قربانی کا مقصد اور فلسفہ
قربانی کا مقصد اور فلسفہ:
قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی جیسی عظیم الشان عبادت اپنے اندر ایک عالیشان مقصد لیے ہوئے ہے کہ بندہ اپنے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمان برداری کے لیے ہمہ وقت تیار رہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اپنی تمام تر خواہشات پرمقدّم رکھے، اللہ تعالیٰ کی محبت تمام محبتوں پر غالب رکھے، اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی جان، مال، اولاد اور خواہشات سمیت ہر چیز کو قربان کرنے سے دریغ نہ کرے، اپنے آپ کو مکمل اللہ تعالیٰ کے تابع کردے اور زندگی کے تمام معاملات میں شریعت کی پیروی کو ترجیح دے۔
یہی قربانی کی حقیقت اور فلسفہ ہے! یہی ہر سال قربانی کرنے کا سبق ہے کہ ہمیں اللہ کو راضی کرنے کے لیے سب کچھ قربان کرنا آجائے، اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے اُس عظیم واقعہ سے سب سے بڑا درس بھی یہی ملتا ہے کہ اللہ کا حکم پورا کرنے کے لیے والد نے بیٹے تک کو قربان کرنے میں تأمُّل اور پس وپیش نہیں کیا، بلکہ جیسے ہی اللہ کا حکم آیا تو فورًا اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے، اور بیٹا بھی وہ جو بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد عطا ہوا تھا جبکہ والدین کی عمر ڈھل چکی تھی! اور سعادت مند بیٹے نے بھی اللہ کے حکم کی تعمیل میں ذرا برابر بھی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس میں تاخیر اور عذر پیش کرنے کی ذرا بھی کوشش کی، جیسا کہ ان سے متعلق قرآنی واقعہ میں ’’فَلَمَّآ أَسۡلَمَا‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہورہاہے کہ دونوں نے اللہ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کیا،
چنانچہ قرآن کریم سورۃ الصَّافّات میں اس عظیم الشان واقعہ کا ذکر ہے، ملاحظہ فرمائیں آیت 100 تا 111:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ۞ فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ ۞ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىْۤ اَرٰى فِى الْمَنَامِ اَنِّىْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰىؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِىْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ۞ فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِۚ ۞ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰۤاِبْرٰهِيْمُۙ ۞ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَاۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ۞ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِيْنُ ۞ وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ ۞ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِى الْاٰخِرِيْنَۖ ۞ سَلٰمٌ عَلٰٓى اِبْرٰهِيْمَ ۞ كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ۞ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ۞ .
ترجمہ:
[حضرت ابراہیم علیہ السلام نےدعا مانگی کہ:] ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے دے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔۞ چنانچہ ہم نے انھیں ایک بُردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔۞ پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو اُنھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے،ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔۞ چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا،۞ اور ہم نے اُنھیں آواز دی کہ: اے ابراہیم! ۞ تم نے خواب سچ کر دکھایا۔۞ یقینًا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔۞ یقینًا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا،۞ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اُ س بچے کو بچا لیا۔۞ اور جو لوگ اُن کے بعد آئے اُن میں یہ روایت قائم کی۞ (کہ وہ یہ کہا کریں کہ:) سلام ہو ابراہیم پر!۔۞ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں،۞ یقینًا وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے.۞‘‘
یہ ساری صورتحال اس بات کی خبر دیتی ہے کہ قربانی کرنے کو محض ایک عمل نہ سمجھا جائے بلکہ اس کا مقصد اور فلسفہ سمجھ کر اس سے سبق حاصل کیا جائے۔
قربانی جیسی عبادت کو محض رسم اور دنیاوی تہوار نہ بنائیے
قربانی ایک عظیم عبادت ہے اور اس کا حاصل اللہ کی رضا ہے بس! اس کا تقاضا یہ ہے کہ قربانی کی عبادت سر انجام دینے میں قدم قدم پر یہی تصور غالب اور مدنظر رکھنا چاہیے کہ یہ خالص عبادت ہے اور اس سے اللہ کی رضا مقصود ہے، اس لیے قربانی کا جانور خریدنے، اس کی خدمت کرنے، اس کو ذبح کرنے، اس کو تقسیم کرنے اور اس کے حصے بناکر رشتہ داروں اور حاجت مندوں میں بانٹنے تک کے تمام مراحل میں یہ تصور دل ودماغ سے اوجھل نہ ہونے پائے کہ یہ قربانی عبادت ہے اور اسے عبادت ہی کی طرح اور عبادت ہی کی نیت سے سر انجام دینا ہے تاکہ اللہ کے ہاں قبول ہوسکے۔
قربانی میں عبادت کا تصور برقرار رکھنے کے بہترین نتائج
1. جب قربانی کے تمام مراحل میں اس کے عبادت اور دینی شعائر ہونے کے تصور کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس کے بہترین نتائج یوں نمایاں ہوتے ہیں کہ:
قربانی بوجھ اور تاوان سمجھ کر ادا نہیں کی جاتی بلکہ خوشی خوشی اللہ کا حکم سمجھ کر ادا کی جاتی ہے۔
2. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل سے متعلق شرعی احکام سیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر قدم قدم پر شریعت کے ان احکام کی پاسداری کی جاتی ہے۔
3. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں اخلاص مدنظر رکھا جاتا ہے، اور ریاکاری اور نام ونمود کے طور طریقوں سے بالکلیہ دور رہا جاتا ہے۔
4. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں نماز اور اس جیسی دیگر اہم عبادات ترک نہیں کی جاتیں بلکہ ہر حکم کی بجا آوری کی کوشش کی جاتی ہے۔
5. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں کسی حکمِ شرعی کی مخالفت نہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
6. پھر ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی عبادت ہی برقرار رہتی ہے اور اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے۔
قربانی میں عبادت کا تصور برقرار نہ رکھنے کے بُرے نتائج
لیکن مذکورہ تفصیل کے برعکس جب قربانی کے تمام مراحل میں اس کے عبادت اور دینی شعائر ہونے کے تصور کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو اس کے برے نتائج یوں نمایاں ہوتے ہیں کہ:
قربانی بوجھ اور تاوان سمجھ کر ادا کی جاتی ہے۔
1. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے کے تمام مراحل سے متعلق شرعی احکام سیکھنے کی نہ تو کوشش کی جاتی ہے اور نہ ہی قدم قدم پر شریعت کے ان احکام کی پاسداری کی جاتی ہے۔
3. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ رکھا جاتا ہے، مہنگے سے مہنگے جانور خرید کر ان کی نمائش کی جاتی ہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں اور ہماری شہرت ہو۔
4. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں نماز ادا کرنے کی پروا نہیں کی جاتی، اسی طرح دیگر عبادات سے بھی پہلو تہی کی جاتی ہے۔
5. قربانی کا جانور خریدنے سے لے کر گوشت تقسیم کرنے تک کے تمام مراحل میں گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، حرام مال سے بھی جانور خرید لاتے ہیں اور جانور خریدتے وقت شرعی احکام کی مخالفت کی جاتی ہے۔
6. پھر ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی میں عبادت کی روح برقرار نہیں رہتی، بلکہ یہ ایک دنیاوی تہوار اور جشن بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں قربانی اللہ کے ہاں کیسے قبول ہوسکے گی!!
اس لیے جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے، اگر ہم نے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی اور خود کو ان برائیوں سے دور نہ رکھا تو رفتہ رفتہ قربانی عبادت کی بجائے ایک دنیاوی رسم بن جائے گی اور پھر ہماری نسلیں اس کی حقیقت سے محروم رہ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔