صدقہ فطر

صدقہ فطر

صدقہ فطر کیا ہے ؟

فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اُس صدقہ کا نام صدقہ فطر ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

” صدقہ فطر روزہ دار کی بیکار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ ابو دائود ح ۱۶۰۶، ابن ماجہ ح ۱۸۷۲۔

صدقہ فطر مقرر ہونے کی وجہ

عیدالفطر میں صدقہ فطر اس واسطے مقرر کیا گیا ہےکہ اس میں روزہ داروں کے لئے گناہوں سے پاکیزگی اور ان کے روزوں کی تکمیل ہے۔ نیز مالداروں کے گھروں میں تو اُس روز عید ہوتی ہے مختلف قسم کے پکوان پکتے ہیں، اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، جبکہ غریبوں کے گھروں میں بوجہ غربت اُسی طرح روزہ کی شکل موجود ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالی نے مالدار لوگوں پر لازم ٹھرایا کہ غریبوں کو عید سے پہلے صدقہ فطر دے دیں تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، وہ بھی کھا پی سکیں اور اچھا پہن سکیں۔

صدقہ فطر کا وجوب

متعدد احادیث سے صدقہ فطر کا وجوب ثابت ہے، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

حضرت عبداللہ بن عمر س رضی اللہ عنہ ے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے خواہ وہ غلام ہو یا آزاد ، مرد ہو یا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ بخاری ، مسلم ، دارقطنی

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخرمیں ارشاد فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ ابو دائود

اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ایک منادی کو اعلان کرنے کے لئے بھیجا تھا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، آزاد ہو یا غلام ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ ترمذی

صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟

جو مسلمان اتنا مالدار ہے کہ ضروریات سے زائد اُس کے پاس اُتنی قیمت کا مال و اسبات موجود ہے جتنی قیمت پر زکواۃ واجب ہوتی ہے تو اُس پر عید الفطر کے دن صدقہ فطر واجب ہے ، چاہے وہ مال و اسباب تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو، چاہے اُس پر سال گزرے یا نہیں۔ غرضیکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے زکواۃ کے فرض ہونے کے فرض ہونی کی تمام شرائط پائی جانی ضروری نہیں ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک صدقہ فطر کے وجوب کے لئے نصاب زکواۃ کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے، یعنی جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور زیر کفالت لوگوں کے لئے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل و اٰعیال کی طرف سے صدقہ فطر ادا کر.

صدقہ فطر کے واجب ہونے کا وقت

عید الفطر کے دن صبح صادق ہوتے ہی یہ صدقہ واجب ہو جاتا ہے۔ لہذا جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے ہی انتقال کر گیا تو اُس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہے اور جو بچہ صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا ہے اُ سکی طرف سے ادا کیا جائے گا۔

صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت

صدقہ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے ہے، البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے قبل ادا کر دیا جائے۔ بخاری ح ۱۵۰۹، مسلم ح ۲۲۸۵۔

حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن رضی اللہ عنہ عمر گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر دیتے تھے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور ابن عمر ان لوگوں کو دیتے تھے جو قبول کرتے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی ادا کرتے تھے، بخاری ح ۱۵۱۱۔

نماز عیدالفطر کی ادائیگی تک صدقہ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں نماز عید کے بعد بھی قضاء کے طور پر دے سکتے ہیں ۔ لیکن زیادہ تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں کیونکہ اس سے صدقہ فطر کا مقصود اور مطلوب ہی فوت ہو جاتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس نے صدقہِ فطر نماز عید سے پہلے ادا کر دیا تو یہ قابل قبول زکواۃ ہو گی اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے، ابو دائود ح ۱۶۰۶۔

صدقہ فطر کی مقدار

کھجور اور کشمش کو صدقہ فطر میں دینے کی صورت میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ اس میں ایک صاع جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک پیمانہ ہے صدقہ فطر ادا کرنا ہے،

کیا گیہوں کے بدلے قیمت دی جا سکتی ہے؟

صدقہ فطر میں گیہوں کی قیمت ادا کرنے میں علماء احناف رحمہ اللہ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تحریر کیاہے کہ گیہوں کی قیمت بھی صدقہ فطر میں دی جا سکتی ہے۔ زمانہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اب تقریبا تمام ہی علماء کرام نے تسلیم کیا ہے کہ عصر حاضر میں غلہ و اناج کے بدلے قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔

صدقہ فطر کے مستحق کون ہیں یعنی صدقہ فطر کس کو دیا جائے؟

صدقہ فطر غریب و فقیر مساکین کو دیاجائے ، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزرا۔

متفرق مسائل

ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ یعنی جہاں آپ رہ رہے ہیں مثلا ریاض میں تو وہیں صدقہ فطر ادا کریں، ہاں اگر دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں اُس کے غریب رشتہ دار رہتے ہیں یا وہاں کے لوگ زیادہ مستحق ہیں تو اُن کو بھیج دینا مکروہ نہیں ہے۔

ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دیا جا سکتا ہے۔

جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے، اُس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔

آجکل جو نوکر چاکر اجرت پر کام کرتے ہیں ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا مالک پر واجب نہیں ہے۔
واللہ اعلم!

آنلائن فطرانہ ادا کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں