نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات

جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے ، البتہ اکثر مورخین نے آپ کی وفات بارہ ربیع الاول ذکر کی ہے۔

وفات النبی صلی للہ علیہ وسلم کی حقیقت

اللہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:

إِنَّكَ مَيْت وَإِنَّهُمْ مَیتونَ (الزمر: 30)

(اے نبی) انہیں بھی مرنا ہے اور آپ کو بھی مرنا ہے ۔ صاحب تفسیر احسن البیان مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت سے وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات ہوتا ہے اس لئے نبی کی وفات کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو برزخ میں بالکل اسی طرح زندگی حاصل ہے، جس طرح دنیا میں حاصل تھی ، قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ بلکہ آپ پر بھی دیگر انسانوں ہی کی طرح موت طاری ہوئی، اس لئے آپ کو دفن کیا گیا، قبر میں آپ کو تو برزخی زندگی یقینا حاصل ہے جس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں لیکن دوبارہ قبر میں آپ کو دنیوی زندگی عطا نہیں کی گئی۔ (تفسير احسن البيان ص : 1085)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الوداعی آثار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل ہی کچھ ایسے آثار واضح ہو چکے تھے، جن سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ داعی اجل کو لبیک کہنے والے ہیں۔ چند ایک الوداعی آثار ذکر کرتے ہیں:

سورة النصر کا نزول

رب العالمین نے وفات کی اشارۃ اطلاع دینے کے لیے یہ سورہ مبا کہ نازل فرمائی:

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفتح ورَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبَحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ( النصر : 1 / 3)

” جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے ۔ اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں ۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقیناوہ ہمیشہ سے بہت تو بہ قبول کرنے والا ہے۔“

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے الوداعی گفتگو

سیدنا معاذ بن جبل رض سے مروی ہے کہ (دس ہجری کو ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان کو وصیتیں کرتے ہوئے گئے ، سیدنا معاذ سوار تھے اور رسول اللہ سلیم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے جارہے تھے، آپ نے اپنی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا:

يَا مُعَاذُ إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا وَلَعَلَّكَ أَنَّ ثَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا، وَقَبْرِي فَبَكَى مُعَاذُ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. صحيح البخاری : 4970

معاذ! ممکن ہے کہ اس سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہوسکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ بھی رو پڑے۔

بیس روز کا اعتکاف

آپ رمضان میں ہمیشہ 10 دنوں کا اعتکاف کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی تو آپ نے 20 روز کا اعتکاف فرمایا۔ ویسے آپ سال میں ایک بار سیدنا جبریل علیہ سے قرآن مجید کا دور فرما یا کرتے تھے مگر جس سال آپ کی وفات ہوئی تو آپ نے سال میں دو بار دور فرمایا۔

خطبہ حجۃ الوداع کی الوداعی باتیں

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے چند باتیں اور چند ایسے اعمال کیے، جن سے آپ کے اس دنیا کو چھوڑنے کی طرف اشارہ ملتا ہے: سیدنا جابر بھی وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ قربانی کے دن اپنی سواری پر ( سوار ہو کر) کنکریاں مار رہے تھے اور فرمارہے تھے: لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحجُ بَعْدَ حَجَتِي هَذِهِ تمھیں چاہیے کہ تم اپنے حج کے طریقے سکھ لو، میں نہیں جانتا شاید اس حج کے بعد میں (دوبارہ)حج نہ کر سکوں ۔ صحیح مسلم: 1297

مزید حجتہ الوداع کے موقع پر ہی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ

اے لوگو میں ایک بشر ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آ جائے تو میں اپنے رب کے پاس چلا جاؤں۔صحیح مسلم : 2408

نبی کے ذمہ دین کی تبلیغ ہوتی ہے اور جب تبلیغ دین کا کام مکمل ہوجائے تو وہ اس دنیا سے چل بستا ہے۔ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ پر دین مکمل ہو گیا تھا اور سارے کا سارا دین آپ نے لوگوں تک پہنچادیا تھا، اسی لیے تو آپ نے رب العالمین سے کام مکمل کرنے کے بعد پوچھا:

اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ

اے اللہ! کیا میں نے دین پہنچا دیا ؟ اے اللہ ! کیا میں نے دین پہنچا دیا؟صحیح البخاری : 1739، صحیح مسلم1679: خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ایک خاص کام یہ بھی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دین کی تبلیغ کی مزید ذمہ داری سامعین پے ڈال دی۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اب میرا کام ختم اور آپ کا کام شروع ہو گیا۔ چنانچہ آپ نے اس دین کی اشاعت کی ذمہ داری اہل علم کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے فرمایا:

فَلْيُبْلِعْ الشَّاهِدُ الغَائِبَ

جو موجود ہے وہ غائب تک ( میری دعوت ) پہنچا دے۔
صحيح البخاری : 1739

بیماری اور اس کی کیفیت

مرض کا آغاز
29 صفر 11 ہجری بروز سوموار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے ۔ واپسی پر راستے ہی میں دردسر شروع ہو گیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہو گئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت 13 یا 14 دن تھی۔ الرحيق المختوم : 624

مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چچا عباس رض کا بیان: علی رض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمار داری سے فارغ ہو کر باہر آئے۔ صحابہ رض نے آپ سے پوچھا: ابوالحسن! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ الحمد للہ اب آپ کو افاقہ ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رض نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کے کہا:

وَإِنِّي وَاللهِ لَأَرى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَوْفَ يُتَوَفَّى مِنْ وَجَعِهِ هَذَا، إِنِّي الأعْرِفُ وُجُوهٌ بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ الْمَوْتِ

اللہ کی قسم، مجھے تو ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض سے صحت نہیں پاسکیں گے۔ موت کے وقت بنو عبد المطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔صحیح البخاری: 4447

بیماری میں معوذتین پڑھ کر دم کرن

سیدہ عائشہ عنھا فرماتی ہیں

: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى تَفَثَ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ عَنْهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا اشْتَكَى وَجَعَهُ الَّذِي تُوَلِّي فِيهِ، طَفِقْتُ أَنْفِث عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ الَّتِي كَانَ يَنْفِثُ، وَأَمْسَحُ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ

رسول اللہ سلیم جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین ( سورۃ فلق اور سورۃ الناس ) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے ، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر پھیرا کرتی تھی۔صحیح البخاري: 1439

عائشہ رض کے گھر میں رہنے کی خواہش

سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران. صحیح البخاری: 4430

سیدہ عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی ۔ اس دوران آپ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ اس سوال سے آپ کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپ کا جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپ سیدہ عائشہ کے مکان میں منتقل ہو گئے ۔ منتقلی کے وقت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب کے کندھوں کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ اور پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ سیدہ عائشہ کے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیات مبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گزارا۔ صحیح البخاري: 442

وفات سے چار دن پہلے

جمعرات کو جب کہ آپ سخت تکلیف سے دو چار تھے
پھر اسی روز آپ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک اس بات کی وصیت کی کہ یہود و نصاری اور مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا۔ دوسرے اس بات کی وصیت کی کہ وفود کی اسی طرح نوازش کرنا جس طرح آپ کیا کرتے تھے۔ البتہ تیسری بات کو راوی بھول گیا۔ غالباً یہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وصیت تھی یا لشکر اسامہ کو نافذ کرنے کی وصیت تھی ۔ یا آپ کا یہ ارشاد تھا کہ نماز اور تمہارے زیر دست یعنی غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھنا۔ صحیح البخاری :

4429 لیکن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجد میں جانے کی طاقت نہ رہی۔ مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک ، یعنی وفات سے چار دن پہلے ( جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپ ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں سورۃ والمرسلات عرفا“ پڑھی۔
بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :

أصَلَّى النَّاسُ؟ قُلْنَا : لَا هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ ، قَالَ : ضَعُوا لِي مَاءً في المخضَبِ، قَالَتْ : فَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أصَلَّى النَّاسُ؟ قُلْنَا : لاَ هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ : ضَعُوا لِي مَاءً في المخضَبِ قَالَتْ : فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأَغْمي عَلَيْهِ : ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ : أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا : لا، هُمْ يَنتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ : ضَعُوا لِي مَاءً في المخضَبِ فَقعَدَ، فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ : أَصَلَّى النَّاسُ فَقُلْنَا : لا، فهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي المَسْجِدِ، يَنْتَظِرُونَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السلامُ لِصَلاةِ العِشَاءِ الآخِرَةِ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ – وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا – : يَا عُمَرُ صَلَّ بِالنَّاسِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ،

کیوں نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیمار ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کے رسول ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے لئے ٹب میں پانی رکھو۔ فرماتے ہیں: پس ہم نے کیا ۔ (یعنی ٹب میں پانی رکھ دیا آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنا چاہا تو بے ہوش ہو گئے۔ پھر ہوش میں آئے تو پوچھا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کی نہیں اللہ کے رسول ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: میرے لیے ٹب میں پانی رکھو۔ اندر بیٹھے اور غسل کیا، پھر اٹھنا چاہا تو بے ہوش ہو گئے ۔ پھر ہوش میں آئے تو دریافت فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں اللہ کے رسول ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں رکے ہوئے تھے ۔ آپ نے سید نا ابو بکر رض کو پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ قاصد نے ان کے پاس پہنچ کر پیغام دیا: یقینا رسول اللہ سلام آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ لوگوں کو نماز پڑھائیے ۔ سید نا ابو بکر رض نے کہا: وہ نرم دل شخص تھے ، اے عمر ! آپ لوگوں کونماز پڑھائیے ۔ سید نا عمر نے ان سے کہا : آپ اس کے زیادہ اہل ہیں۔ سوان دنوں میں سیدنا ابو بکررض نے نماز پڑھائی۔ صحیح البخاری: 687،
صحیح مسلم: 118 بالاخر نماز سید نا ابو بکر رض نے پڑھائی۔ چنانچہ ابو موسی رض سے روایت ہے کہ نبی کریم سال یا بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے فرمایا:

مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ

ابوبکر رض سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔

وفات سے تین دن پہلے

سیدنا جابر بن عبداللہ رض فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات سے تین روز پہلے فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے :

لَا يَمُوتن أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

تم میں سے کسی کو موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔ صحیح مسلم: 2877 مسند ابی داود الطیالسی: 1888ء

وفات سے ایک دن یا دودن پہلے

ہفتہ یا اتوار کو آپ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی ، چنانچہ دو آدمیوں عباس اور علی رض کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ چنانچہ عروہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے۔ اس وقت ابوبکر رض نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ نے اشارے سے انہیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا:

فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاةٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ پس

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر صدیق رض کے بازو میں بیٹھ گئے۔ صحیح البخاري: 683

حیات مبارکہ کا آخری دن

مسجد نبوی کا آخری دیدار : سیدنا انس رض فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایام بیماری میں ) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے ۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی۔ سوموار کی صبح فجر کی نماز کیلئے ابوبکر آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے ( حجرہ مبارک کا ) پردہ اٹھایا:

فَلَمَّا وَضَحَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا كَانَ أَعْجَبَ إِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَضَحَ لَنَا فَأَوْمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إلَى أَبي بَكْرٍ أَنْ يَتَقَدَّمَ، وَأَرْخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحِجَابَ، فَلَمْ يُقْدَرُ عَلَيْهِ حَتَّى مَاتَ

جب نبی کریم اللہ کا چہرہ مبارک دکھائی دیا۔ تو آپ کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے ابو بکر صدیق ان کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ نے پردہ گرا دیا اور اس کے بعد وفات تک کوئی آپ کو دیکھنے پر قادر نہ ہو سکا۔ صحیح البخاري: 681

لخت جگر فاطمہ سے سرگوشی

اسی روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی فاطمہ رض کو بلایا اور ان سے کوئی سرگوشی کی ، چنانچہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں

دَعَا فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فَسَارٌهَا فَبَكَتْ ثُمَّ سَارّهَا فَضَحِكَتْ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْت لِفَاطِمَةَ : مَا هَذَا الَّذِي سَارَّكِ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَيْتِ، ثُمَّن سارك فَضَحِكَتِ قَالَتْ : سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي بِمَوْتِهِ، فَبَكَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي، فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أولُ مَنْ يَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ فَضَحِتكْتُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو بلا تو ان سے سرگوشی کی تو وہ رونے لگی ۔ پھر ان سے سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ عائشہ کہتی ہیں میں نے فاطمہ سے پوچھا: وہ کونسی سرگوشی جو رسول اللہ نے فرمائی تو تم نے رونا شروع کر دیا، پھر آپ نے سرگوشی تو آپ نے ہنسنا شروع کر دیا ؟ فاطمہ فرماتی ہیں: آپ نے میرے ساتھ سرگوشی تو مجھے اپنی موت کے بارے میں خبر دی تو میں نے رونے لگی ۔ پھر آپ نے میرے سے سر گوشی کی تو مجھے خبر دی کہ میں آپ کے اہل میں سے پہلی ہوں گی جو آپ کو ملوں گی تو میں نے ہنسنے لگی۔ صحیح مسلم: 2450

تمام غلاموں کو آزاد فر مایا

اسی روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرما دیا۔ پاس میں چھ یا سات دینار تھے انہیں صدقہ کر دیا۔
طبقات ابن سعد 2 /237

سخت تکلیف اور فاطمہ رض کی بے قراری

اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس شدید کرب سے دو چار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہ بے ساختہ پکار اٹھیں:

وا كَرْبَ أَبَاهُ

ہائے ابا جان کی تکلیف ۔ آپ نے فرمایا:

لَيْسَ عَلَى أَبِيكِ كَرْبُ بَعْدَ اليَوْمِ

تمہارے اتنا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں۔صحیح بخاری : 1162

خیبر کے زہر کی تکلیف

آپ کی تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا جسے آپ سا کوخیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چنا نچہ آپ نے سیدہ عائشہ سے فرماتے تھے:

يَا عَائِشَةُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكلتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السَّم

اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھا لیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کر رہا ہوں۔ اس وقت مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اس زہر کے اثر سے میری رگ جاں کئی جارہی ہے۔ صحیح بخاری: 1428

شدید تکلیف اور یہود و نصاری پر لعنت

شدت تکلیف سے کبھی چہرے پر چادر ڈال دیتے اور کبھی ہٹا دیتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کھنچ کر بار بار اپنے چہرے پر ڈالتے تھے، پھر جب دم گھٹنے لگتا تو چہرے سے ہٹا دیتے۔ آپ اس شدت کے عالم میں فرماتے تھے:

لَعَنَ اللهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أُنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا

یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔ صحیح البخاري: 1330

لا الہ الا اللہ کا ورد :

تکلیف کے باعث آپ پانی میں دونوں ہاتھ ڈال کر چہرہ پونچھتے جاتے تھے۔ اور فرماتے جاتےتھے:

لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ

اللہ کے سوا کوئی معبود ( برحق ) نہیں۔ موت کے لیے سختیاں ہیں۔ صحیح البخاري: 4440

نماز اور غلاموں کے متعلق نصیحت

آپ ﷺ نے صحابہ کرام رض کو بھی وصیت فرمائی۔ چنا نچہ فرماتے ہیں:

الصَّلاةَ الصَّلَاةَ، اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ

نماز ، نماز ( کی حفاظت کرنا ) اور تمہارے زیر دست (یعنی لونڈی ، غلام کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔

آپ نے الفاظ کئی بارد ہرائے“۔ سنن ابی داود: 5156، قال الالبانی صحیح

مسواک کی خواہش

سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں ہوا یہ کہ اسی دوران عبد الرحمن بن ابی بکر ( ایک مرتبہ ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی رسول اللہ علیہ نے مسواک کی خواہش کی۔ میں نے عبدالرحمن سے مسواک لے کر اس کے

مَضَغْتُهُ فَأَعْطَيْتُهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَنَّ بِهِ وَهُوَ مُسْتَندٌ إِلَى صَدْرِي

پھر اسے چبا کر رسول اللہ سلیم کو دے دیا۔ نبی کریم صلی علیم نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ کیا یہ اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ صحیح البخاري: 890 پھر آپ نےوہ مسواک مجھے عنایت فرمائی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا، یا ( راوی نے یہ بیان کیا کہ ) مسواک آپ کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔

فَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمِ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَوَّلِ يَوْمِ مِنَ الْآخِرَةِ

اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ کے تھوک کو اس دن جمع کر دیا جو آپ کی دنیا کی زندگی کا سب سے آخری اور آخرت کی زندگی کا سب سے پہلا دن تھا۔

فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بے قراری

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر سیدہ فاطمہ رض نے فرمایا:

يَا أَبَتاهُ، أَجَابَ رَبَّا دَعَاهُ، يَا أَبَتاهُ، مَنْ جَنَّةُ الفِرْدَوْسِ، مَأْوَاهُ يَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرِيلَ

’ہائے ابا جان ! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان ! جن کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے۔ ہائے ابا جان! ہم جبریل عایلام کو آپ سال لیلی کے موت کی خبر دیتے ہیں۔“ صحیح البخاري: 4462

سید نا ابوبکررض کا قوم کو دلاسہ دیتے ہوئے نصیحت کرنا

سیدہ عائشہ رض فرماتی ہیں:

أن أَبا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ يُكَلِّمُ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، فَتَيَهُمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُغَتَّى بِثَوْبٍ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبْ عَلَيْهِ فَقَبْلَهُ وَبَكَى

( جب رسول اللہ سلیم کی وفات ہوئی تو ) ابوبکر صدیق اپنے گھر سے جو ‘اسخ ، میں تھا، گھوڑے پر تشریف لائے ، وہ گھوڑے سے اتر کر مسجد میں آگئے ، لوگوں سے انھوں نے کوئی بات نہ کی، بلکہ سید ھے عائشہ (یہ) کے ہاں چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قصد کیا، اس وقت آپ یمنی دھاری دار چادر سے ڈھانپے ہوئے تھے۔ انھوں نے آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹا یا ، پھر آپ پر جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر رو پڑے اور کہنے لگے ۔“ پھر فرمایا:

بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَاللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ، فَقَدْ منها

میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اے اللہ کے نبی ! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا، جو موت آپ پر لکھی گئی تھی ، وہ آپ فوت ہو چکے ۔“ صحیح البخاري 4457

ابو سلمہ کہتے ہیں، مجھے ابن عباس رض نے بتایا:

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ : اجْلِسَ يَا عُمَرُ، فَأَبَى عُمَرُ أن يجلس، فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَتَرَكُوا عُمر

ابو بکر میں پہلا نکلے عمر رض لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، توفرمایا: ” بیٹھ جاؤ۔ انھوں نے نہ مانا ، پھر فرمایا: ” بیٹھ جاؤ۔ وہ پھر بھی نہ مانے تو ابو بکر رض نے خطبہ پڑھا، اب لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور عمر ان کو چھوڑ دیا۔ ابو بکر رض نے فرمایا:

أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَي لا يموتُ، قَالَ اللهُ: (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى قَوْلِهِ الشَّاكِرِينَ)

اما بعد ! تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو بے شک اللہ زندہ ہے،کبھی فوت نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وما محمد الله رَسُول قَدْ خَلَتْ مِن قبلہ الرسل مکمل آیت تلاوت کی۔ ابن عباس رض فرماتے ہیں:

وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ هَذِهِ الآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ، فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ، فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا

اللہ کی قسم ! ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہاں تک کہ ابو بکر صدیق رض نے یہ آیت پڑھی تو لوگوں نے اسے ان سے لے لیا تو جسے سنو یہی آیت پڑھ رہا تھا۔“ صحیح البخاری:4452

تمام اہل مدینہ کی حالت

لَمَّا كَانَ اليَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كل شيء، فاذا كان اليوم الذي مات فيه أعلام مِنْهَا كُلَّ شَيْءٍ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( پہلے پہل مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہوگئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہو گئی ۔ سنن الترمذی: 3618، قال الألباني: صحیح

ام ایمن رضی اللہ عنھا کے تاثرات

قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: انطلق بنا إلى أم أيمن نزورها، كما كان رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم يَرُورُها فلذا انتهينا إليها بكت فقالا لها، ما يُبكيك ما عند الله خير لرسوله صلى الله عليه وسلم فقالت: ما أبكي أن لا أكون أمام أن ما عند الله خير السواء على الله عليه وسلم، ولكن أبي أن الوحي قد انقطع من الشباب فيمكننا على البكاء فعلا للكيان معها

کہ ابو بکر رض نے آپکی کی وفات کے بعد عمر رض سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے ۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول اللہ کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہتر ہے۔ ام ایمن رض نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ ام ایمن کی اس بات سے ابو بکر اور عمر رض کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔ صحیح مسلم: 6318

تدفین کے بعد عائشہ رضی اللہ عنھا کا بیان

جب آپ دفن کر دئے گئے تو عائشہ رض نے اس پر انس رض سے کہا:

يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّرَابَ

اے انس تمہارے دل رسول اللہ اللہ کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لیے کسی طرح آمادہ ہو گئے تھے۔۔ صحيح البخاري: 4462

اپنا تبصرہ بھیجیں