
مسائلِ قربانی
مسائلِ قربانی
تاریخِ قربانی
قربانی ماہِ ذو الحجہ کی ایک اہم ترین اور عظیم الشان عبادت ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔یوں تو اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے ہی سے چلا آرہا ہے’’جب سے حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تب ہی سے ان جانوروں کا ذبح کرنا بحکمِ الہٰی جاری ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ قرآن شریف میں مذکور ہے کہ ہابیل نے قربانی کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوئی۔‘‘ (امداد الفتاویٰ)
حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل کا قصہ بیان فرمایا ہے کہ دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ قربان کیا جبکہ قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا، اُس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھالیتی، چنانچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا، اس طرح اس کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، یوں وہ قبولیت سے محروم ہوگئی۔
مذکورہ واقعہ سے متعلق سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 27
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَىْ اٰدَمَ بِالْحَقِّۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ قَالَ لَاَقْتُلَـنَّكَؕ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ۞
ترجمہ:
’’اور (اے پیغمبر!) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی، اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی، اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ: میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں سے (قربانی) قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔‘‘
تفسیر
’’پیچھے بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کا ذکر تھا کہ جہاد کا حکم آجانے کے باوجود اس سے جان چراتے رہے، اب بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک بامقصد جہاد میں کسی کی جان لینا تو نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے ؛ لیکن ناحق کسی کو قتل کرنا بڑا زبردست گناہ ہے، بنی اسرائیل نے جہاد سے تو جان چرائی، لیکن بہت سے بےگنا ہوں کو قتل کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا، اس سلسلے میں وہ واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اس دنیا میں سب سے پہلے قتل کی واردات پر مشتمل ہے، اس واقعے میں قرآن کریم نے تو صرف اتنا بتایا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں نے کچھ قربانی پیش کی تھی، ایک کی قربانی قبول ہوئی، دوسرے کی نہ ہوئی، اس پر دوسرے کو غصہ آگیا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا، لیکن اس قربانی کا کیا پسِ منظر تھا، قرآن کریم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی، البتہ مفسرین نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے صحابہ کرام کے حوالے سے ایک واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام قابیل تھا اور ایک کا ہابیل، اُس وقت چونکہ دنیا کی آبادی صرف حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد پر مشتمل تھی اس لیے ان کی اہلیہ کے ہر حمل میں دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، ان دونوں کے درمیان تو نکاح حرام تھا، لیکن ایک حمل میں پیدا ہونے والے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے ہوسکتا تھا، قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بڑی خوبصورت تھی، لیکن جڑواں بہن ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ قابیل کا نکاح جائز نہ تھا، اس کے باوجود اس کا اصرار تھا کہ اسی سے نکاح کرے، ہابیل کے لیے وہ لڑکی حرام نہ تھی، اس لیے وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا، جب دنوں کا یہ اختلاف بڑھا تو فیصلہ اس طرح قرار پایا کہ دونوں کچھ قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں، جس کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اس کا دعویٰ برحق سمجھاجائے گا، چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی، روایات میں ہے کہ ہابیل نے ایک دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار پیش کی، اس وقت قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھاجاتی تھی، ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا اور اس طرح اس کی قربانی واضح طور پر قبول ہوگئی اور قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئی، اس پر بجائے اس کے کہ قابیل حق کو قبول کرلیتا، حسد میں مبتلا ہو کر اپنے بھائی کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔‘‘
تفسیر ابن کثیر میں ہے
ثم المشهور عند الجمهور أن الذي قرب الشاة هو هابيل، وأن الذي قرب الطعام هو قابيل، وأنه تقبل من هابيل شاته حتى قال ابن عباس وغيره: إنها الكبش الذي فدي به الذبيح، وهو مناسب، والله أعلم، ولم يتقبل من قابيل.
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا عظیم الشان واقعہ اسی طرح قربانی سے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا عظیم الشان واقعہ بھی نہایت ہی اہمیت اور خصوصیت کا حامل ہے جو کہ مشہور ومعروف ہے۔ چنانچہ قرآن کریم سورۃ الصَّافّات میں اس کا ذکر ہے، ملاحظہ فرمائیں آیت 100 تا 111:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ۞ فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ ۞ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْىَ قَالَ يٰبُنَىَّ اِنِّىْۤ اَرٰى فِى الْمَنَامِ اَنِّىْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰىؕ قَالَ يٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِىْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ۞ فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِۚ ۞ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰۤاِبْرٰهِيْمُۙ ۞ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَاۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ۞ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِيْنُ ۞ وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ ۞ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِى الْاٰخِرِيْنَۖ ۞ سَلٰمٌ عَلٰٓى اِبْرٰهِيْمَ ۞ كَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ ۞ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ۞ .
ترجمہ:
[حضرت ابراہیم علیہ السلام نےدعا مانگی کہ:] ’’اے میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دے دے جو نیک لوگوں میں سے ہو۔۞ چنانچہ ہم نے انھیں ایک بُردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔۞(1) پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو اُنھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے،(2) ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ۞ چنانچہ (وہ عجیب منظر تھا) جب دونوں نے سر جھکا دیا، اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل گرایا،۞(3) اور ہم نے اُنھیں آواز دی کہ: اے ابراہیم! ۞ تم نے خواب سچ کر دکھایا۔۞ یقینًا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔۞ یقینًا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا،۞ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اُس بچے کو بچا لیا۔۞ (4) اور جو لوگ اُن کے بعد آئے اُن میں یہ روایت قائم کی۞ (کہ وہ یہ کہا کریں کہ:) سلام ہو ابراہیم پر!۔۞ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں،۞ یقینًا وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔۞‘‘
تفسیر:
1. اس سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔
2. یہ اگرچہ ایک خواب تھا، لیکن انبیاء کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا۔
3. باپ بیٹے دونوں نے تو اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں یہی ٹھان لی تھی کہ باپ بیٹے کو ذبح کرے گا، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا، تاکہ چھری پھیرتے وقت ان کی صورت دیکھ کر ارادے میں کوئی تزلزل نہ آجائے۔
4. چونکہ باپ بیٹے دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنے اختیار کا ہر کام کرچکے تھے، اس لیے امتحان پورا ہوگیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بجائے ایک مینڈھے پر چلی جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے وہاں بھیج دیا، اور حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ سلامت رہے۔
حضرات انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے جس کے مطابق عمل پیرا ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام محض اپنے خواب کی بنا پر اپنے صاحبزادے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوئے، جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ کی ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں ہے:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: «إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا» [يوسف: 4] قَالَ: كَانَتْ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ وَحْيًا. وَكَانَ أَحْسَنُ مَا حَضَرَنَا مِمَّا يُؤَوَّلُ عَلَيْهِ هَذَا الْحَدِيثُ: أَنَّ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ كَانَتْ مِمَّا يُوحِيهِ اللهُ إِيَّاهَا إِلَيْهِمْ، فَيُوحِي إِلَيْهِمْ فِي مَنَامَاتِهِمْ مَا شَاءَ أَنْ يُوحِيَ إِلَيْهِمْ فِيهَا، وَيُوحِي إِلَيْهِمْ فِي يَقَظَاتِهِمْ مَا شَاءَ أَنْ يُوحِيَهُ إِلَيْهِمْ فِيهَا، وَكُلُّ ذَلِكَ وَحْيٌ مِنْهُ إِلَيْهِمْ، يَجْعَلُ مِنْهُ مَا شَاءَ فِي مَنَامَاتِهِمْ، وَيَجْعَلُ مِنْهُ مَا شَاءَ فِي يَقَظَاتِهِم
جبکہ انبیاء کرام کے علاوہ کسی کا بھی خواب دلیل اور حجّت نہیں بن سکتا کہ اس کے مطابق عمل پیرا ہونا ضروری ہو، اور نہ ہی اس خواب کی بنا پر کوئی حکم لاگو ہوسکتا ہے۔
قربانی کا عمل ہر دین وملت میں موجود رہا ہے:
حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل وقابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ان واقعات سے واضح ہوجاتاہے کہ اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنا ایسی عظیم عبادت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر امتِ محمدیہ تک ہر دین وملّت میں موجود رہی ہے،جیسا کہ قرآن کریم سورت الحج آیت 34 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُواْ اسْمَ اللّٰهِ عَلىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِّنۢ بَهِيْمَةِ الْأَنْعٰمِ.
ترجمہ:
’’اور ہم نے ہر امت کے لیےقربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں۔‘‘
اس سے یہ حقیقت تو سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے کا عمل ہر امت کے لیے مقرر کیا گیا البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے، انھی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امتِ محمدیہ علیٰ صَاحِبِہَا الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُکو عید الاضحیٰ کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد گار ہے۔