سورۃ القیامہ

سورۃ القیامہ کا خلاصہ

سورۃ القیامہ کا خلاصہ

سورۂ قیامہ مکی ہے، اس میں چالیس آیات اور دو رکوع ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس سورت کا موضوع بحث یعنی مرنے کے بعد کی زندگی ہے جو کہ ایمان کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ یہ سورت قیامت کے مصائب و شدائد اور عذابوں کا ذکر کرتی ہے اور موت کے وقت انسان کی جو حالت ہوتی ہے اس کا نقشہ کھینچتی ہے، اس سورت کی ابتدا میں اللہ نے حشر کے قیام پرنفس لوامہ کی قسم کھائی ہے ( نفس لوامہ وہ ہے جو انسان کو کتا ہیوں پر ملامت کرتا ہے اور نیکی پر آمادہ کرتا ہے ) آخرت میں تو ہر شخص کا نفس اسے ملامت کرے گا ہی دنیا میں بھی جن لوگوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے وہ انہیں ملامت کرتا رہتا ہے۔ ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ یہاں پر اللہ نے خاص طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ ہم انسان کی پور پور تک درست کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، ہر انسان کی انگلی کا پور قدرت کی تخلیق کا شاہکار ہے کہ اس چھوٹی سی جگہ میں جو خطوط اور لکیریں ہیں وہ دوسرے انسان کے ساتھ نہیں ملتیں۔ اسی وجہ سے پوری دنیا میں کسی انسان کی شخصیت کو پہچاننے کے لیے انگلیوں کی لکیروں پر اعتماد کیا جاتا ہے اس کے بعد یہ سورت قیامت کی بعض ہولنا کیوں اور علامتوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ پس جس وقت نگاہ پتھراجائے گی اور چاند بے نور ہو جائے گا، سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں گے، اس دن انسان کہے گا آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ اگلی آیات میں یہ صورت بتلائی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حفظ قرآن کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور جبریل کی تلاوت کے وقت اس بات کی شدید کوشش کرتے تھے کہ آپ سے کوئی چیز رہ نہ ہو جائے ، اس لیے آپ حضرت جبریل کی اتباع میں جلدی جلدی پڑھنے اور یاد کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں ، میرا یہ وعدہ ہے کہ قرآن میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی ، اسے جمع کرنے محفوظ کرنے، باقی رکھتے اور بیان کرنے کا میں خود ذمہ دار ہوں۔
آخرت میں انسان دو فریقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک طرف سعداء ہوں گے اور دوسری طرف بدبخت نیک بخت لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے اور رب تعالی کی زیارت سے مشرف ہوں گے اشقیاء کے چہرے سیاہ ہوں گے اور وہ جان لیں گے کہ آج ہمیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
یہ سورت موت کے وقت انسان کا جو حال ہوتا ہے اور جس جس تکلیف کا سامنا کرنا پڑتے ہے اسے بھی بیان کرتی ہے۔
سورت کے اختتام پر جتلایا گیا کہ انسان کو ہم نے بیکار پیدا نہیں کیا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ نہ اس کا حساب ہو، نہ اسے جزاء سزادی جائے۔ اس طرح آخر میں حشر و معاد کی ایک حسی دلیل بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ جس اللہ نے انسان کو پہلی بار پیدا کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ اللہ تعالی کے لیے تو ابتدا اور اعادہ دونوں برابر ہیں ۔ مگر یہاں انسانی سوچ کے مطابق بات کی گئی ہے کیونکہ انسان کی تجربہ یہ ہے کہ دوبارہ بنانا، ابتداء کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں