حب دنیا

حب دنیا

حب دنیا

آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، ان سب فتنوں میں سے ایک بنیادی اور بڑا فتنہ دنیا کی محبت ہے۔ دنیا سے مراد عام ہے دولت وثروت ہو، جاہ و منزلت ہو، شہوت ولذائذ ہوں، راحت و آسائش ہو، بود و باش ہو، غرض معاشرت و معیشت کا کوئی بھی شعبہ ہو، غیر شعوری طور پر اس کی رغبت ہوتی ہے، اس کے لئے محنت کی جاتی ہے، ان چیزوں کو قرآن وحدیث میں متاع دنیا کہا گیا ہے اور جب حب دنیا کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے حصول کے لئے عام ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں حلال ہوں یا حرام ہوں اور جب یہ حالت ترقی کر جاتی ہے تو پھر اس کے حصول کے لئے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔ بے حیائی، بے رحمی، نا انصافی سب آجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ طبعت مسخ ہوجاتی ہے اور حقائق معکوس ہو جاتے ہیں۔ صحیح کو غلط سمجھنے لگتا ہے اور غلط کو صحیح حق کو باطل اور باطل کو حق اور پھر حق تعالیٰ کا ارشاد صادق آجاتا ہے ۔

” فانها لا تعمى الأبصار ولكن تعمى القلوب التي في الصدور

یعنی سر کی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، اس لئے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ارشاد ہے کہ

حب الدنيا رأس كل خطيئة

یعنی دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے، بہر حال جب دنیا کافتنہ اتنا عالمگیر ہو گیا ہے کہ ہر شخص پر کچھ نہ کچھ اثر اس کا پڑتا ہے، الا ماشاء اللہ پھر نفس کی ان خواہشات کو شیطان لعین ہوا دیتا ہے، اس کی اہمیت و معقولیت طبیعت میں راسخ کرتا ہے۔

وزين لهم الشيطان اعمالهم

کہ شیطان ان کے کاموں کو ان کے لئے خوبصورت آراستہ کرتا ہے اور پھر اس کے لئے شراب نوشی، بدکاری، بے حیائی، عریانی و فحاشی میں انتہائی جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون رحمة اللعالمین حضرت آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہولناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرمادی تھی، چنانچہ ارشاد فرمایا: ” بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعا نہیں، بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے گی، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی پھر تم پہلوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو گے، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا تمہیں بھی برباد کر ڈالے ۔ ( بخاری )
لیجئے یہ تھا وہ نقطہ آغاز جس سے انسانیت کا بگاڑ شروع ہوا یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے لئے ایک جامع نسخہ شفاء بھی تجویز فرمایا جس کا ایک جزء اعتقادی ہے اور دوسرا عملی ۔
اعتقادی جزیہ کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں،یہاں کا آرام و آسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف و مشقت بھی ختم ہونے والی ہے، یہاں کے لذائذ و شہوات آخرت کی بیش بہا نعمتوں اور ابد الآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور هيچ ہیں۔ قرآن کریم اس اعتقاد کے لئے سرا پا دعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سورۃ الاعلیٰ میں نہایت بلیغ ،مختصر اور جامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا۔

بل توثرون الحيوة الدنيا والآخرة خير وابقى

کان کھول کر سن لو کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے، بلکہ دنیا کی زندگی کو اس پر ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت دنیا سے بدرجہا بہتر اور لازم ہے۔
اور عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے اور بطور پر ہیز کے حرام اور مشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کر ان سے پر ہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ و شہوات میں انتہماک سے کنارہ کشی کی جائے، دنیا کا مال و اسباب، زن و فرزند، خویش واقرباء اور قبیلہ و برادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدر ضرورت ہی اختیار کئے جائیں۔ ان میں سے کسی چیز کوبھی دنیا میں عیش و عشرت اور لذت و مسلم کی زندگی گزارنے کے لئے اختیار نہ کیا جائے ۔ نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد اور موضوع بنایا جائے ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

اياك والتنعم، فإن عباد الله ليسوا بالمتنعمين

عیش و علم سے پر ہیز کرو، کیونکہ اللہ کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔
تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ، گھی ، گوشت، پاول وغیرہ کا استمال مضر ہے تو اس کےمشورے اور اشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں۔ لیکن خاتم النبین صلى الله عليه وسلم کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ان سے ادنی لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں نبی کریم صلى الله عليه وسلم اپنی اور آپ کی آل و اصحاب کی زندگی اور معیار زندگی کو اول سے آخر تک دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسر جنون ہے۔
صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا۔ جن کے سامنے بھنا ہوا گوشت رکھا تھا۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو کھانے کی دعوت دی۔ آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا که محمد صلى الله عليه وسلم ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی مہینوں پر مہینے گزر جاتے مگر کا شانہ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا نہ دن کو چولہا گرم ہوتا ، پانی اور کھجور پرگزر بسر ہوتی وہ بھی کبھی میسر آئیں کبھی نہیں۔ تین تین دن کا فاقہ ہوتا، کمر سیدھی رکھنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے اور اسی حالت میں جہاد و قتال کے مصر کے ہوتے ۔ الغرض زہد وقناعت، فقر وفاقہ بلند ہمتی و جفاکشی اور دنیا کی آسائشوں سے بے رغبتی اور نفرت و بیزاری سیرت طیبہ کا طغرائے امتیاز تھی۔
ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی تاکہ آئندہ نسلوں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے ورنہ آپ صلى الله عليه وسلم چاہتے تو آپ صلى الله عليه وسلم کو منجانب اللہ کیا کچھ نہ دیا جا سکتا ؟ مگر دنیا کا یہ ساز و سامان جس کے لئے ہم مرکھپ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر و ذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو اس سے آلود ہ نہیں کرنا چاہتا بعض انبیا علیہم السلام کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی مگر ان کے زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی و بیزاری میں فرق نہیں آیا ، ان کے پاس جو کچھ تھا وہ دوسروں کے لئے تھا، اپنے نفس کے لئے کچھ نہ تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یکسر دنیا کو چھوڑ کر رہبانیت اختیار کی جائے ، ہرگز نہیں، تجارت ، زراعت ، کسب حلال، حصول نفقہ اور صحیح معاشرہ کے تمام وسائل یہ سب کچھ معین دین ہے۔ ان چیزوں کا مقصد اگر صحیح ہے تو یہ سب چیزیں دنیا نہیں بلکہ آخرت کی ہیں اور باعث اجر و ثواب ہیں، شریعت ان چیزوں پر پابندی نہیں لگانا چاہتی ہے بلکہ ان کا رخ صبح کرنا چاہتی ہے، مقصد کی اصلاح کرنا چاہتی ہے، اس طرح تمام دنیا آخرت کی زندگی بن سکتی ہے۔ اگر تمام زندگی عبادت میں گزار دے اور تمام اوقات درس و تدریس میں یا وعظ و تبلیغ میں گزارے لیکن مقصد جاہ ومنزلت ہو یا حصول مال و دولت ہو تو یہ ساری چیزیں دنیا بن جاتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہماری اس فتنے حب دنیا سے حفاظت فرمائیں۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں