صلب عقد سے تعلق رکھنے والی شرائط

صلب عقد سے تعلق رکھنے والی شرائط

(۶۱) بیع کے جائز اور صحیح ہونے کے لیے شرط ہے کہ وہ فی الحال یعنی وقت عقد ہی منعقد (پوری) ہو جائے۔ پس ایسی بیع صحیح نہ ہوگی جو کسی شرط پر معلق ہو۔ اسی طرح وہ بیع بھی صحیح نہ ہوگی جو مستقبل کی کسی تاریخ پر منسوب ( معلق) ہو۔
(۶۲) اگر بیچ کسی شرط فاسد کے ساتھ مشروط ہے تو یہ بیچ فاسد ہے۔ درج ذیل تین اقسام پر تضمن شرائط کے علاوہ بیچ میں مشروط کی جانے والی تمام شرائط فاسد ہیں۔
(الف) وہ شرط متقتضائے عقد کے مطابق ہو۔ مثلا یہ شرط ہو کہ بائع مشتری کو مبیع سپرد کر دے گا، یا مشتری بائع کوشن ادا کرے۔
(ب) وہ شرط عقد کے مناسب ہو۔ مثلا ادھاربیع میں مشتری سے کمی پیشی کرنے یا رہن رکھنے کی شرط کی جائے۔
(ج) ایسی شرط ہو جو تاجروں کے درمیان کسی رد و قدح اور انکار کے بغیر متعارف ( رائج ) ہو۔ مثلاً فریج کی خریداری میں شرط کی جائے کہ بائع مشتری کے گھر میں نصب کر دے گا، اور متعینہ مدت تک اس کے سلامت رہنے کا ذمہ ( گارنٹی ) لے۔
(۶۳) ایک صفقہ ( عقد ) میں دوسرے صفقہ کی شرط لگانا جائز نہیں۔ مثلاً کار بیچنے والا یہ شرط کرے کہ مشتری اپنا گھر اُسے کرایہ پر دے گا۔ ہاں اگر کسی کا روباری کام کی نوعیت ہی چند عقود ایک صفقہ میں مربوط ہونے کا تقاضا کرے اور کسی نکیر کے بغیر اس کا عرف جاری ہو تو درست ہے۔ مثلاً ٹریول ایجنٹ کا حج عمرہ یا تفریحی ٹور کا انتظام کرنا۔ اس میں ویزا کا حصول ، سفر کی ٹکٹوں کی خریداری، ہوٹلوں یا خیموں میں قیام، کھانا پانی کی فراہمی ؛ وغیرہ سب کچھ ایک صفقہ (عقد) میں متعین معاوضہ لے کر فراہم کیا جا سکتا ہے۔
(۶۴) بیع بالوفاء جائز نہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بائع متعین ثمن کے عوض کوئی چیز اس شرط کے ساتھ بیچتا ہے کہ جب مشتری کو ثمن واپس کر دیا جائے گا تو مشتری بائع کو وہ چیز واپس کر دے گا۔ صحیح یہ ہے کہ یہ معاملہ رہن کے قبیل سے ہے، لہذا مشتری کے لئے جائز نہیں کہ ایسی خریدی ہوئی چیز سے نفع اٹھائے ، کیوں کہ یہ در حقیقت شیئ مرہون سے نفع اٹھانا ہے اور ربا میں شمار ہوگا۔ ہاں اگر بیع میں یہ شرط نہ لگائی گئی ہو، پھر مشتری نے بائع کو یہ وعدہ کیا کہ بائع جب ثمن لے کر آئے گا تو وہ یہ مبیع اس کو بیچ دے گا، تو ایک جائز وعدہ ہے اور قضاء لا زم ہوگا۔ اور اگر یہ وعدہ بیع سے قبل ہو پھر اس شرط کا ذکر کیے بغیر بیع ہوئی ہو مگر دونوں نے یہ صراحت کر رکھی ہے کہ یہ بیع سابقہ وعدہ پر مبنی ہے تو یہ معاملہ بیع مشروط کے حکم میں ہے۔ اور اگر اس بیع کے سابقہ وعدہ پر مبنی ہونے کی صراحت نہیں کی ہے تو یہ بیع جائز ہے.

(۶۵) بیع استغلال یہ ہے کہ بائع بیع بالوفاء کرے، پھر مشتری سے وہی چیز کرایہ پر لے ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر بیع کا اعادہ یا کرایہ پر لینا بیع میں مشروط تھا تو یہ جائز نہیں۔ اگر بیع میں وفا کی شرط نہ تھی بلکہ مشتری نے عقد بیع سے الگ وفا کا وعدہ کیا تھا ؛ نیز اجارہ کی شرط بھی بیع میں نہ تھی بلکہ شرط سابق کے بغیر مبیع کرایہ پر لے رہا ہے تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ مشتری اول مبیع پر قبضہ کرلے، پھر بائع کو اجرت پر دے۔ (٦٦) البیع الا جاری ( hire purchase) کی حقیقت یہ ہے کہ چیز کا مالک اپنی چیز دوسرے شخص کو اس شرط کے ساتھ کرایہ پر دے کہ مستاجر جب اجرت کی تمام قسطوں کو متعین مدت میں ادا کر دے تو وہ مزید ثمن ادا کئے بغیر اس چیز کا مالک بننے کا حقدار ہوگا۔ یہ صورت شرعاً جائز نہیں، کیوں کہ یہ عقد بیع اور اجارہ کے مابین متردد ہے۔
(۲۲)

الاجارة التمويلية

(financing lease) شرعاً ممنوع اور حرام ہے۔ اس میں موجد شخص اجرت پر دی ہوئی چیز کا ضامن نہیں ہوتا ، نہ ہی اس بنیادی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے جس کے بغیر حصول منفعت ممکن نہیں یا جس میں مستاجر کی زیادتی کے بغیر چیز ہلاک ہونے کے باجود اجرت کا مطالبہ جاری رہتا ہے۔
(٢٧) تملیک پر منتج ہونے والا اجارہ ، یہ ہے کہ موجر اپنی چیز اجرت پر دیتے وقت خلاف تقاضائے عقد کوئی شرط نہ لگائے ، اس کے بعد موجر یہ وعدہ کرے کہ اگر مستاجر پوری اجرت اس کے اوقات پر ادا کرتا رہا تواس کو یہ چیز باہمی رضامندی سے کسی ثمن کے عوض فروخت کر دی جائے گی ۔ ایسا اجارہ ذیل کی شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔ (۱) دونوں ( اجارہ اور بیع ) الگ الگ عقد ہوں، جن کا وقت ایک دوسرے سے علیحدہ اور مستقل ہو، اس طور پر کہ عقد اجارہ کے ختم کے بعد ہی عقد بیع کیا جائے یا تملیک کا وعدہ ہی اجارہ کی مدت کے اختتام پر کیا جائے ۔ احکام میں خیار اور وعدہ مساوی ہیں۔ (ب) عقد اجارہ بالفعل مقصود ومراد ہو۔ بیع کے لیے آڑ اور بہانے کے طور پر نہ ہو۔ (ج) اجرت پر دی ہوئی چیز مالک کی ضمانت میں ہو، مستاجر کے ضمان میں نہ ہو۔ چنانچہ مستاجر کی تعدی یا زیادتی کے بغیر چیز کو لاحق ہونے والا نقصان موجر ہی برداشت کرے گا۔ اور اجرت پر دی ہوئی چیز کی منفعت کے فوت ہونے کی صورت میں مستاجر پر کچھ لا زم نہیں ہوگا۔(د) اگر یه عقد اجرت پر دی ہوئی چیز کے حفاظت کے بیمہ پر مشتمل ہو تو وہ اسلامی تعاونی بیمہ ہونا چاہیے، تجارتی بیمہ نہ ہو، بیمہ کے مصارف موجر ہی برداشت کرے گا، مستاجر نہیں ۔

(ه) تملیک پر منتہی ہونے والے ایسے عقد اجارہ پر پوری مدت اجارہ کے درمیان اجاره کے احکام لاگو ہوں گے اور پھر عین کی تملیک کے وقت بیع کے احکام لاگو ہوں گے۔ (و) اجارہ کی مدت کے دوران چیز کے غیر استعمالی مصارف مؤجر پر ہوں گے، مستاجر پر نہیں۔
(۲۸) مبیع میں سے کوئی چیز یا کچھ مقدار کا استثناء کرنا درست ہے۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ مستقلاً جس چیز کی بیع درست ہو اس کا بیع سے استثناء بھی درست ہے اور جس چیز کی مستقلاً بیع درست نہ ہو اس کا استثناء بھی درست نہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں