تاجروں کی دو قسمیں ہیں

تاجروں کی دو قسمیں ہیں

ایک حدیث میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

التاجر الصدوق الامين مع النبيين والصديقين والشهداء” (ترندی، كتاب البيوع، باب ماجاء فی التجارة”)

“یعنی ایک امانت دار اور سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا”
لیکن اگر تجارت کے اندر نیت صحیح نہ ہو اور حلال و حرام کی فکر نہ ہو تو پھر ایسے تاجر کے بارے میں پہلی حدیث کے برخلاف دوسری حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

التجار يحشرون يوم القيامة فجارا الامن اتقي وبروصدق

یعنی تجار قیامت کے دن فجار بتا کر اٹھائے جائیں گے۔ ”فجار ” کے معنی ہیں: فاسق و فاجر، نافرمان، گناه گار، سوائے اس تاجر کے جو تقوی اختیار کرے، نیکی اختیار کرے، اور سچائی اختیار کرے۔ اگر یہ تین شرطیں موجود نہیں ہیں تو وہ تاجر فجار میں شامل ہے۔ اور اگر یہ تین شرطیں موجود ہیں تو پھر وہ اغیاء اور صدیقین اور شہداء کی صف میں شامل ہے۔ ایسے تاجر کو اللہ تعالٰی نے یہ مقام بخشا ہے۔ بہر حال، پہلا مرحلہ نیت کی درستی ے۔ اور دوسرا مرحلہ عمل کے اندر حلال و حرام کا امتیاز ہے۔ یہ نہ ہو کہ مسجد کی حد تک تو وہ مسلمان ہے، لیکن مسجد سے باہر نکلنے کے بعد اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہ ہو کہ میں جو کاروبار کرنے جارہا ہوں وہ اللہ تعالی کے احکام کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس دوسرے مرحلے پر مسلمان اور غیر مسلم میں کوئی امتیاز نہیں۔ ایک غیر مسلم سودی کاروبار کر رہا ہے تو مسلمان بھی سودی کاروبار کر رہا ہے، غیر مسلم قمار کا کام کر رہا ہے تو مسلمان بھی کر رہا ہے، اگر کسی مسلمان تاجر کے اندر یہ بات ہے تو پھر ایسا تاجر اس وعید کے اندر داخل ہےجو دوسری حدیث میں اوپر عرض کی۔ اور اگر یہ بات نہیں تو پھر وہ تاجر پہلی حدیث میں بیان کی گئی بشارت کا مستحق ہے۔

قارون کو چار ہدایات

چنانچہ ارشاد فرمایا:

وابتع فيما اتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا واحسن كما احسن الله اليك ولا تبغ الفساد في الارض”

یہ چار جملے ہیں۔ پہلے جملے میں فرمایا کہ جو کچھ اللہ تبارک و تعالی نے تم کو (دولت) عطا فرمائی ہے اس کے ذریعہ آخرت کی فلاح و بہبود کو طلب کرو۔ دوسرے جعلے میں فرمایا کہ (یہ نہ ہو کہ آخرت کی فلاح طلب کرنے کے لئے ساری دولت لگا دو اور دنیا میں اپنے پاس دولت بالکل نہ رکھو بلکہ) دنیا کا جو حصہ اللہ تعالی نے تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے اس کو مت بھولو (اس کو اپنے پاس رکھو، اس کا حق ادا کرو) تیسرے جملے میں ارشاد فرمایا کہ جیسے اللہ تعالٰی نے تم پر (یہ دولت عطا کر کے) احسان کیا ہے، اسی طرح تم بھی دوسروں کے ساتھ احسان اور اچھائی کا معاملہ کرو۔ چوتھے جملے میں ارشاد فرمایا کہ اپنی اس دولت کے بل بوتے پر زمین میں فسادمت مچاؤ۔ اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش مت کرو) اس آیت میں یہ چار ہدایات قارون کو دیں۔ لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو یہ چار ہدایات ایک تاجر کے لئے، ایک صنعت کار کے لئے اور ایک ایسے مسلمان کے لئے جس کو اللہ تعالٰی نے اس دنیا کے اندر کچھ بھی عطا فرمایا ہو، ایک پورا نظام عمل پیش کر رہی ہیں۔

پہلی ہدایت

سب سے پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ تم میں اور ایک غیر مسلم میں فرق یہ ہے کہ غیر مسلم جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا، اس کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ دولت مجھے حاصل ہے، یہ سب میری قوت بازو کا کرشمہ ہے، میں نے اپنی محنت سے حاصل کی ہے جبکہ ایک مسلمان اس مال کو اللہ کی عطا سمجھتا ہے.

دوسری ہدایت

اب دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ اسلام نے ہماری تجارت کا راستہ بھی بند کر دیا اور یہ فرمادیا کہ بس آخرت ہی کو دیکھو، دنیا کو مت دیکھو، اور دنیا کے اندر اپنی ضروریات کا خیال نہ کرو۔ اس خیال کی تردید کے لئے قرآن کریم نے فوراً دوسرے جملے میں دوسری ہدایت یہ فرمائی کہ :

ولا تنس نصيبك من الدنيا

یعنی ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ تم دنیا کو بالکل چھوڑ کر بیٹھ جاؤ، بلکہ تمہارا دنیا کا جو حصہ ہے اس کو مت بھولو، اس کے لئے جائز اور حلال طریقے اختیار کرنے کی کوشش کرو۔

تیسری ہدایت

پھر تیسرے جملے میں یہ ہدایت دی کہ :

واحسن كما احسن الله اليك

یعنی جس طرح اللہ تعالٰی نے تمہیں یہ دولت عطا کر کے تم پر احسان کیا ہے، تم بھی دوسروں پر احسان کرو۔ اس آیت میں ایک طرف تو یہ بتا دیا کہ حلال و حرام میں فرق کرو، اور حرام کے ذریعہ مال حاصل نہ کرو۔ اور دوسری طرف یہ بھی بتا دیا کہ جو چیز حلال طریقے سے حاصل کی ہے، اس کے بارے میں بھی یہ مت سمجھو کہ میں اس کا بلا شرکت غیر مالک ہوں۔ بلکہ اس کے ذریعہ تم دوسروں پر احسان کا معاملہ کرو۔ اور احسان کرنے کے لئے زکوۃ اور صدقات و خیرات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

چوتھی ہدایت

چوتھے جملے میں یہ ہدایت دی کہ :

ولا تبع الفساد في الارض

زمین میں فساد مت پھیلاؤ، یعنی دولت کے بل بوتے پر دوسروں کے حقوق پر ڈا کہ مت ڈالو۔ دوسروں کے حقوق غصب مت کرو۔ اگر تم نے ان چار ہدایات پر عمل کر لیا تو تمہاری یہ دولت، تمہارا یہ سرمایہ اور تمہاری یہ معاشی سرگرمیاں تمہارے لئے مبارک ہیں۔ اور تم انبیاء، صدیقین، اور شہداء کی فہرست میں شامل ہو۔ اور اگر تم نے ان ہدایات پر عمل نہ کیا تو پھر تمہاری ساری معاشی سرگرمیاں بیکار ہیں۔ اور آخرت میں اس کا نتیجہ سزا اور عذاب کی صورت میں سامنے آجائے گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں