اور اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے خیر کا ذریعہ ہے۔ صحیح مسلم میں ہے:

٧٦٩٢ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِى لَيْلَى عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ: إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی ہم نے ارشاد فرمایا کہ : ” اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم ! اگر تو مصیبت پہنچتے وقت ہی سے صبر سے کام لے اور ثواب کی امید رکھے تو میں تیرے لیے جنت سے کم بدلہ دینے پر راضی نہیں ہوں گا۔ “
سنن ابن ماجہ میں ہے:

١٥٩٧ – عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبي ﷺ قَالَ: «يَقُولُ اللهُ سُبْحَانَهُ: ابْنَ آدَمَ، إِنْ صَبَرْتَ وَاحْتَسَبْتَ عِنْدَ الصّدمَةِ الأُولَى لَمْ أَرْضَ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ.

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” بندے کے لیے اللہ کے ہاں ایک مقام و مرتبہ مقرر ہوتا ہے لیکن یہ بندہ اپنے عمل کی وجہ سے اس تک پہنچ نہیں پاتا، تواللہ اس کو اس کی جان، مال یا اولاد کے معاملے میں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے ، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے ، حتی کہ وہ اس مرتبے تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لیے مقرر کیا گیا ہوتا ہے۔“ . سنن ابی داود میں ہے :

٣٠٩٢ – عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدَّهِ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةً مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللهِ مَنْزِلَةُ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابْتَلَاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ أَوْ فِي مَالِهِ أَوْ فِي وَلْدِهِ – قَالَ أَبُو دَاوُدَ: زَادَ ابْنُ نُفَيْل : – ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ – ثُمَّ اتَّفَقَا- حَتَّى يُبْلغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى».

نوحہ اور ماتم کرنا رضا بالقضاء کے خلاف ہے :

ایک مؤمن کی شان یہی ہونی چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے ہر فیصلے پر راضی رہے کہ یہی ایک بندے کے لیے مناسب ہے، اس لیے غم کے موقع پر نوحہ کرنا، چیخنا چلانا اور ماتم کرنا اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی نہ ہونے کی نشانی ہے جو کہ نہایت ہی سنگین غلطی ہے !

نوحہ اور ماتم نہایت ہی سنگین گناہ اور غیر شرعی عمل ہے:

شریعت نے اپنے عزیز کی فوتگی پر اعتدال کے ساتھ غم زدہ ہونے کی اجازت دی ہے ، اس میں آنسو بہانا صبر و تحمل کے خلاف نہیں بلکہ غم کا طبعی تقاضا ہے ، البتہ بلند آواز سے رونا چیخنا، چلانا، اللہ سے شکایات کرنا، تقدیر کے فیصلوں سے خوش نہ ہونا، جسم یا چہرے کو پیٹنا، گریبان چاک کرنا؛ یہ تمام ایسے امور ہیں جن سے شریعت منع کرتی ہے، اس سے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں تا کہ نوحے اور ماتم کے گناہ کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے
صحیح مسلم میں ہے:

٢٣٦- عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اثْنَتَانِ فِي النَّاسِ كفرا هُمَا بِهِمْ على الطعن في النسب والنياحة على الميت ۔

حضرت ابو ہر یرہ رض فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ” تین چیزوں میں ایک چیز جو اللہ تعالٰی کے ساتھ کفر کے زمرے میں آتی ہیں : غم میں گریبان چاک کرنا، میت پر نوحہ کرنا اور نسب میں طعنہ دینا۔

١٦٥- قَالَ رَسُولُ اللهِ : ثَلَاثَ مِنَ الكفر بالله شق الجيب، وَالنیاحَةُ، وَالطَّعْنُ فِي النَّسَبِ”

ان احادیث میں نوحہ کرنے، غم میں گریبان چاک کرنے، کپڑے پھاڑنے کی شدید وعید بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ کفر کے کام ہیں۔ مسلمانوں کے نہیں اس لیے یہ کام حرام اور شدید گناہ ہیں، مسلمانوں کو ان سے اجتناب کرنا چا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابلیس چیخنے اور چلانے لگا اس کا لاؤ لشکر اس کے پاس آ کر جمع ہوا تو انہوں نے کہا کہ تم اس بات سے مایوس ہو جاو۔کہ ہم آج کے بعد امت محمدیہ کو شرک میں مبتلا کر پائیں گے ، لیکن تم ان کے دین میں ان کو فتنے میں مبتلا کرو اور ان میں نوحہ کو پھلا دو۔
معجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

١٢١٤٩- عَنْ سَعِيدِ بن جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ النَّبِيُّ ﷺ مكة رن الابليس رنة اجتمعت إليه جُنوده فقال النسوا أن نريد أمة محمد على الكفربعد يومكم هذا، ولكن افتنوهم في دينِهِمْ وَأَفشُوا فيهم النوح.

معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں نوحه ابلیس کی چاہت ہے اس سے نوحہ کرنے کی شدید مذمت ثابت ہوتی ہے کہ اس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ بلکہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” وہ ہم میں سے نہیں جو (مصیبت کے وقت ) چہرے کو پیٹے، گریبان کو پھاڑے اور جاہلیت کی طرح واویلا اور نوحہ کرے۔ صحیح بخاری میں ہے:

١٢٩٤ – عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : الْيْسَ مِنَّا مَنْ لَطمَ الحدود وشق الجیوب ودعا بدعوى الجاهلية۔

حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اور شاد فرمایا کہ : ” جالیت کی چار چیزیں ایسی ہیں جو میری امت نہیں چھوڑے گی: اپنے حسب نسب پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب پر طعن کرنا،ستاروں سے بارش طلب کرنا، میت پر نوحہ کرنا ، نوحہ کرنے والی عورت اگر توبہ کیے بغیر مر جائے تو اسے قیامت کے دن اس حال میں پیش کیا جا ئے گا کہ ایک تار کول کا کرتا اور خارش والی قمیص ہوگی۔۔
صحیح مسلم میں ہے:

أن النبي ﷺ قَالَ أَرْبَعُ فِي أُمَّتِي مِنْ أمر الجاهلية لا يتركونهن الفخر في الاحساب والطعن في الأنساب والاستسقاء بالنجوم والنياحة
، وقال: «النائحة إذا لَمْ تَتب قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالُ مِنْ قَطِرَانِ وَدِرْعُ مِنْ جَرَبٍ

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس سرکار نے فرمایا کہ: “میں نے دو احمق اور فاجر آوازوں سے منع کیا ہے: ایک تو مصیبت کے وقت چیخنا، چہرہ نوچنا اور گریبان پھاڑنا، اور دوسری شیطانی مرثیہ خوانی.

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس میں یہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ : “فرشتے اس عورت کے لیے رحمت کی دعائیں نہیں کرتے جو مصیبت کے وقت نوحہ کرنے والی ہو اور واویلا کرنے والی ہوں۔

عن أبي هريرة أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا تصلي الملائكة على نائحة ولا على مرنۃ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” دو آوازیں دنیا میں بھی ملعون ہیں آخرت میں بھی۔ خوشی کے وقت موسیقی اور مصیبت کے وقت واویلا اور نوحہ کرنا ۔

احادیث کا حاصل:

ان تمام احادیث مبارکہ سے واضح طور پر مصیبت کے وقت نوحہ کرنے، چیخنے چلانے ، واویلا کرنے، جاہلیت جیسی باتیں کرنے، گریبان اور کپڑے پھاڑنے، سر منڈانے ، چہرہ پیٹنے ، چہرہ نوچنے اور ماتم کرنے جیسے تمام غیر شرعی کاموں کی شدید مذمت اور ان سے متعلق وعید یں بیان ہوئی ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نوحے پر مشتمل مرثیے پڑھنا، ایسے پرو گرام نشر کرنا، ان کاموں کے لیے جلسے منعقد کرنا، اپنی پوسٹیں اور بیانات شیئر کرنا ان مجالس میں شرکت کرنا ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنا، ان امور کے لیے چندہ دینا یا کسی اور طرح کا تعاون کرنا سب ناجائز اور گناہ کے کام آگیا۔ ان احادیث کو مد نظر رکھنے کے بعد کوئی بھی مسلمان مرد یا عورت ان مذکورہ بالا امور کی ہمت اور جرات نہیں کر سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں