عاجزی و انکساری کی اہمیت وفضیلت

عاجزی و انکساری کی اہمیت وفضیلت

عاجزی و انکساری کی اہمیت وفضیلت

انسان جس کی تخلیق ایک نطفے سے کی گئی اور جسے آخر کار اس دنیا سے جانا ہے اور اس کے اختیار اور بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اپنی بھوک پیاس، نیند، خوشی، غم ، یاداشت، بیماری یا موت پر اسے کچھ اختیار نہیں اس لئے اسے چاہیے کہ اپنی اصلی حیثیت اور اوقات کو بھی فراموش نہ کرے خواہ اس دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا کتنے ہی بڑے مقام و مرتبے پر کیوں نہ پہنچ جائے ، خالق کون و مکان اللہ عز وجل کے سامنے اسکی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ صاحب عقل انسان تواضع اور عاجزی کا طور طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اور یہی طور طریقہ اسکو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی انسان نے فرعونیت ، قارونیت اور نمرودیت والی راہ اپنائی بسا اوقات اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا ہی میں ایسا ذلیل و خوار کیا ہے کہ اس کا نام بطور تعریف نہیں بطور مذمت لیا جاتا ہے۔ لہذا عقل و فہم کا تقاضا یہ ہے کہ اس دنیا میں اونچی پرواز کے لیے انسان جیتے جی پیوند زمین ہو جائے اور عاجزی و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے اور پھر دیکھئے کہ اللہ رب العزت اس کو کس طرح عزت و عظمت سے نوازتا ہے اور اُسے دنیا میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جو اس کے فضل وکرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں عیاض رح فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ ارشادفرمایا اور اس میں کہا:

وَإِنَّ اللهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ

اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تو اضع اختیار کر و حتی اکہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے.

عاجزی میں ہی رفعت ہے

سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ تَوَاضَعَ لِأَخِيهِ الْمُسْلِمِ رَفَعَهُ اللَّهُ وَمَنِ ارْتَفَعَ عَلَيْهِ وَضَعَهُ اللَّهُ صحیح مسلم: 2865

جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے عاجزی کرتا ہے باری تعالیٰ اسے سر بلند کرتا ہے اور جو اس پر اپنی برتری جتاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پست کرتا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْو، إِلَّا عِزَّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ

صدقہ مال کوکم نہیں کرتا اور جو شخص معاف کرتا ہے، اللہ سبحانہ، اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ رب العزت کے لئے تواضع (عاجزی کرتا ہے، اللہ سبحانہ اس کا مقام بلند کرتا ہے“۔ صحیح مسلم: 2588
اس حدیث نے ہماری زندگی میں پائے جانے والے تین تصورات کی اصلاح کی ہے ، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے مال میں کمی ہو جائے گی اور صدقہ و خیرات کا عمل مال کو گھٹا دے گا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صدقہ مال کو گھٹاتا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے۔ اسی طرح دوسرا تصور ہم کسی کو معاف کرنا اپنی بزدلی اور کم ہمتی اور ذلت و پستی جانتے ہیں اور اسی طرح ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے تسلیم کرنے میں عار سمجھتے ہیں۔ یوں ہم سمجھتے ہیں معاف کرنا ذلت ہے اور معذرت خواہ ہونا ندامت ہے اور بے عزت ہونا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہرگز ہر گز نہیں۔ معاف کرنا اور معذرت طلب کرنے کا خلق و عمل انسان کی عزت کو بڑھاتا ہے۔
اسی طرح تیسرا تصور ہمارا یہ ہے ہم اعلیٰ مقام و مرتبہ پر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی عاجزی و انکساری نہیں کریں گے ، یہ عمل اور یہ رویہ اور یہ خلق ہماری عزت کو خاک میں ملائے گا، عاجزی ہمیں رسوائی دے گی انکساری ہمیں خواری کی کیفیت سے دو چار کرے گی۔ اس لئے ہم اپنے اسٹیٹس کو قائم رکھنے میں کبروغرور کا اظہار کریں گے تا کہ ہماری حیثیت اور فضیلت میں کمی نہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تواضع و انکساری کا عمل انسان کے درجے اور مقام اور سٹیٹس کو کم نہیں کرتا بلکہ تواضع و انکساری کی وجہ سے انسان کا درجہ وفضیلت کو اللہ رب العزت نہ صرف اپنے حضور بڑھاتا ہے بلکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی عزت و تکریم میں مزید اضافہ کر دیتا ہے اسے عاجزی و انکساری کی بنا پر وہ رفعت ، وہ فضیلت اور وہ بلندی عطا کرتا ہے جس کا وہ پہلے بھی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

عاجزی میں حائل چندر کا وٹیں

انسانی زندگی میں کچھ عوامل اور اسباب پیش ایسے آتے ہیں جو انسان سے عاجزی اور انکساری کا وصف چھین لیتے ہیں اور اس میں تکبر و استکبار اور غرور و رعونت پیدا کر دیتے ہیں۔ ذیل میں ان ہی میں سے چند عوامل کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

خوشحالی اور کثرت دنی

عاجزی و انکساری کی راہ میں سب سے بڑا عامل انسان کا خوشحال ہو جانا ہے۔ یہ خوشحالی انسان سے انکساری کا وصف چھین لیتی ہے ۔ مگر ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حیات ہے جو ہمیں ، ہر حال اور زندگی کے ہر موڑ پر سنبھالتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہی زندگی پر عجز وانکسار کی زندگی کو ترجیح دی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کو خوشحال ہی بنانا چاہتے تو اس کا عالم یہ ہوتا کہ ام المومنین عائشہ رض بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فَوَاللهِ لَوْ شِئْتُ لأَجْرَى اللهُ مَعِي جِبَالَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ

اللہ کی قسم اگر میں چاہوں تو اللہ تعالیٰ میرے لیے سونے اور چاندی کے پہاڑ چلا دے۔ شعب الایمان :

فتح وکامیابی

دوسرا بڑا عامل جو ہمارے وجود میں پہنچنے والی عاجزی و انکساری پر حملہ آور ہوتا ہے، وہ فتح و کامرانی کی منزل کو پالینے کے بعد کا رویہ ہے جس کے بعد بندہ اپنے ماتحتوں اور کمزوروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتا ہے۔ انسان عام حالات میں عجز و انکساری اختیار کر رہا ہوتا ہے مگر دشمن پر فتح و کامیابی اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے اور ایسے موقع پر وہ عاجزی و انکساری کا راستہ چھوڑ کر تکبر و رعونت اور طاقت وقوت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اپنے دشمن اور فریق مخالف پر ظلم و سرکشی کی انتہا کر دیتا ہے۔ قرآن حکیم انسان کے اس شاہانہ اور حاکمانہ مزاج اور رویے کا اظہار یوں کرتا ہے:

قَالَتْ إِنَّ ٱلْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا۟ قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوٓا۟ أَعِزَّةَ أَهْلِهَآ أَذِلَّةًۭ ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل: 34:27)

” بے شک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کر ڈالتے ہیں اور یہ لوگ بھی ) اسی طرح کریں گے۔ انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ بادشاہوں نے فتح و کامرانی کے نشے میں لوگوں کے سروں کے مینار بنائے ہیں قتل وغارت گری کی انتہا کر دی اور ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت واسوہ نے اس موقع پر بھی انسانوں کو عاجزی و انکساری کا پیغام دیا ہے کہ فتح و کامرانی پر بھی اللہ کے حضور شکر گزار بنو، نہ کہ انسانوں پر اظہار فخر کر کے ان کا جینا دو بھر کر دو۔ اس لیے کہ شکر گزاری سے انسانی طبیعت میں عجز و انکسار آتا ہے۔ فتح و کامرانی انسانی زندگی میں وہ موقع ہوتا ہے جب انسان تکبر واستکبار کی رو میں بہہ جاتا ہے اور وہ دوسرے انسانوں پر ظلم و ستم شروع کر دیتا ہے۔

اندھی محبت و عقیدت

انسانی وجود سے عاجزی اور انکساری کو چھیننے والی ایک اور چیز اندھی محبت وعقیدت بھی ہے۔ انسان کے کسی وصف کی بنا پر دوسرے انسان اس کو بے پناہ محبت اور بے مثال عقیدت دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو قابل احترام اور مستحق تکریم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس جب کبھی اہلِ محبت اور اہلِ عقیدت کے علاوہ اس کا واسطہ دوسرے انسانوں سے پڑتا ہے تو وہ اس کی اس طرح قدر دانی نہیں کرتے اور اس طرح کی عقیدت و محبت نہیں دیتے تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ اس کا مزاج اب ان رویوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی طبیعت کا معاملہ بھی بچے کی طبیعت جیسا ہو جاتا ہے۔

عام سواری پر سفر کر لینا

عاجزی و انکساری کے چند پہلو بندے میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ضروری نہیں ہے کہ سفر کے لیے بہت ضروری بنالیا جائے کہ جب تک شایان شان گاڑی نہیں ہوگی ، سفر نہیں کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی عام سواری گدھے پر بھی سفر فرما لیا کرتے ۔ جیسا کہ سید نا ابو موسی رض فرماتے ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَيَلْبَسُ الصُّوفَ، وَيَعْتَقِلُ الشَّاةَ، وَيَأْتِي مُرَاعَاةَ الضَّيْفِ

رسول اللہ علیم گدھے پر سواری کر لیا کرتے تھے، اونی لباس پہن لیتے تھے ، بکریوں کا دودھ (خود اپنے ہاتھ سے ) دوھ لیا کرتے تھے اور مہمان کی عزت و توقیر کرتے تھے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم

اپنی تعریف پسند کرنا

اگر کوئی ہماری تعریف میں قلابے نہ ملائے تو شاید ہم ناراض ہو جاتے ہیں جبکہ سادگی اور عاجزی اس کے برخلاف عمل ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مدح سرائی نا پسند کرتے اور تعریف میں غلو کرنے سے منع کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا تطرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ

مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصاری نے عیسی ابن مریم کو بڑھایا ( کہ انہوں نے خدا کا بیٹا مان لیا معاذ اللہ ) میں تو بندہ ہی ہوں تو مجھ کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صلی للی ) ہی کہوں۔ صحیح البخاری:
سیرت النبی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بڑے بڑے کام کرنے کے بعد بھی اپنے اندر عاجزی کو جگہ دینی چاہیے۔ جیسا کہ عبداللہ بن ابو بکر کہتے ہیں کہ جب فتح مکہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس میں داخل ہوئے ؟

وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَضَعَ رَأْسَهُ تَوَاضُعًا لِلَّهِ حِينَ رَأَى مَا أَكْرَمَهُ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ، حَتَّى إِنْ عُثْنُونَهُ لَيَكَادُ يَمَسُّ وَاسِطَةَ الرَّحْلِ. سرة ابن هشام:

ہم میں سے بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ مجلس میں بیٹھنے کے لیے خصوصی اور نمایاں نشست کو ڈھونڈتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ایسی نشست ملے جہاں ہم ہی نمایاں نظر آئیں کوئی کام محض تکبر کی وجہ سے ترک نہ کریں:
بہت سے لوگ بھوک سے پریشان ہوتے ہیں۔ کھانے کے لیے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن کوئی بھی ایسی محنت اور مزدوری کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس سے ان کے سٹیٹس پر حرف آتا ہو۔ حالانکہ یہ کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے نبی علی ای بکریاں بھی چراتے رہے ہیں ۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کی :

أَكُنْتَ تَرْعَى الغَلَمَ؟

آپ نے بکریاں چرائی ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نَعَمْ، وَهَلْ مِنْ نَبِيَّ إِلَّا رَعَاهَا

اپنے سے چھوٹے لوگوں پر شفقت

یہ بھی عاجزی ہے کہ انسان اپنے سے چھوٹے لوگوں سے ملے،ان کے لیول کی بات کرے، یہ بھی آپ کی تواضع تھی کہ جب آپ بچوں کے پاس سے گزرتے تو بڑے لطف و کرم سے انہیں سلام کرتے اور بڑی تواضع سے ان کی طرف متوجہ ہوتے ۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ فرماتے ہیں:

أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ

وہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا۔
انس رضی اللہ فرماتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔ صحیح البخاری:
بلکہ آپ صلی للہ ہم بچوں کے ساتھ کھیلتے اور ان سے مزاح بھی کرتے تھے۔ آپ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھوٹا سا بچہ آتا تھا اور اس کے پاس اس کی چھوٹی سی چڑیا ہوتی جس سے وہ محبت کرتا اور کھیلتا تھا اور اس سے الگ نہیں ہوتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت خندہ پیشانی، مسکراہٹ اور تواضع کے ساتھ اس سے ملتے ۔ صحیح البخاری

اپنا تبصرہ بھیجیں