حسن اخلاق

حسن اخلاق

حسن اخلاق

حسن“ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں ”آخلاق“ جمع ہے ”خلق“ کی جس کا معنی ہے ”رویہہ برتاؤ عادت“یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن آخلاق کہا جاتا ہے۔امام غزالی عَلیْہ رَحمَہ اللہ الوَالی فرماتے ہیں:

”اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے افعال ادا ہوں تو اسے حسن اخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے افعال ادا ہوں تو اسے بدآخلاقی سے تعبیر کیاجاتا ہے میں حسن اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے اس میں کئی نیک اعمال شامل ہیں چند اعمال یہ ہیں:معافی کو اختیار کرناء بھلائی کا حکم دیناء برائی سے منع کرناءجاہلوں سے اعراض کرناء قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرناءمحروم کرنے والے کو عطا کرناءظلم کرنے والے کو معاف کردیناءخندہ پیشانی سے ملاقات کرناءکسی کو تکلیف نہ دینا:ئرم مزاجیء بردباریء غصے کے وقت خود پر قابو پالیناء غصہ پی جاناء عفو ودرگزر سے کام لیناء لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملناء مسلمان بھائی کے لیے مسکراناء مسلمانوں کی خیر خواہی کرناء لوگوں میں صلح کرواناء حقوق العباد کی ادائیگی کرناء مظلوم کی مدد کرناء ظالم کو اس کے ظلم سے روکناء دعائے مغفرت کرناء کسی کی پریشانی دور کرناء کمزوروں کی کفالت کرناء لاوارٹ بچوں کی کرناء چھوٹوں پر شفقت کرناء بڑوں کا احترام کرناء علماء کا ادب کرناء مسلمانوں کو کھانا کھلاناء مسلمانوں کو لباس پہناناء پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا ء مشقتوں کو برداشت کرناء حرام سے بچناء حلال حاصل کرناء اہل وعیال پر خرچ میں کشادگی کرنا۔ وغیرہ وغیرہ .. :
ضرتِ سیّدٰناابوزداء رَضِیٗ اللہ تعالٰی عَنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہہ راحت قلب وسینہ صَلی اللہ تعالی علیہ وَالہ وَسَلَم کافرمانِ باقرینہ ہے: ” قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حسنِ آخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہو گی بداخلاق شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں اُس سے دور بھاگتے ہیں؛ اُسے دُنیوی معاملات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور لوگوں کو بھی پریشان کرتا ہے بداخلاق شخص کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ بندہ بُرے آخلاق کے سبب جہنم کے نچلے طبقے میں”پہنچ سکتاہےە بدآخلاق شخص اپنے آپ کو دنیاوی مصیبت میں بھی مبتلا کرلیتا ہے بداخلاق شخص ٹوٹے ہوئۓ گھڑے کی طرح ہے جو قابل استعمال نہیں ہوتا جب بندے کے دل میں مسلمانوں کا احثر‌ام پید اہوگا تو خو د بخود أن کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے گاء اِحترام مسلم پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے بندہ خودٴسے تمام لوگوں کو اچھا جانے اپنے/آپ کو بڑا گنہگار سمجھے عاجزی واِنکساری اختیار کرے۔ یوں احترام مسلم پیدا:ہوگا اور حسن اخلاق کی دولت نصلیب ہوگی. ارشادِ ربانی ہے:تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اوراخلاق کامعاملہ کروء اس اخلاقی درس کو ہرگز نہ بھولو: ہر جگہ اورہروقت اسے یاد رکھو“۔ایک حدیث نبوی کے مطابق مومثوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہو اور سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہو نبی ول کا ارشاد گرامی ہے :کیا تمہیں میں اس شخص کے بارے میں نہ بتلاوں جو میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بروز قیامت میرے قریب تر ہوگا؟ صحابہ کرام” خاموش رہے تو آپ ول نے یہی بات تین بار دہرائی ‏ صحابٌ نے عرض کی اضرور بتلائے تو آپ نے فرمایا: “حْسَنْكُمْ هُلقَ”’ یعنی جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔

نبی كریم لالہ نے ارشاد فرمایا:

أَهْمَل الُوُمنین إِيمَانًا أَحْسَنُهْمْ خُْقَا الحدیث۔

سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے

حسن اخلاق کامل ترین مومن کی نشانی ہے: رسول اللہ ول نے فرمایا: ”مومنوں میں ایمانی اعتبار سے اکمل وہ ہیں جن کا اخلاق اچھا ہے’ جو اپنے پہلوؤں کو لوگوں کیلئے جھکانے والے ہیں اور لوگوں سے محبت کرتے ہیں اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ اس آدمی میں بھالئی نام کی کوئی چیز نہیں جو نہ لوگوں سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی لوگ اس سے مانوس ہوتے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں