
حجاب یعنی : پردے کا بیان
حجاب یعنی : پردے کا بیان
حجاب اور ستر میں فرق:
سب سے پہلی بات تو یہ جاننے کی ہے کہ حجاب کے بارے میں دو باتیں الگ الگ ہیں، ایک ستر ہے اور دوسرا حجاب:
ان دونوں میں کئی اعتبار سے فرق ہے، جسے ملاحظہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ مرد اور عورت کے جسم کے جن اعضاء کو چھپانا ضروری ہے ، ان کو ستر کہتے ہیں، اجنبی مرد، یعنی غیر محارم کے لیے تو عورت کے ہاتھ ، پاؤں کے علاوہ سارا جسم ہی “ستر میں شامل ہے۔ محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے صرف سر، بال، گردن ، کان، بازو، ہاتھ ، پاؤں، پنڈلی،، چہرہ اور گردن سے متصل سینہ کا اوپری حصہ کھولنے کی گنجائش ہے، اور یہ اجازت بھی اس وقت ہے جب کہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، لہذا چہرہ اور ہاتھ ، پاؤں کے سوا باقی اعضاء ( بازو، پنڈلی ، گردن اور گردن سے متصل چھاتی کا اوپری حصے ) کو ڈھکا رکھنے میں ہی موجودہ زمانے میں احتیاط ہے۔ اور جہاں فتنے کا اندیشہ ہوتو پھر ان اعضاء کو محارم سے بھی چھپانا واجب ہوگا ۔ نیز ! محرم عورتوں کی کمر اور چھاتی کی طرف دیکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اور نا محرم لوگوں کے سامنے جب عورت اپنا چیرہ کسی کپڑے، چادر یا سکارف وغیرہ سے چھپائے تو اسے حجاب کرنا کہتے ہیں۔ حجاب ؛ محرم کے سامنے ضروری نہیں، جبکہ نامحرم کے سامنے حجاب یا پردہ کا حکم قرآن پاک میں دیا گیا ہے، اکثر لوگوں کا کہناہے کہ منہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں تو اس لیے ان کا چھپانا بھی ضروری نہیں، تو ان لوگوں کی یہ بات درست نہیں ، کیونکہ حجاب تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ منہ اور ہاتھ نامحرم سے چھپائے جائیں۔ محرم کے سامنے ستر چھپانا تو ضروری ہے لیکن محرم سے حجاب کرنا (منہ اور ہاتھ، پاؤں چھپانا ضروری نہیں ، بشرطیکہ خوف فتنہ نہ ہو، اور اگر خوف فتنہ ہو تو محرم سے بھی ان اعضاء کو چھپانا ہوگا۔ جبکہ نامحرم کے سامنے سر چھپانا بھی ضروری ہے اور اس سے حجاب کرنا بھی فرض ہے۔ خلاصہ یہ کہ ستر عورۃ اور حجاب نساء : یہ دو مسئلے الگ الگ ہیں، ستر عورہ ہمیشہ سے فرض ہے، اور حجاب نساء ۴ یا ۵ ہجری میں فرض ہوا۔ ستر عورة ؛ مرد و عورت دونوں پر فرض ہے، اور حجاب ؛ صرف عورتوں پر فرض ہے۔ ستر عورة محارم اور نا محارم (دونوں کے اپنے اپنے اعتبار ) سے خلوت اور جلوت ، دونوں حالتوں میں فرض ہے، اور حجاب ؛ صرف اجنبی مرد کی موجودگی میں فرض ہے۔ تفصیل اس لیے لکھ دی گئی ہے کہ ان دونوں مسئلوں میں خلط ملط کر دینے سے بہت سے شبہات ، مسائل اور احکام پیدا ہو جاتے ہیں۔
عہد نبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں۔ حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنادیا گیا تھا۔ یہی عمل ازواج مطہرات اور تمام مسلمان عورتوں کا تھا۔ اور یہی طریقہ اپنانا ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔ حجاب کا حکم نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ 5 ہجری ، ذی قعدہ کے مہینہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ کا نکاح ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا ، ان کی رخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ چند آدمی جو اس دعوت میں مدعو تھے، وہ کھانا کھا کر آپس میں اُدھر ہی بیٹھے بیٹھے باتیں کرنے لگے اور اپنی گپ شپ میں اس قدر دیر لگائی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس سے تکلیف ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروت کی وجہ سے خاموش تھے، بار بار اندر جاتے اور باہر آتے تھے، اس مکان میں حضرت زینب بھی بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کا منہ دیوار کی طرف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و رفت کو دیکھ کر بعضوں کو خیال ہوا اور وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے ۔ حضرت انس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دوسری ازواج کے مکان میں تھے، اطلاع دی، آپ باہر تشریف لائے تو وحی کی زبان اس طرح گویا ہوئی:
يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبي إلا أن يُؤذَنَ لَكُمْ إِلى طَعَام غَيْر ناظرِينَ إناہ، وَلَكِن إِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوا، فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوْا، وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثِ إِنَّ ذلِكُمْ كَانَ يُؤذى النَّبِي، فَيَسْتَحْي مِنكُمْ وَاللهُ لَا يَسْتَحْي مِنَ الْحَقِّ، وَإِذَا سألتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أطهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ. الأحزاب: ۵۳
ترجمہ: اے ایمان والو! نبی کے گھروں پر مت جایا کرو، مگر جس وقت تم کو کھانے کے لیے اجازت دی جائے ، اس طور پر کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو لیکن جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو۔ اور باتوں میں جی لگا کر بہ بیٹھو اس سے نبی کوناگواری پیدا ہوتی ہے، سووہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تعالی صاف بات کہنے سےلحاظ نہیں کرتا ہے اور جب تم ان سے کوئی چیز…. ا شرعی پردے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو جتنے پردے کا حکم دیا ہے، اس کا اہتمام کرتے ہوئے پردہ کرے، عورت کا تمام بدن ستر ہے اپنے گھر میں بھی اس کو مستور رکھنا لازم ہے، مگر چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں کو ہر وقت چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں ، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں :
[1]۔ شرعی حجاب اشخاص، یعنی عورتوں سے سب سے پہلے تو یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ہی رہیں ، اس کی دلیل یہ ہے
وَقَرْنَ فِی بيوتكن
الأحزاب کے اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو ۔
[2] ۔ اور ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تو اس وقت کی برقع یا لمبی چادر کوسر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کا حکم قرآنی آیت:
يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ
(الاحزاب میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔
[3] ۔ پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی ، امام مالک، امام احمد نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظم نے فرمایا کہ اگرفتنہ کا خوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوف فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نا در معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متاخرین فقہاء احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو ائمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا نا جائز اور پردہ کرنا ضروری ہے۔
مولانا محمد ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ
کے تحت لکھا ہے: ” عورت کو اپنی یہ زینت ظاہرہ (چہرہ اور دونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سر بازار چہرہ کھول کر اپنا حسن و جمال دکھلاتی پھریں، حسن و جمال کا تمام دارو مدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعت مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قرار دیا ۔ (معارف القرآن، کاندھلوی) لہذا عورت جب بھی اپنے گھر سے نکلے ( خواہ بازار کے لیے ہو یا سفر کے لیے ) چہرے سمیت پورے بدن کے پردے کے ساتھ نکلے، ورنہ گناہ ہوگا۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے سفر حج کے دوران بھی پردے کی پابندی منقول ہے۔ گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اجنبی کے سامنے عورت پر چہرے کا پردہ لازم ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس سے عورت کا نکاح ہوسکتا ہو، ( مثلا : چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد بہنوئی نندوئی ، دیور وغیرہ) ان سب سے بھی چہرے کا پردہ کرنا چاہیے، اگر مشتر کہ خاندانی رہائش ہو تو گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگٹ بنالیا جائے ؛ تا کہ چہرے پر نگاہ نہ پڑے۔
اور اگر گھر میں تنگی ہے کہ ہر وقت با پردہ رہنا مشکل ہوتا ہے ایسی حالت میں عورت کے لیے قدرے گنجائش ہے کہ وہ اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی کے جوڑ تک اور دونوں پاؤں ٹخنے سے نیچے تک کھولے رکھے اور اس کے علاوہ بدن کے کسی اور حصہ کا کھولنا جائز نہیں ایسی مجبوری میں عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سر کو خوب ڈھانکیں، بالوں کو نہ کھولیں ، لباس باریک اور چست نہ ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو، کرتہ بڑی آستین کا پہنیں، کلائی اور ٹخنے نہ کھولنے پائیں، کوئی مجبوری نہ ہو تو اتنا بھی ظاہر نہ کریں۔ مذکورہ بالا امور پر عمل کرنے کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ نامحرموں سے ہنسی مذاق اور حیاء کے خلاف گفتگو نہ کی جائے ، بلا ضرورت غیر محرم سے بات نہ کریں اور ضرورت کی بات بھی مختصر کریں، اس بات کا پورا لحاظ رکھیں کہ کسی نامحرم کے ساتھ خلوت نہ ہو، غیر محرم کی موجودگی میں اپنے محارم سے بھی ہنسی مذاق نہ کریں، اور اسی طرح جب غیر محرم گھر میں داخل ہوں تو دستک دے کر داخل ہوں، تا کہ خواتین کم از کم مذکورہ بالا پردہ کرسکیں ۔
اسلامی حجاب عورت کا وقار ہے، خواتین میں جو برقع پہنے کا رواج ہوا ہے، یہ دو ر نبوت کی پاکیزہ خواتین اسلام کے عمل سے ہی ماخوذ ہے، برقع بھی اسی چادر کے قائم مقام ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں لفظ جلباب سے کیا گیا ہے، البتہ پہلے زمانے میں برقع کالے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے ہوا کرتے تھے اور خواتین اس قسم کے برقعوں کو پسند کرتی تھیں، جو پورے بدن کو بھی چھپا لیتے تھے اور عورت کی شرافت کو بھی ظاہر کرتے تھے لیکن آج کے دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں ایسے برقعے آگئے ہیں جن سے برقع کا مقصد ہی فوت ہو رہا ہے، کپڑا اتنا باریک کہ جس سے اندر تک کا لباس نظر آتا ہے۔ سائز اتنا تنگ کہ جس سے جسم کی ساخت بھی ظاہر ہوتی ہے، رنگ برنگ دھاگوں کے پھول، ڈیزائن، رنگوں ، چمکیوں اور موتیوں وغیرہ سے مزین بڑے بڑے قیمتی اور جاذب نظر بر قعے آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔ جن کے پہننے سے برقعے کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ اورلا زم ہے کہ خواتین ڈھیلے ڈھالے، سادے اور غیر جاذب نظر بر قعے پہن کر ہی باہر نکلیں اور یہ بات یادر کھیں کہ برقعے زینت کے اظہار کو چھپانے کے لیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شرعیہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔