آدابِ قبولیتِ دعا

آدابِ قبولیتِ دعا

آدابِ قبولیتِ دعا

دعا ایک عظیم نعمت اور انمول تحفہ ہے اس دنیا میں کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں دعا سے مستغنی نہیں ہو سکتا دعا اللہ تعالی کی عبادت ہے دعا اللہ کے متقی بندے اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اوصاف حمیدہ میں سے ایک ممتاز وصف ہے دعا اللہ تعالی کے دربار عالیہ میں سب سے باعزت تحفہ ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“ليس شيء اكرم على الله عز وجل من الدعاء”

یعنی دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے ہاں کوئی چیز باعزت نہیں اللہ تعالی کے ہاں بہت پسندیدہ عمل ہے یقینا مومن کا ہتھیار ہے- رب کریم کے نادیدہ خزانوں کی چابی ہے دعا مومن کا بہت اہم خزانہ ہے دعا عبادت کا مغز ہے لیکن اس کی حقیقت عقلیت پسندوں کی سمجھ میں نہیں اتی -اللہ تعالی کے نادیدہ خزانوں کا عظیم و عمیق ربط دعا ہے جس کی قبولیت کے مختلف انداز ہیںِ، کبھی بعینہِ وہی مل جائے یا اس کا بدل بلکہ نعم البدل مل جائے، جوں کا توں قبول نہ ہو بلکہ اللہ تعالی حکیم ہے اور اس کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں اور وہ انسان کے انجام سے بخوبی واقف ہے- چنانچہ اس کے ذریعے کوئی مصیبت دور کر دے یا یہ کہ اسے مومن کے لیے بطور توش اخرت محفوظ کر دیا جائے لیکن دعا کی قبولیت کے گونا گو انداز کو عقلیت پسند ذہن تمسخر کا نشانہ بنانے سے نہیں رکتے لیکن انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ پرخلوص کوشش اور دعا سے وہ نتائج نکلتے ہیں جن کی عقلی لحاظ سے بالکل امید نہیں ہوتی-
دعا کی قبولیت کے اداب میں یہ بات شامل ہے کہ انسان اللہ کی عادات اور فرمانبرداری کرے خوب خوب بندگی کریں تقوی اور پرہیزگاری کی راہ روش اپنائے یقینا دعا میں تقوی بہت اہمیت رکھتا ہے-
دعا کی قبولیت میں بے شمار موانع ہیں مثال کے طور پر حرام کھانا حرام پینا اور حرام لباس زیب تن کرنا اسی طرح قبولیت دعا کے مندرجہ ذیل چند اداب ہیں:

اخلاص یعنی دعا صرف اللہ سے مانگی جائے

تمام زمین و اسمان میں عبادت کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالی ہی ہے لہذا ہر قسم کی عبادت کو صرف اللہ تعالی کے لیے خالص کر دینا ضروری ہے اور جیسا کہ اس سے قبل وضاحت کی جا چکی ہے کہ دعا بھی عبادت میں شامل ہے بلکہ اہم ترین عبادت ہے لہذا دعا بھی صرف اللہ تعالی ہی سے کی جائے غیر اللہ سے دعا کی فریاد سے مکمل اجتناب کیا جائے بلکہ اللہ تعالی سے دعا کرتے وقت بھی اس بات کا خاص اہتمام و التزام ہو کہ اس میں ایسی عبارات یا کلمات شامل نہ ہو جائیں جن میں استعانت غیر اللہ کا شائبہ ہو-

قران کریم میں ارشاد ہے

ترجمہ: تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لیے دین کو خالص کر کے اگرچہ کافر برا مانے-

اسی طرح ارشاد ہے:
اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہیں پس اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو اور ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو تجھ کو کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جب تم کچھ مانگو تو صرف اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو صرف اللہ ہی سے کرو استحضارِقلب:
دعا کی قبولیت کے لیے “استحضار قلب “انتہائی ضروری ہے یعنی ایسا نہ ہو کہ انسان کسی توجہ التفات اور فکر و تدبیر کے محض چند رٹے رٹائےجملے یا کلمات بس اٹھتے بیٹھتے د ہراتا رہے بلکہ دعا کے اداب میں یہ بات شامل ہے -نیز قبولیت دعا کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ انسان مکمل توجہ خوب ذوق و شوق اور خشوع و خضوع کے ساتھ نیز جس قدر ممکن ہو سکے دل لگا کر اور گڑگڑا کر دعا کا اہتمام و اتزامکیا جائے-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جان جان لو کہ اللہ تعالی ایسی دعا قبول نہیں فرماتے جو غفلت اور بے توجہی کی کیفیت میں مانگی گئی ہو-
لہذا دعا کے دوران استحضار قلب کا مکمل اہتمام اور کوشش انتہائی ضروری اور لازمی ہے-

حسن ظن

دعا مانگتے وقت دل میں اللہ تعالی سے اپنی دعا کی قبولیت کے بارے میں حسن ظن یعنی اچھی امید رکھی جائے اور یہ عقیدہ ہو کہ مومن کے لیے دعا تو بہرحال مفید ہی ہے خواہ وہ کسی شکل میں قبول ہو یا اس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں ظاہر ہو کہ بہر صورت دعا خیر و برکت اور بہتری کا ہی ذریعہ اور سبب ہے اور اس کی افادیت یقینی ہے-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اس زمین پر موجود کوئی بھی مسلمان جب بھی اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہے تو یقینا اللہ تعالی یا تو اس کی مطلوبہ چیز جس کے حصول کے لیے اس نے اللہ تعالی سے دعا مانگی ہے اس سے عطا فرما دیتے ہیں یا اس کے عوض اللہ تعالی اس سے کسی مصیبت کو دور فرما دیتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دعا کسی گناہ کے لیے نہ ہو یا قطع رحمی کی غرض سے نہ ہو-
یعنی جب بھی کوئی بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے اور وہ دعا کسی ناجائز مقصد کے لیے نہ ہو اور نہ ہی اس میں کوئی قطع رحمی ہو تو ایسی دعا اللہ تعالی کی بارگاہ میں ضرور قبول ہوتی ہے البتہ اس کی قبولیت کی شکلیں مختلفہوا کرتی ہیں اگر وہ مقصد جس کی خاطر بندہ دعا کر رہا ہے اللہ تعالی کے علم میں اس بندے کے لیے مفید و بہتر ہو ربعی نہیں وہی چیز بندے کو ادا کر دی جائے گی لیکن اگر وہ چیز اللہ تعالی کے علم میں اس بندے کے لیے بہتر نہیں ہوگی تو اسے وہ چیز نہیں دی جائے گی البتہ اسے اس کی دعا کی افادیت اور خیر و برکت سے یکسر محروم بھی نہیں رکھا جائے گا لہذا اسے اس دعا کی برکت سے اس طرح فیضیاب کیا جائے گا کہ اس کے نصیب میں لکھی ہوئی کسی افت اور مصیبت کو اس دعا کی برکت سے ڈال دیا جائے گا اور درحقیقت اللہ تعالی کی طرف سے بندے کے لیے بھی تو کتنا بڑا کرم ہے کہ اللہ بندے کو وہ چیز عطا نہیں فرماتا جو اس کے علم میں بندے کے لیے مضر ہو-

جلد بازی سے گریز

دعا کی قبولیت کے بارے میں جلد بازی اور بے صبری کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے اس کے بجائے یہ یقین وایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی تو یقینا انتہائی رحیم و کریم ہے اس کا علم بھی کامل ہے خودبندے کے لیے کیا مفید ہے اور کیا مضر ہے؟ اس چیز کا علم تو خود بندے سے بھی بڑھ کر اللہ کو ہے لہذا بندے کا انداز فکر یہ ہونا چاہیے کہ میرا کام بس اس رب کریم سے مسلسل مانگتے ہی رہنا اب اس کریم کے علم میں میرے لیے جو بہتر ہوگا وہی ہو جائے گا اور پھر یہ دعا جس شکل میں بھی قبول ہو اور اس کا جو نتیجہ ظاہر ہو بہرحال دعا تو بذات خود اللہ تعالی کی عبادت ہے بلکہ انتہائی اہم ترین عبادت ہے اور بہر صورت باعث خیر و برکت بھی ہے-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
میں سے کوئی شخص جب دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے وہ جلد بازی نہ کرے یعنی یوں نہ کہے کہ میں نےتو دعا مانگی مگر میری دعا قبول نہیں ہوئی-
ہر مسلمان کے لیے اس حدیث کے معنی و مفہوم میں غور کرنا ازحد ضروری اور لازمی ہے تاکہ اسے اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کا علم اور احساس ہو سکے کیونکہ اس حدیث کی رو سے جب کوئی شخص خود اپنی زبان سے یہ الفاظ کہہ دیتا ہے کہ میں نے تو دعا مانگی مگر قبول ہی نہیں ہوئی تو یہ شخص اپنی اس حرکت کے ذریعے خود اپنے اپ پر بھی بہت ہی بڑا ظلم کر رہا ہے- کیونکہ اس طرح اس نے خود ہی اپنے لیے دعا کی قبولیت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا لہذا اس چیز سے بچنا انتہائی ضروری ہے-

رزق حلال کا اہتمام

دعا کی قبولیت کے لیے رزق حلال کا اہتمام و التزام اور تمام حرام ذرائع آمدنی مثلا سود ،رشوت ،ملاوٹ ،بد دیانتی ،مکر و فریب اور دوسروں کی حق تلفی وغیرہ سے مکمل اجتناب نہایت ضروری ہے-

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اپنے کھانے کو پاکیزہ حلال بناؤ نتیجہ یہ ہوگا کہ تم مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے یعنی تمہاری دعائیں قبول کی جائیں گی-
جب کہ حرام ذرائع سے حاصل کردہ رزق کے بارے میں اسے حدیث میں اگے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
انسان جب کوئی لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کی وجہ سے 40 روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور ہر وہ انسان جس کی پرورش حرام سے ہوئی ہو اس کے لیے جہنم کی اگ ہی بہتر ٹھکانا ہے-
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار قران کریم کی چند ایات تلاوت فرمائیں جن میں اللہ تعالی کی طرف سے رزق حلال کے اہتمام و التزام کا حکم دیا گیا ہے اس کے بعد اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بعض اوقات کوئی شخص جس نے طویل سفر کی مشقت برداشت کی ہوتی ہے اس کے بال بکھرے ہوئے اور جسم و لباس غبار الود ہوتا ہے وہ اسمان کی طرف دونوں ہاتھ بلند کر کے اہ فریاد کرتا ہے کہ:
اے میرے رب اے میرے رب جب کہ اس کا کھانا حرام سے ہے اس کا پینا حرام سے ہے اس کا لباس حرام سے ہے اس کی پرورش حرام سے ہوئی ہے لہذا اس کی دعا کیسے قبول ہو؟
یعنی بظاہر وہ اس قدر مسکین اور پراگندہ حال نظر اتا ہے نیز اس کی پراگندگی اور خستہ حالی ایسی ہے کہ ارحم الراحمین کی بارگاہ میں اس کی دعا کو تو فورا ہی شرف قبولیت نصیب ہونا چاہیے تھا خصوصا جب کہ وہ دونوں ہاتھ اسمان کی طرف اٹھا کر خوب دعا و فریاد اور انتہائی اہ و زاری بھی کر رہا ہو یا رب یا رب کہہ کر اللہ کو پکار رہا ہو مگر اس کے باوجود اس کی دعا قابل قبول نہیں کیونکہ اس کا کھانا پینا لباس وغیرہ سب کچھ حرام ذرائع سے حاصل شدہ ہے-
اللہ تبارک و تعالی اپ کی اور ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور ہمیں اپنے نیک بندوں کی دعاؤں میں شامل فرمائے-

اپنا تبصرہ بھیجیں