قربانی کس پر واجب ہے؟

قربانی کا حکم

قربانی کا حکم

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قربانی واجب ہے اور یہی راجح قول ہے، جبکہ دیگر متعدد ائمہ کرام کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے۔
☀البحر الرائق میں ہے:

قال رَحِمَهُ اللهُ: (تَجِبُ على حُرٍّ مُسْلِمٍ مُوسِرٍ مُقِيمٍ على نَفْسِهِ لَا عن طِفْلِهِ شَاةٌ أو سُبُعُ بَدَنَةٍ فَجْرَ يَوْمِ النَّحْرِ إلَى آخِرِ أَيَّامِهِ) يَعْنِي صِفَتُهَا أنها وَاجِبَةٌ، وَعَنْ أبي يُوسُفَ: أنها سُنَّةٌ، وَذَكَرَ الطَّحَاوِيُّ أنها سُنَّةٌ على قَوْلِ أبي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ، وهو قول الشافعي، لهم قَوْلُهُ ﷺ: إذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أحدكم أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عن شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَجَمَاعَةٌ أخرى، وَالتَّعْلِيقُ بِالْإِرَادَةِ يُنَافِي الْوُجُوبَ، وَلِأَنَّهَا لو كانت وَاجِبَةً على الْمُقِيمِ لَوَجَبَتْ على الْمُسَافِرِ كَالزَّكَاةِ وَصَدَقَةِ الْفِطْرِ؛ لِأَنَّهُمَا لَا يَخْتَلِفَانِ بِالْعِبَادَةِ الْمَالِيَّةِ. وَدَلِيلُ الْوُجُوبِ قَوْلُهُ ﷺ: من وَجَدَ سَعَةً ولم يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وابن مَاجَهْ، وَمِثْلُ هذا الْوَعِيدِ لَا يَلْحَقُ بِتَرْكِ غَيْرِ الْوَاجِبِ، وَلِأَنَّهُ عليه الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَمَرَ بِإِعَادَتِهَا من قَوْلِهِ: من ضَحَّى قبل الصَّلَاةِ فَلْيُعِد الْأُضْحِيَّةَ. وَإِنَّمَا لَا تَجِبُ على الْمُسَافِرِ؛ لِأَنَّ أَدَاءَهَا مُخْتَصٌّ بِأَسْبَابٍ تَشُقُّ على الْمُسَافِرِ وَتَفُوتُ بِمُضِيِّ الْوَقْتِ فَلَا يَجِبُ عليه شَيْءٌ لِدَفْعِ الْحَرَجِ عنه كَالْجُمُعَةِ، بِخِلَافِ الزَّكَاةِ وَصَدَقَةِ الْفِطْرِ؛ لِأَنَّهُمَا لَا يَفُوتَانِ بِمُضِيِّ الزَّمَانِ فَلَا يَخْرُجُ…

نیز
قربانی صرف اپنی طرف سے کرنا واجب ہے ، اولاد کی طرف سے نہیں ، اولاد چاہے بالغ ہویا نا بالغ ، مالدار ہو یا غیر مالدار ۔ .. درج ذیل جانوروں کی قربانی ہو سکتی ہے : اونٹ ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا ۔ بکرا ، بکری، بھیڑ اور دنبہ کے علاوہ باقی جانورو میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں، بشر طیکہ کسی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اور سب قربانی کی نیت سے شریک ہوں یا عقیقہ کی نیت سے ، صرف گوشت کی نیت سے شریک نہ ہوں ۔ … گائے، بھینس اور اونٹ وغیرہ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں، اس طور پر کہ مثلاً چار آدمی ہوں تو تین افراد کے دو دو حصے اور ایک کا ایک حصہ ہو جائے ۔ نیز اگر پورے جانور کو چار حصوں میں میں تقسیم کرلیں، یہ بھی درست ہے ۔ یا یہ کہ دو آدمی موجود ہوں تو نصف نصف بھی تقسیم کر سکتے ہیں ۔ …. اسی طرح اگر کئی افراد مل کر ایک حصہ ایصالِ ثواب کے طور پر کرنا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے ، البتہ ضروری ہے کہ سارے نشر کا اپنی اپنی رقم جمع کر کے ایک شریک کو ہبہ کردیں اور وہ اپنی طرف سے قربانی کر دے ، اس طرح قربانی کا حصہ ایک کی طرف سے ہو جائے گا اور ثواب سب کو ملے گا ۔ … اگر قربانی کا جانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی مل گیا تو شریک کرلوں گا اور بعد میں کسی اور کو قربانی یا عقیقہ کی نیت سے شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت پورا جا نور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اب اگر شریک کرنے والا غریب ہے تو کسی اور کو شریک نہیں کر سکتا اور اگر مالدار ہو تو شریک کر سکتا ہے ، البتہ بہتر نہیں ۔ …. ایک جانور قربانی کرنے کے لیے خریدا، اگر اس کے بدلے دوسرا حیوان دینا چاہے تو جائز ہے ، مگر یہ لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دوسرا حیوان کم از کم اسی قیمت کا ہو ، اگر اس سے کم قیمت کا ہو تو زائد رقم اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ، بلکہ صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ ہاں ! اگر زبانی طور پر جانور کو متعین نہ کیا ہو، بلکہ یہ ارادہ کیا ہو کہ اگر اچھی قیمت میں فروخت ہورہا ہو تو فر وخت کر دیں گے ۔ اس صورت میں اصل قیمت سے زائد رقم اپنے پاس رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ … قربانی کا جانور گم ہوا، اس کے بعد دوسرا خریدا، اگر قربانی کرنے والا امیر ہے تو ان دونوں جانوروں میں سے جس کو چاہے ذبح کرے ، جب کہ غریب پر ان دونوں جانوروں کی قربانی واجب ہوگی۔ وضاحت : اگر کسی آدمی نے قربانی کے لیے جانور خریدا اور خریدنے کے بعد وہ جانور قربانی کرنے سے پہلے گم ہو جائے تو صاحب حیثیت آدمی پر قربانی کے لیے دوسرا جانور خرید نا ضروری ہے ، کیونکہ اس پر قربانی شرعاً واجب تھی اور واجب ادا نہیں ہوا، جبکہ فقیر آدمی پر دوسرا جانور خریدنا اور قربانی کرنا لازم نہیں تھا، اس کے باوجود غریب نے دوسرا جانور بھی خرید لیا ، اب اگر مالدار اور غریب ہر دو کا پہلا گم شدہ جانور مل جائے تو امیر پر صرف شرعی واجب (قربانی) کا ادا کرنا لازم ہے ، جس جانور کو ذبح کر دے کافی ہے ، جب کہ غریب پر خود سے واجب کردہ جانوروں کی قربانی کرنا لازم ہے ۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ امیر آدمی اس نصاب کی وجہ سے قربانی واجب تھی ، اس نے وہ ادا کر دی، اس کے حق میں نہیں ہوا تھا ، اُسے اختیار ہے کہ جس جانور کو چاہے ذبح کردے ، جبکہ غریب آدمی پر قربانی لازم نہیں تھی ، غریب نے از خود جانور خرید کر اپنے پر قربانی کو واجب کیا تو اس پر اسی جانور کی قربانی واجب ہوگی۔۔۔

فائدہ:

ضمن میں یہ علمی نکتہ بھی اہلِ علم کے لیے مفید ہوگا ک حنفیہ کے نزدیک قربانی کا وجوب صدقۃ الفطر اور سجدہ تلاوت سمیت دیگر واجبات کے مقابلے میں اخفّ ہے۔
☀البحر الرائق میں ہے:

قال الْقُدُورِيُّ: الْوَاجِبُ على مَرَاتِبَ بَعْضُهَا آكَدُ من بَعْضٍ، وَوُجُوبُ سَجْدَةِ التِّلَاوَةِ آكَدُ من وُجُوبِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ، وَصَدَقَةُ الْفِطْرِ وُجُوبُهَا آكَدُ من وُجُوبِ الْأُضْحِيَّةِ. (كتاب الأضحية)

*استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید:*
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس کے پاس وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ (حدیث: 3123)
اس حدیث سے متعدد امور معلوم ہوتے ہیں:
1. مذکورہ حدیث شریف میں صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید بیان ہونے سے قربانی کی اہمیت اور تاکید معلوم ہوجاتی ہے۔
2. صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید سے قربانی کے واجب ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوجاتا ہے کیوں کہ یہ وعید واجب جیسے احکام ترک کرنے پر ہی وارد ہوسکتی ہے۔(البحر الرائق)
3. البتہ یہ واضح رہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جو صاحبِ نصاب شخص قربانی نہ کرے تو وہ عید کی نماز پڑھنے بھی نہ آئے یا اس کی نمازِ عید ادا نہیں ہوتی، کیوں کہ نمازِ عید کی درستی اور ادائیگی قربانی کرنے پر موقوف نہیں، بلکہ عید کی نماز ایسے شخص کے ذمے بھی واجب ہے۔ درحقیقت اس حدیث سے مقصود زجر وتنبیہ اور اظہارِ ناراضگی ہے کہ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والا شخص اس جرم کی پاداش میں اس قابل ہے ہی نہیں کہ وہ خیر، برکتوں اور رحمتوں پر مشتمل نمازِ عید کے عظیم مبارک اجتماع میں حاضر ہو!
نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود بھی لاعلمی کی وجہ سے یا پھر جان بوجھ کر قربانی نہیں کرتے، اور طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں۔ حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنی شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں تو لاکھوں روپے بے دریغ خرچ کرتے ہیں حتی کہ ایسے امور کے لیے قرض لے کر اس کا بوجھ بھی برداشت کرتے ہیں لیکن جب قربانی کی باری آتی ہے تو طرح طرح کے حیلے بہانے اور عذر پیش کرنے لگتے ہیں! یقینا اللہ خوب جاننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے! وہ خوب جانتا ہے کہ کونسا عذر قبول ہے اور کونسا نہیں! ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عذر اور بہانے پیش کیے جانے کے قابل ہیں؟؟ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں قربانی کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم خوشی خوشی قربانی کی عبادت سرانجام دے سکیں اور قربانی ترک کرنے کی اس سنگین وعید کے حق دار نہ بنیں۔
4. اسی طرح اس حدیث میں ’’وُسعت‘‘ کی قید سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ قربانی ہر ایک پر واجب نہیں بلکہ وُسعت اور استطاعت والے شخص ہی پر واجب ہے، اور صاحبِ وسعت سے مراد صاحبِ نصاب ہونا ہے۔
☀ سنن ابن ماجہ میں ہے:

3123- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلا يَقْربَنَّ مُصَلَّانَا وفي حاشية السندي على سنن ابن ماجه قَوْلُهُ: «فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا» لَيْسَ الْمُرَادُ أَنَّ صِحَّةَ الصَّلَاةِ تَتَوَقَّفُ عَلَى الْأُضْحِيَّةِ، بَلْ هُوَ عُقُوبَةٌ لَهُ بِالطَّرْدِ عَنْ مَجَالِسِ الْأَخْيَارِ، وَهَذَا يُفِيدُ الْوُجُوبَ، وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.

اپنا تبصرہ بھیجیں