آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد

آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد

آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد

لقد مَنَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ (164)

ترجمہ: اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جو ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا (وہ) ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور دانش سکھاتا ہے، اگر چہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔ ( آل عمران : 164) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے معلم اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے

آمد مصطفی کا پہلا مقصد

اللہ رب العزت نے وہ چار مقاصد خود سورہ آل عمران کی آیت نمبر ایک سو چونسٹھ میں بتائے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے کہ اُن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا

(۱) يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِه

تا کہ وہ اللہ کی آیات کی تلاوت فرمائے ۔ اللہ رب العزت نے یہاں پہلا مقصد بیان فرمایا ہے عمل ۔ صرف قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور اس کو پڑھنا یہ آمد مصطفی کا مقصد ہے۔ اب قیامت تک اللہ کا کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے یہ امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ ان چاروں مقاصد کو قیامت تک پورا کرتی رہے۔ یہ تلاوت کلام پاک کرنا کیوں ضروری ہے ممکن ہے بعض لوگ معاشرے کے اندر ایسے ملیں گے اور وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ صرف قرآن مجید پڑھنے سے کیا ملتا ہے بڑے بڑے قابل لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ اپنے بچے کو قرآن پاک پڑھاتے ہیں اس سے کیا ملے گا۔ آپ زیادہ فتوے نہ لگا ئیں بس مختصر سا عرض کر دیں کہ جناب آپ روزانہ قرآن مجید کی تھوڑی سی تلاوت کر لیا کریں اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ یہ جو انسان کا دل ہے اس کو کبھی کبھی زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو پانی سے زنگ لگ جاتا ہے۔ صحا بہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اس زنگ کو کیسے صاف کریں تو آپ نے فرمایا قرآن مجید کی تلاوت اور موت کو زیادہ یاد کر کے اس زنگ کو دور کیا جاسکتا ہے بندہ جب قرآن مجید کی تلاوت کرے گا تو اس کے دل کا زنگ صاف ہو گا۔
جو لوگ سوال کرتے ہیں کہ نیک عمل کرنے سے کیا ملتا ہے، نماز پڑھنے سے کیا ملتا ہے، روزہ رکھنے سے کیا ملتا ہے یہ دل کا وہ زنگ ہوتا ہے جو منہ سے الفاظ کی صورت میں نکل رہا ہوتا ہے۔ اور آپ نے فرمایا کہ جب دل کا زنگ صاف ہو جائے گا تو دل چمک اٹھے گا۔ پھر اس کے منہ سے یہ نہیں نکلے گا کہ نماز پڑھنے سے کیا ملتا ہے، قرآن پڑھنے سے کیا ملتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن حکیم کی تلاوت کرنے کا ثواب بھی بتایا ہے کہ انسان جب اس کا ایک لفظ پڑھتا ہے تو اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ ترجمہ پڑھے بغیر بھی ثواب ملتا ہے تو اس کا جواب ہے پھر بھی ثواب ملتا ہے اسلیے کہ آپ نے ہمیں یہ سمجھایا کہ انسان ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیاں ملتی ہیں اس کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دی اگر کوئی الم پڑھتا ہے تو ایسی صورت میں اس کو تیس نیکیاں ملتی ہیں کیوں کہ الم تینوں الگ الگ حروف ہیں اس لیے تیس نیکیاں ملیں گی۔ کیوں کہ الم کا ترجمہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ یہ انسان الم پڑھے تو اس کو تیس نیکیاں بھی ملیں گی اور آمد مصطفی انہی ایام کا مقصد بھی پورا ہوگا ۔

آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا مقصد

يزكيهِمْ

(انہیں پاک صاف بنائے ) اللہ تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا کہ آپ لوگوں کے نفوس کو پاکیزہ بنائیں اور پاکیزہ کیسے کہ ان کے اندر جو برائیاں ہیں ، جو عیب ہیں جو برے اخلاق ہیں جو بری سوچیں ہیں ، جو برے جذبات ہیں ان کو نکال کر اچھے اخلاق، اچھے جذبات اور اچھی سوچیں ان کے اندر داخل کر دیں۔ ان کے اندر سے نفرتوں کو نکالیں ، ان کے اندر دشمنی اور کینہ کو نکالیں، ان کے اندر سے جھوٹ کو نکالیں ، ان کے اندر سے بدیانتی کو نکالیں، ان کے اندر سے خیانت کو نکالیں، ان کے اندر سے مال کی محبت کو نکالیں ان کے اندر سے بے حسی کو نکالے، ان کے اندر سچ پیدا کریں، ان کے اندر امانت پیدا کریں ، ان کے اندر دیانت، القوی ، ذکر، شکر صفر، عفوو درگزر پیدا کریں اور آپ نے اپنی آمد کا یہ مقصد اس معاشرے میں سو فیصد پورا کر کے دکھایا۔ وہ معاشرہ جو گندگیوں سے بھرا ہوا تھا اس معاشرے سے ساری گندگیاں نکال کر جن انسانوں کو بنایا ان انسانوں کو آج ہم صحابہ کہتے ہیں ایسے انسان بنائے کہ اللہ ایک ایک صحابی سے راضی ہو گیا۔

آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا مقصد

: وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ

اللہ نے اس لیے رسول اللہ کو بھیجا تا کہ آپ لوگوں کو کتاب اللہ سکھا ئیں صرف ترجمہ نہیں ، صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن مجید پڑھتے تھے اور قرآن چونکہ عربی میں ہے اس لیے وہ عربی کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے یہ تو امت کو معلوم ہے کہ بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایک ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے ۔ اب نمازیں کتنی ہیں اور کب پڑھنی ہیں آپ نے کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہوئے دین کے پانچ شعبےسکھائے ہیں۔ جبکہ آج کے دور میں لوگ ایک دو شعبوں کو سنبھال کر باقی شعبوں سے غافل ہو رہے ہیں اور وہ پانچ شعبے یہ ہیں ۔

 ایمانیات کا شعبہ
 پانچویںعبادات کا شعبہ
 معاملات کا شعبہ
معاشرت کا شعبہ
 اخلاق کا شعبہ

اب لوگ یا تو نمازیں پڑھ لیتے ہیں اور معاملات اور معاشرت کا سرے سے تعلق ہی نہیں ہے آمد مصطفی ہمارے گھروں کے لیے بھی ہوئی تھی ہمارے کاروبار کے لیے بھی ہوئی تھی یہاں اس بات پر بھی زور ہے کہ اخلاق بہت اچھے ہونے چاہئیں، نمازوں کو چھوڑ کر اخلاقیات پر زور دیا جا رہا ہے ۔

آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چوتھا مقصد

وَالْحِكْمَةَ

اور اللہ تعالیٰ نے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تا کہ آپ لوگوں کو دانائی سکھائیں یہ دانائی کیا ہوتی ہے تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں حکمت سے مراد دانائی ہے اور دانائی سے مراد یہاں یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ہے کہ ہم نے جس چیز کو حلال قرار دیا ہے یہ انسان اس کو حلال سمجھے اور جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو یہ حرام سمجھے تو یہ شخص معاشرے کا سمجھدار انسان ہے۔ اور جو ایسا نہیں کرتا وہ اللہ کے نزدیک حکمت والا انسان نہیں ہے سمجھ دار انسان وہ ہے جو حلال کو حلال سمجھے اور حرام کو حرام سمجھے اور اگر وہ معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے حلال وحرام کی تمیز نہیں کر رہا تو وہ اپنے آپ کو سمجھ دار انسان نہ سمجھے ایسا شخص حکمت سے خالی ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت آمد مصطفی کی نعمت ہے اللہ رب العزت ہم میں سے ہر ایک کو یہ چاروں مقاصد پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں