توبہ کے متعلق اسلامی تعلیمات

توبہ کے متعلق اسلامی تعلیمات

توبہ کے متعلق اسلامی تعلیمات

تو بہ کہتے ہیں ؛ ندامت کے ساتھ ، اپنے گناہوں کی اللہ تعالی سے آئندہ نہ کرنے کے جذبے کے ساتھ معافی مانگنا۔ یعنی اپنے گناہ پر سچی شرمندگی ہو، آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا عزم ہو اور صدق دل سے اپنے گناہوں پر اللہ تعالی سے معافی مانگنا ہو۔

تو بہ کی اقسام

تو بہ کی دو اقسام ہیں:
ظاہری تو بہ ظاہری توبہ یہ ہے کہ انسان قولاً وفعلاً اپنے تمام اعضائے ظاہری (آنکھ، ناک، کان، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ) کو گناہوں اور برائیوں سے ہٹا کر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگا دے، اور خود کو نیکیوں کی طرف راغب کرتا ر ہے۔ نیز شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف افعال سے تائب ہو کر شرعی احکامات کے مطابق عمل پیرا ہو۔

باطنی توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دل کو گناہوں کی غلاظتوں اور آلائشوں سے پاک کر کے شریعت کے موافق اعمال صالحہ کی پابندی کرے۔ جب انسان کا ظاہر حکم الہی کے موافق ہو جائے اور قلب و باطن بھی اللہ رب العزت کی اطاعت میں ڈھل جائے اور برائی نیکی سے بدل جائے تب اس کو کامل توبہ نصیب ہوگی.

توبہ کے دنیوی و اخروی فوائد

توبہ کی وجہ سے ملنے والے بے شمار فوائد و فضائل میں سے کچھ ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں :

(1) توبہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے

إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرہ:۲۳۲)

ترجمہ: بے شک اللہ تو بہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(2)توبہ کرنے سے اللہ تعالی بے پناہ خوش ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی تو بہ سے ایسا خوش ہوتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی خالی زمین میں اپنا گمشدہ جانور پائے.

(3) توبہ کامیابی وکامرانی کا سبب ہے۔

وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون (النور:۳)

ترجمہ: اے مومنوں تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو تو توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔

[6] توبہ رحمت و مغفرت الہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

وَالذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ” (الأعراف :١٥٣)

ترجمہ: اور جنہوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کی اور ایمان لے آئے ، تو بے شک تیرا رب تو بہ کے بعد البتہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(7) توبہ کرنا گناہوں کو نیکیوں میں بدل ڈالتا ہے۔

يُضعَفُ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا – إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّاتِهِمْ حَسَنتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الفرقان:۷۰-69)

ترجمہ: ”قیامت روز اس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اس میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا ، الا یہ کہ کوئی ( ان گناہوں کے بعد ) تو بہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے۔

(8) توبہ خیرو بھلائی کا سب ہے۔

فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى الله (التوبة:٣)

ترجمه: اور اگر اگر تم لوگ تو بہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لوکہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔

گناہوں سے توبہ کا طریقہ

علماء کرام نے فرمایا کہ بندہ جن گناہوں میں مبتلا تھا ، ان سے تو بہ کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس گناہ کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے یا بندوں کے حقوق سے؟

اگر اللہ تعالی کے حقوق میں سے کوئی حق ہے، جیسا کہ ترک نماز کا مرتکب تھا، تو اس گناہ سے توبہ اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتی، جب تک قلبی ندامت کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ پڑھ لے۔ اسی طرح روزہ اور زکوۃ وغیرہ کا معاملہ ہے کہ جب تک سابقہ روزوں اور زکوۃ کی ادائیگی نہیں کرے گا، اس وقت تک اس کی توبہ کامل نہیں ہوگی ۔ اگر گناہ کسی کو ناحق قتل کرنے کا ہے تو استغفار کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کر دے، اگر اولیاء مفتول نے اس کا مطالبہ کیا ہے تو ، ورنہ دیت ادا کرے۔ اگر گناہ کسی پر ایسی جھوٹی تہمت لگانے کا ہے جس سے حد لازم آتی ہے تو استغفار کرتے ہوئے اپنے آپ کو صاحب حق کے سامنے حد کے لیے پیش کر دے۔ اگر قتل اور تہمت میں اسے معاف کر دیا گیا تو اخلاص کے ساتھ ندامت اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کافی ہو جائے گا۔ اس طرح چور، ڈاکو ، شرابی اور زانی بھی توبہ کر لیں اور ان گناہوں کو ترک کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کی توبہ درست ہو جائے گی۔

اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اگر قدرت رکھتا ہے تو فورا صاحب حق کا حق ادا کرے، اگر فوری ادائیگی کی قدرت نہ ہو تو جتنی جلدی ممکن ہو قدرت ہونے پر ادائیگی کا عزم کرلے۔ اگر کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا سبب اختیار کیا ہے تو فوری طور سے اس سبب نقصان کو زائل کر دے، پھر اس مسلمان بھائی سے معافی طلب کرے اور اس کے لیے استغفار بھی کرے، اور اگر صاحب حق نے اس کو معاف کر دیا تو یہ اس گناہ سے بری ہو جائے گا۔ اس طرح اگر کسی دوسرے کو کسی بھی طرح کا ضرور پہنچایا تھا یا ناحق اسے ستایا تھا اور صاحب حق سے نادم ہو کر معافی مانگی ، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم بھی ہو اور برابر اس سے معافی طلب کرتا رہا، یہاں تک اس مظلوم نے اسے معاف کر دیا تو اس کے وہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
یہی حال باقی تمام معاصی و گناہوں کا ہے کہ اگر حقوق اللہ سے تعلق ہے تو ذکر کردہ شرائط کے مطابق تو بہ کرے اور اگر بندوں کے حقوق کا معاملہ ہو تو مذکورہ طریقہ تو بہ کو اپنانے کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرے یا معاف کروائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں