اسلام میں علاج کی حیثیت

اسلام میں علاج کی حیثیت

اسلام میں علاج کی حیثیت

تکلیف وضرر دور کرنے والے اسباب جو عموما اختیار کیے جاتے ہیں، تین قسم کے ہیں۔

قطعی اور یقینی اسباب

جیسے پیاس کی تکلیف دور کرنے کے لیے پانی، اور بھوک کی تکلیف دور کرنے کے لیے روٹی ، اور سردی کے اثرات دور کرنے کے لیے گرم کپڑے وغیرہ ، ایسے اسباب کو اختیار کرنا بالکل جائز ہے، اور انہیں ترک کرنا تو کل میں شمار نہیں ہوتا اگر ان اسباب کو استعمال نہ کرنے کی صورت میں مر جانے کا خوف ہو تو اس قسم کے اسباب کو ترک کرنا حرام اور نا جائز ہے۔

ظنی اسباب

مثلاً طب میں علاج معالجہ کے لیے اختیار کیے جانے والے ظاہری اسباب اور دوائیں ، کہ ظن غالب ہوتا ہے کہ ان کے استعمال سے شفاء حاصل ہوگی۔ یہی حکم اس دوا اور تعویذ کا ہے جو کلام الہی یا اللہ تعالیٰ کے نام پر مشتمل ہو اور شرک سے خالی ہو۔ ان کو اختیار کرنا تو کل کے منافی نہیں۔ لیکن ان کو ترک کرنا ممنوع بھی نہیں ہے بلکہ بعض لوگوں کے حق میں بعض حالات میں ان اسباب کا ترک کرنا افضل ہوتا ہے۔

وہمی اسباب

مثلا مختلف قسم کے کڑے، ملکے اور پتھر وغیرہ پہننا باندھنا جن سے شفا حاصل ہونے کا ظن غالب نہیں ہوتا بلکہ موہوم ہیں امید ہوتی ہے کہ شاید شفا حاصل ہو جائے. توکل حاصل کرنے کے لیے ان اسباب کا ترک کرنا شرط ہے۔ کسی شخص کو کوئی بیماری لاحق ہوئی اور اس نے اس کا علاج نہیں کیا یہاں تک کہ مرگیا تو وہ گناہگار نہ ہوگا. جب یہ اعتقاد ہو کہ شفاء دینے والے اللہ تعالی ہیں اور انہوں نے دوا کو سبب بنایا ہے تو علاج معالجہ میں مشغول ہونے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ اعتقاد ہو کہ خود دواہی شفا دینے والی ہے تو یہ اعتقاد بھی غلط ہے اور اس کے تحت علاج کرنا بھی نا جائز ہے۔
اگر کوئی مرض اور زخم ایسا ہو کہ جس سے بالکل شفایاب نہ ہوتا ہو تو اس کے لیے دوا استعمال نہ کرنے ، بلکہ علاج ترک کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح کبھی دماغ کی شریان پھٹنے وغیرہ سے مریض پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے، کبھی تو مریض شفایاب ہو جاتا ہے اور کبھی بے ہوشی طویل ہو جاتی ہے اور طبی تحقیق کے مطابق صحت یاب ہونے کا امکان بالکل نہیں ہوتا ۔ ایسی صورت میں بھی علاج ترک کر دینے کی اجازت ہے۔ کسی حرام چیز کو بطور دوا صرف اسی صورت میں بقدر ضرورت استعمال کرنے کی گنجائش ہے جب کوئی ماہر وحاذق مسلمان پرهیزگار طبیب بتائے کہ بیماری کا علاج صرف اسی حرام چیز سے ممکن ہے اور متبادل حلال کوئی دوسری دوا موجود نہیں۔

علاج و معالجہ سے متعلق ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم

حجامہ لگوانا اور شہد پینا

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” الشَّفَاءُ فِي ثَلَاثَةِ : فِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ، أَوْ كَيَّةٍ بِنَارٍ، وَأَنَا أَنَّهَى أُمَّتِي عَنِ الكي. [صحيح البخاري، الرقم : ٥٦٨١)

ترجمہ: شفاء تین چیزوں میں ہے پچھنا لگوانے میں شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَيْتُمُ بِهِ الْحِجَامَةُ. (صحيح البخاري، الرقم : ٥٦٩٦)

ترجمہ: خون کے دباؤ کا بہترین علاج جو تم کرتے ہو وہ پچھنا لگوانا ہے۔

کلونجی کا استعمال کرنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فِي الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ ، إِلَّا السَّامَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، وَالسَّامُ الْمَوْتُ، وَالْحَبَّةُ السَّوْدَاءُ: الشونيز . (صحيح البخاري، الرقم: ٥٦٨٨)

ترجمه: کہ سیاہ دانوں میں ہر بیماری سے شفاء ہے سوائے ”سام کے۔ ابن شہاب نے کہا کہ سام موت ہے اور سیاہ دانہ کلونجی کو کہتے ہیں۔

صدقہ کرنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

“بَادرُوا بِالصَّدَقَةِ فَإِنَّ الْبَلَاءَ لَا يَخْطَاهَا. (المعجم الأوسط، الرقم: (٥٦٣٩)

ترجمہ: صبح سویرے صدقہ نکالا کرو کیونکہ بلائیں اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکتیں۔

اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

” الصَّدَقَةُ تَمْنَعُ سَبْعِينَ نَوْعًا مِنْ انواعِ الْبَلَاءِ، أَهْوَنُهَا الْجُذَامُ وَالْبَرَصُ،( تاريخ بغداد، الرقم : ٤٣٢٦)

ترجمہ: صدقہ ستر بلاؤں کو روکتا ہے جن میں سے سب سے چھوٹی بلا کوڑھ اور برص ہے۔

صلوۃ الحاجت ادا کرنا

ضرورت کے پیش آنے پر دو رکعت صلوۃ الحاجت پڑھنا مسنون عمل ہے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں

كَانَ النبي إِذَا حَزَ هُ أَمرٌ صَلَّى (سنن ) أبي داؤد، الرقم : (۱۳۱۹)

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ نماز پڑھتے ۔ حضرت یوسف بن عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے علم سیکھنے کے لیے حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی صحبت اختیار کی ، پھر جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا :

آذن النَّاسَ بِمَوْتِي، فَآذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِهِ، فَجِئْتُ وَقَدْ مُلِءَ الدَّارُ وَمَا سِوَاهُ، قَالَ: فَقُلْت : قَدْ آذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِكَ، وَقَدْ مُلِءَ الدَّارُ، وَمَا سِوَاهُ قَالَ: أَخْرِجُونِي فَأَخْرَجْنَاهُ قَالَ : أَجْلِسُونِي قَالَ: فَأَجْلَسُنَاهُ، قَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُول : مَنْ تَوَضَّأَ ، فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ يُتِمُّهُمَا ، أَعْطَاهُ اللهُ مَا سَأَلَ مُعَجِّلًا، أَوْ مُؤَخِّرًا. (مسند أحمد، الرقم : ٢٧٤٩٧)

ترجمہ: کہ لوگوں کو میری موت کی خبر دو، چنانچہ میں نے لوگوں کو جا کر بتایا کہ حضرت مرض الموت میں ہیں، پھر میں واپس آیا تو گھر لوگوں سے بھر چکا تھا، تو میں نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ گھر لوگوں سے بھر چکا ہے، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے باہر لے جاؤ، تو ہم آپ کو باہر لے آئے، پھر آپ نے فرمایا: مجھے بٹھاؤ ، تو ہم نے آپ کو بٹھا دیا ، تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر دور کعتیں خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھیں تو اللہ تعالی اس کے سوال کو جلدی یا دیر سے ضرور پورا کرے گا۔

اپنے لیے دعا کرنا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَمَا سُئِلَ اللهُ شَيْئًا يَعْنِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ العَافِيَةَ

ترجمہ: تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا تو اُس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے ، اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس سے عافیت کا سوال کیا جائے ، اور رسول اللہ علیم اللہ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدُّعَاءَ يَنفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنزِلُ، فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ . (سنن الترمذي، الرقم : ٣٥٤٨)

ترجمه: دعا کار آمد اور نفع مند ہوتی ہے ان حوادث میں بھی جو نازل ہو چکے ہوں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے ، پس اے خدا کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جن پر ایک مسلمان عمل پیرا ہو کر دنیا وآخرت کی راحت پا سکتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں