پردہ و حجاب

پردہ و حجاب

پردہ و حجاب

کیا پردہ (حجاب) کا حکم صرف ازواج مطہرات کے لیے خاص تھا ؟

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم صرف ازواج مطہرات کے لیے تھا اور یہ حکم ان کے علاوہ دوسری عورتوں کے لیے نہیں ہے اور اسی مندرجہ بالا آیت ہی سے استدلال کرتے ہیں کہ اس آیت میں خطاب صرف ازواج مطہرات کو کیا جارہا ہے ۔ یادر کھوا یہ بات نقلی اور عقلی ہر اعتبار سے غلط ہے، اس لیے کہ ایک طرف تو اس آیت میں شریعت کے بہت سے احکام دیے گئے ہیں، مثلا ایک حکم تو یہی ہے کہ؛

ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى

ترجمہ : جاہلیت کی عورتوں کی طرح خوب زیب وزینت اور آرائش کر کے باہر نہ نکلو تو کیا یہ حکم صرف ازواج مطہرات کو ہے ؟ اور دوسری عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح زیب وزینت کر کے باہر نکالا کریں ؟ ظاہر ہے کہ دوسری عورتوں کو بھی اجازت نہیں، اور آگےایک حکم یہ دیا کہ:

(وأقمن الصلوة )

ترجمہ اور نماز قائم کرو.
تو کیا نماز قائم کرنے کا حکم ازواج مطہرات کے لیے ہے ؟ اور دوسری عورتوں کو نماز کا حکم نہیں ؟ اور اس کے بعد ایک حکم یہ دیا گیا کہ :

واتين الزکوة)

تو کیا ز کوۃ کا حکم صرف الزواج مطہرات کو ہے دوسری عورتوں کو نہیں ؟اور آگے فرمایا کہ:

(وأطعن الله ورسوله )

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو کیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حكم صرف ازواج مطهرات كوہے دو سری عورتوں کو نہیں ہے پوری آیت کا سیاق و سباق یہ بتا رہا ہے کہ اس آیت میں جیتنے احکام ہیں سب کے لیے عام هيں اگر چه براہ راست خطاب ازواج مطہرات کو ہے لیکن ان کے واسطے سے پوری امت کی عورتوں کو خطاب ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حجاب اور پردے کا مقصد یہ تھا کہ معاشرے کے اندر بے پردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہوسکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا فتنہ صرف ازواج مطہرات کے باہر لگنے سے پیدا ہوگا؟ معاذ اللہ ا وہ ازواج مطہرات کہ ان میں پاکیزہ خواتین اس روئے زمین پر پیدا نہیں ہو ئیں ، کیا انہیں سے فتنے کا خطرہ تھا ؟ کیا دوسری صورتوں کے نکلنے سے فتنے کا اندیشہ نہیں ہے ؟ تو جب ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم پروہ کے ساتھ نکلو تو دوسری عورتوں کو یہ حکم بطریق اولی دیا جائے گا۔اس لیے کہ ان سے فتنہ کا اندیشے زیارہ ہے۔اس کے علاوہ دوسری آیت میں پوری امت مسلمہ سے خطاب ہے، فرمایا

يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيهن)

ترجمہ : اے نبی اپنی بیویوں سے بھی کہ دو اور اپنی بیٹیوں سے بھی کہہ دو اور تمام مومنوں کی عورتوں سے بھی کہہ دو کہ دو اپنے چہروں پر اپنی چادریں لتکا لیا کریں۔ اس سے زیادہ صاف اور واضح حکم کوئی اور نہیں ہوسکتا :
” جلابیب جمع ہے جلباب کی جلباب اس چادر کو کہا جاتا ہے جس میں سر سے پاؤں تک عورت کا پورا جسم اس میں چھپا ہوا ہوا اور پھر قرآن کریم نے صرف چادر پہلے کا علم نہیں دیا بلکہ لفظ “یدنین لائے جس کے معنی یہ ہے کہ وہ چادر اگے ڈھکا لیں تاکہ چہرہ بھی نمایاں نہ ہو اور اس چادر میں چہپ جائے ۔ اب اس سے زیادہ واضح اور کیا حکم ہو سکتا ہے۔
چهره پردے میں داخل ہے یا نہیں ؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ باقی جسم کا تو پردہ ہے لیکن چہرے کا پردہ نہیں ہے خوب اچھی سمجھ لو کہ اول تو چہرے کا پردہ ہے قرآن کریم نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

يدنين عليهن من جلابيبهن.

اس ایت میں جلابیب کا لفظ اختیار فرمایا جلباب اس چادر کو کہا جاتا ہے جو سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم کو ڈھانپ لے اس میں اور برقع میں فرق صرف یہ ہے کہ برقع سلہ ہوا ہوتا ہے اور جلباب سیلی ہوئی نہیں ہوتی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین جلباب ہی استعمال کیا کرتی تھیں اس آیت میں فرمایا کہ آپ تمام مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی جلبابیں اپنے اوپر جھکا لیں اس ایت میں جھکانے کا حکم دیا تاکہ عورت کے چہرے کو اس طرح منظر عام پر نہ لایا جائے جو فتنے کا سبب بنے لہذا اول تو چہرے کا پردہ ہے اور قران کریم کے حکم کے مطابق ہے۔
حجاب اور پردہ کی کیا حد ہے؟
حجاب کے بارے میں اتنی بات ضرور عرض کر دوں کہ حجاب میں اصل بات یہ ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک پورا جسم چادر سے یا برقے سے دھام لیا جائے بال بھی ڈھکے ہوئے ہوں اور چہرے کا حکم یہ ہے کہ اصلا چہرے کا بھی پردہ ہے اس لیے چہرے پر بھی نقاب ہونا چاہیے۔اور اوپر جو ایت ذکر کی گئی ہے اس ایت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں خواتین یہ کرتی تھی کہ چادر اپنے اوپر ڈال کر اس کا ایک پلہ چہرے پر ڈال لیتی تھی اور صرف انکھیں کھلی رہتی تھیں اور باقی چہرہ چادر کے اندر ڈھکا ہوتا تھا تو حجاب کا اصل طریقہ یہ ہے البتہ چونکہ ضروریات بھی پیش اتی ہیں اس لیے اللہ تعالی نے چہرے کی حد تک یہ گنجائش تھی کہ جہاں چہرہ کھولنے کی شدید ضرورت داعی ہو اس وقت صرف چہرہ کھولنے اور ہاتھوں کو گٹوں تک کھولنے کی اجازت ہے ورنہ اصل حکم یہی ہے کہ چہرہ سمیت پورا جسم ڈھکا ہونا چاہیے۔
اور خواتین یہ نہ سمجھیں کہ یہ پردہ ہمارے لیے دشواری کا سبب ہے بلکہ عورت کی فطرت میں پردہ داخل ہے اور عورت کے معنی ہی چھپانے والی چیز کے ہیں اور پردہ عورت کی سرشت میں داخل ہے۔اگر فطرت مسخ ہو جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں لیکن جو تسکین اور راحت پردے کی حالت میں ہوگی وہ تسکین بے پردگی اور کھلم کھلا اعلانیہ رہنے کی حالت میں نہیں ہوگی لہذا پردے کا تحفظ حیا کا ایک لازمی حصہ ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں اج کے حالات دیکھ رہی تھیں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے قریب ایسی عورتیں ہوں گی کہ ان کے سر کے بال لاغر اونٹ کی کوہان کی طرح ہوں گے
اونٹ کے کوہان کی طرح بال بنانے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تصور بھی نہیں ا سکتا تھا اج دیکھ لیں کہ عورتیں اونٹوں کے کوہان کی طرح بال بنا رہی ہیں۔
اور فرمایا کہ عورتیں بظاہر تو لباس پہنی ہوئی ہوں گی لیکن وہ لباس ایسے ہوں گے کہ جن سے ستر کا مقصد حاصل نہیں ہوگا اس لیے کہ وہ لباس اتنا باریک ہوگا یا وہ لباس اتنا چست ہوگا کہ اس کی وجہ سے جسم کے تمام نشیب و فراز عیاں ہو جائیں گے اور سب حیا کے ختم ہونے کا نتیجہ ہوگا اج سے پہلے اس کا تصور اور خیال بھی نہیں ا سکتا تھا کہ عورت ایسا لباس پہنیں گی اس لیے کہ اس کے دل میں حیا تھی اور اس کی طبیعت ایسی تھی کہ وہ ایسا لباس پہننا پسند نہیں کرتی تھی لیکن اج سینہ کھلا ہوا ہے گلا کھلا ہوا ہے بازو کھلے ہیں ایک کیسا لباس ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں