قربانی کا مقصد اور فلسفہ 1

قربانی کا بنیادی رُکن

قربانی کا بنیادی رُکن

یہ اہم مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنا ہی ضروری ہے، کیوں کہ یہ قربانی کا رُکن ہے، اس لیے یہ عبادت جانور ذبح کرنے ہی سے ادا ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کی بجائے جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ حتی کہ اگر کسی صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کے ان ایام میں قربانی نہیں کی یہاں تک کہ 12 ذوالحجہ کا سورج غروب ہوگیا یعنی قربانی کے تین دن ختم ہوگئے تو ایسی صورت میں اب درمیانے درجے کے بکرے یا دُنبے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اگر جانور خریدنے کے باوجود بھی قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرسکا تو اب اسی جانور کو صدقہ کرنا ضروری ھے (اعلاءالسنن، )

بدائع الصنائع

وَمِنْهَا: أَنْ لَا يَقُومَ غَيْرُهَا مَقَامَهَا حتى لو تَصَدَّقَ بِعَيْنِ الشَّاةِ أو قِيمَتِهَا في الْوَقْتِ لَا يَجْزِيهِ عن الْأُضْحِيَّةَ؛ لِأَنَّ الْوُجُوبَ تَعَلَّقَ بِالْإِرَاقَةِ، وَالْأَصْلُ أَنَّ الْوُجُوبَ إذا تَعَلَّقَ بِفِعْلٍ مُعَيَّنٍ أَنَّهُ لَا يَقُومُ غَيْرُهُ مَقَامَهُ كما في الصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَغَيْرِهِمَا، بِخِلَافِ الزَّكَاةِ فإن الْوَاجِبَ أَدَاءُ جُزْءٍ من النِّصَابِ، وَلَوْ أَدَّى من مَالِ آخَرَ جَازَ؛ لِأَنَّ الْوَاجِبَ هُنَاكَ ليس جزأ من النِّصَابِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا بَل الْوَاجِبُ مُطْلَقُ الْمَالِ وقد أدى، وَعِنْدَ بَعْضِهِمْ: وَإِنْ كان الْوَاجِبُ أَدَاءَ جُزْءٍ من النِّصَابِ لَكِنْ من حَيْثُ أنه مَالٌ لَا من حَيْثُ أنه جُزْءٌ من النِّصَابِ؛ لِأَنَّ مَبْنَى وُجُوبِ الزَّكَاةِ على التَّيْسِيرِ، وَالتَّيْسِيرُ في الْوُجُوبِ من حَيْثُ إنه مَالٌ لَا من حَيْثُ إنه الْعَيْنُ وَالصُّورَةُ، وَهَهُنَا الْوَاجِبُ في الْوَقْتِ إرَاقَةُ الدَّمِ شَرْعًا غَيْرُ مَعْقُولِ الْمَعْنَى فَيَقْتَصِرُ الْوُجُوبُ على مَوْرِدِ الشَّرْعِ، وَبِخِلَافِ صَدَقَةِ الْفِطْرِ أنها تَتَأَدَّى بِالْقِيمَةِ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْوَاجِبَ هُنَاكَ مَعْلُولٌ بِمَعْنَى الْإِغْنَاءِ، قال النبي ﷺ: «أَغْنُوهُمْ عن الْمَسْأَلَةِ في مِثْلِ هذا الْيَوْمِ». وَالْإِغْنَاءُ يَحْصُلُ بإداء الْقِيمَةِ. وَاللهُ عز شَأْنُهُ أَعْلَمُ ……

وَمِنْهَا: أنها تُقْضَى إذَا فَاتَتْ عن وَقْتِهَا، وَالْكَلَامُ فيه في مَوْضِعَيْنِ: أَحَدُهُمَا: في بَيَانِ أنها مَضْمُونَةٌ بِالْقَضَاءِ في الْجُمْلَةِ، وَالثَّانِي: في بَيَانِ ما تُقْضَى بِهِ. أَمَّا الْأَوَّلُ فَلِأَنَّ وُجُوبَهَا في الْوَقْتِ أما لِحَقِّ الْعُبُودِيَّةِ أو لِحَقِّ شُكْرِ النِّعْمَةِ أو لِتَكْفِيرِ الْخَطَايَا؛ لِأَنَّ الْعِبَادَاتِ وَالْقُرُبَاتِ إنَّمَا تَجِبُ لِهَذِهِ الْمَعَانِي، وَهَذَا لَا يُوجِبُ الِاخْتِصَاصَ بِوَقْتٍ دُونَ وَقْتٍ، فَكَانَ الْأَصْلُ فيها أَنْ تَكُونَ وَاجِبَةً في جَمِيعِ الْأَوْقَاتِ وَعَلَى الدَّوَامِ بِالْقَدْرِ الْمُمْكِنِ إلَّا أَنَّ الْأَدَاءَ في السَّنَةِ مَرَّةً وَاحِدَةً في وَقْتٍ مَخْصُوصٍ أُقِيمَ مَقَامَ الْأَدَاءِ في جَمِيعِ السَّنَةِ تَيْسِيرًا على الْعِبَادِ فَضْلًا من اللہِ عز وجل وَرَحْمَةً كما أقيم صَوْمُ شَهْرٍ في السَّنَةِ مَقَامَ جَمِيعِ السَّنَةِ وَأُقِيمَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ في يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ مَقَامَ الصَّلَاةِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ، فإذا لم يُؤَدِّ في الْوَقْتِ بَقِيَ الْوُجُوبُ في غَيْرِهِ لِقِيَامِ الْمَعْنَى الذي له وَجَبَتْ في الْوَقْتِ. وَأَمَّا الثَّانِي فَنَقُولُ: إنها لَا تُقْضَى بِالْإِرَاقَةِ؛ لِأَنَّ الْإِرَاقَةَ لَا تُعْقَلُ قُرْبَةً، وَإِنَّمَا جُعِلَتْ قُرْبَةً بِالشَّرْعِ في وَقْتٍ مَخْصُوصٍ فَاقْتَصَرَ كَوْنُهَا قُرْبَةً على الْوَقْتِ الْمَخْصُوصِ فَلَا تُقْضَى بَعْدَ خُرُوجِ الْوَقْتِ، ثُمَّ قَضَاؤُهَا قد يَكُونُ بِالتَّصَدُّقِ بِعَيْنِ الشَّاةِ حَيَّةً، وقد يَكُونُ بِالتَّصَدُّقِ بِقِيمَةِ الشَّاةِ، فَإِنْ كان أَوْجَبَ التَّضْحِيَةَ على نَفْسِهِ بِشَاةٍ بِعَيْنِهَا فلم يُضَحِّهَا حتى مَضَتْ أَيَّامُ النَّحْرِ يَتَصَدَّقْ بِعَيْنِهَا حَيَّةً؛ لِأَنَّ الْأَصْلَ في الْأَمْوَالِ التَّقَرُّبُ بِالتَّصَدُّقِ بها لَا بِالْإِتْلَافِ وهو الْإِرَاقَةُ إلَّا أَنَّهُ نُقِلَ إلَى الْإِرَاقَةِ مُقَيَّدًا في وَقْتٍ مَخْصُوصٍ حتى يَحِلَّ تَنَاوُلُ لَحْمِهِ لِلْمَالِكِ وَالْأَجْنَبِيِّ وَالْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ لِكَوْنِ الناس أَضْيَافَ اللهِ عز شَأْنُهُ في هذا الْوَقْتِ، فإذا مَضَى الْوَقْتُ عَادَ الْحُكْمُ إلَى الْأَصْلِ وهو التَّصَدُّقُ بِعَيْنِ الشَّاةِ، سَوَاءٌ كان مُوسِرًا أو مُعْسِرًا؛ لِمَا قُلْنَا، وَكَذَلِكَ الْمُعْسِرُ إذَا اشْتَرَى شَاةً لِيُضَحِّيَ بها فلم يُضَحِّ حتى مَضَى الْوَقْتُ؛ لِأَنَّ الشِّرَاءَ لِلْأُضْحِيَّةِ من الْفَقِيرِ كَالنَّذْرِ بِالتَّضْحِيَةِ، وَأَمَّا الْمُوسِرُ إذَا اشْتَرَى شَاةً لِلْأُضْحِيَّةِ فَكَذَلِكَ الْجَوَابُ.

مجمع الانہر

وَفِي الشَّرْعِ: هِيَ ذَبْحُ حَيَوَانٍ مَخْصُوصٍ بِنِيَّةِ الْقُرْبَةِ فِي وَقْتٍ مَخْصُوصٍ وَهُوَ يَوْمُ الْأَضْحَى، وَشَرَائِطُهَا: الْإِسْلَامُ وَالْيَسَارُ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ صَدَقَةُ الْفِطْرِ فَتَجِبُ عَلَى الْأُنْثَى، وَسَبَبُهَا الْوَقْتُ وَهُوَ أَيَّامُ النَّحْرِ، وَرُكْنُهَا ذَبْحُ مَا يَجُوزُ ذَبْحُهَا، وَحُكْمُهَا الْخُرُوجُ عَنْ عُهْدَةِ الْوَاجِبِ فِي الدُّنْيَا وَالْوُصُولِ إلَى الثَّوَابِ فِي الْعُقْبَى

ایک سنگین غلط فہمی کا اِزالہ

ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ قربانی کی یہ عبادت جانور کو ذبح کرنے ہی سے ادا ہوسکتی ہے، جانور ذبح کیے بغیر وہ رقم کسی غریب کو دینے یا کسی رفاہی کام میں خرچ کرنے سے قربانی کی عبادت ہرگز ادا نہیں ہوسکتی۔ اس سے ان حضرات کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کرنے کی بجائے کسی غریب کی مدد کرنی چاہیے تاکہ ان کا بھلا ہو کیوں کہ ہر سال لاکھوں جانور ذبح کرنے سے کیا حاصل؟! ذیل میں اس حوالے سے چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں:

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم سب سے مقدم ہے!

اس معاملے میں اصولی نکتہ یہ ہے کہ قربانی اور اس جیسی دیگر عبادات سے متعلق یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ایک مؤمن کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم سب سے زیادہ اہم چیز ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہر چیز سے مقدّم ہے، ان کے حکم کے مقابلے میں کسی دلیل، کسی تأویل اور کسی عقلی توجیہ کی کوئی حیثیت نہیں، ان کا حکم بلا چون وچرا ماننا چاہیے، یہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سچی محبت کی علامت ہے اور یہی ان کی عظمت اور بندے کی بندگی کا تقاضا ہے کہ ان کے حکم کے مقابلے میں کسی بھی قسم کے عقلی گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، بلکہ ان کے آگے سرِ تسلیم خم کیا جائے جیسا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکا لیا، تبھی تو وہ کامیاب ہوگئے، ذرا غور تو کیجیے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے تو کیا وہ اللہ سے پوچھتے ہیں کہ اس معصوم بیٹے کو ذبح کرنے میں حکمت اور مصلحت کیا ہے؟ ان کے دل میں یہ بات کیوں نہ آئی کہ بھلا بیٹا بھی کوئی ذبح کرتا ہے؟ آخر اس نے جرم ہی کیا کیا ہے؟ یہ سارے سوالات ایک طرف کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب اور مالک کا حکم پورا کرنے کے لیے کمر کس لی، کیوں کہ بیٹا بھی اللہ ہی نے دیا ہے اور حکم بھی اسی کا ہے اور چوں کہ وہ حکیم رب ہے اس لیے اسے حق ہے کہ وہ ایسا حکم دے، بندے کا کام یہی ہے کہ وہ اس کو خوشی خوشی بجا لائے۔

بقولِ شاعر:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا…

اس سے ہر مسلمان کو یہ عظیم سبق مل جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا جو بھی حکم آئے اسے بلا چوں وچرا تسلیم کرلیا جائے چاہے وہ عقل میں آئے یا نہ آئے، چاہے اس میں کوئی مصلحت نظر آئے یا نہ آئے! وہی غلام اور نوکر قابلِ تعریف اور لائقِ انعام ہوتا ہے جو آقا اور مالک کے حکم کے آگے سر جھکا دے اور اس کو اپنی کسی عقلی توجیہ کے پیشِ نظر ترک نہ کرے، بلکہ جو نوکر مالک سے اس کے حکم کی حکمتیں پوچھتا پھرتا ہے تو وہ جلد ہی ملازمت سے نکال باہر کردیا جاتا ہے!
اور یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک محدود عقل کا مالک بندہ اپنے اللہ کے ہر حکم کی حکمت اور مصلحت کب سمجھ سکتا ہے کہ وہ تو اس کی محدود عقل میں آنا ہی مشکل ہوتی ہے، یہ تو ایسا ہے جیسے کہ سونا چاندی تولنے کے ترازو سے لوہا تولنے کی کوشش کی جائے!!

مؤمن کی نظر اللہ تعالیٰ کے حکم پر ہوتی ہے!

مسلمانوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم حکمتوں اور فوائد سے خالی نہیں، وہ حکیم ذات جب کسی کام کے کرنے کا حکم دیتی ہے تو یہ حکم دینا ہی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ کام اپنی ذات میں بے پناہ خوبیاں لیے ہوئے ہے۔ جتنا ہم اس کام کی خوبیوں اور حکمتوں پر غور کرتے جائیں گے اتنا ہی اس کے فوائد کھلتے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں بڑھتی ہوئی محسوس ہوگی، آج سائنس حضور اقدس ﷺ کی سنتوں پر جب تحقیقات کرتی ہے تو ان کے فوائد اور حکمتوں کو دیکھ کر دھنگ رہ جاتی ہے۔
لیکن ایک مسلمان کے لیے یہ ساری حکمتیں اور فوائد ایک ضمنی اور ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کسی حکم کو محض فوائد اور مصلحتوں کی بنیاد پر ہرگز نہیں تسلیم کرتا بلکہ اس کے لیے سب سے بڑی بات یہی ہوتی ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے بس! کیوں کہ محض فوائد اور مصلحتوں کی بنیاد پر حکم کو تسلیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عظمت کا تقاضا نہیں ہوتا، بلکہ اللہ کی عظمت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے کسی حکم پر صرف اس بنیاد پر عمل کیا جائے وہ اس عظیم ذات کا حکم ہے بس! اس کا حکم اپنی ذات ہی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے!

اسلام غریبوں کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے

جہاں تک معاملہ غریب لوگوں کے ساتھ تعاون کا ہے تو دین اسلام ان کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے، اسلام میں غریبوں کے ساتھ زکوۃ، صدقۃ الفطر، کفارات، نفلی صدقات، قربانی اور اس طرح کے دیگر مالی امور میں تعاون کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے، اسی طرح پڑوسیوں سمیت ہر ایک کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کی جو تعلیمات دین اسلام میں موجود ہیں ان کی مثال کسی اور مذہب اور تہذیب میں ہرگز نہیں ملتی، اس لیے جو دینِ اسلام غریبوں کے ساتھ تعاون کا سب سے بڑا خیر خواہ ہو تو اس کے قربانی کے حکم پر یہ اعتراض بالکل ہی بے جا ہے۔ ذیل میں قربانی سے متعلق چند اہم فوائد ذکر کیے جاتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ اگر صرف قربانی ہی پر غور کیا جائے تو اس کے جو فوائد غریبوں کو حاصل ہوتے ہیں ان کا شمار مشکل ہے۔

قربانی کے فوائد

قربانی ایک عظیم عبادت ہے جس کے بہت سے دنیوی اور اخروی فوائد ہیں، جن میں متعدد فوائد ذکر کیے جاتے ہیں، جیسے:
قربانی کے اخروی فوائد
1. قربانی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہوتا ہے۔
2. قربانی کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔
3. قربانی کرنے سے بندے کو آخرت میں عظیم انعامات سے نوازا جائے گا۔

قربانی کے دنیاوی فوائد

قربانی ویسے تو ایک خالص دینی اور اخروی عمل ہے، اس لیے مسلمان اسے اللہ ہی کا حکم سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن اگر اس کے دنیوی فوائد پر غور کیا جائے تو عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں کہ اس کے کس قدر فوائد ہیں، ان فوائد کی ایک جھلک ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
1. قربانی کے لاکھوں جانور فروخت ہوجاتے ہیں جن کا نقد نفع بیوپاروں کو نصیب ہوجاتا ہے۔
2. جانوروں کا چارہ فروخت ہونے کی مد میں ہزاروں خاندانوں کا چولہا جل اٹھتا ہے۔
3. منڈی سے جانور گھروں کو لے کر جانے والے ہزاروں افراد کے لیے بہترین ذریعہ معاش کی صورت نکل آتی ہے۔
4. جانور ذبح کرنے والے لاکھوں قصائیوں کو اچھا خاصہ نفع میسر آجاتا ہے۔
5. ذبح میں استعمال ہونے والے آلات واوزار کی خریدوفروخت کے سلسلے میں ہزاروں لوگوں کا کاروبار چمک جاتا ہے۔
6. پھر کروڑوں غریبوں کو قربانی کا اچھا خاصہ گوشت میسر آتا ہے جو کہ ایک طویل عرصے تک ان کے کام آجاتا ہے۔
7. جانوروں کی ہڈیوں اور چربیوں سے بھی متعدد تجارت کے مواقع میسر آجاتے ہیں۔
8. اس طرح لاکھوں جانوروں کی کھالوں سے لیدر انڈسٹری متحرک ہوجاتی ہے اور اس کی بدولت اور ایک نہ ختم ہونے والا سلسلۂ معاش وجود پاتا ہے جو کہ محتاجِ بیان نہیں۔
9. قربانی کے تمام مراحل میں اربوں کھربوں روپے کا تجارتی سلسلہ وجود پاتا ہے جس سے دنیا بھر میں لاکھوں بلکہ کروڑوں غریب لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
10. اس طرح کے بہت سے فوائد وہ ہیں جن کا براہ راست غریبوں کو فائدہ ملتا ہے۔ کیا اتنے سارے فوائد کسی کو رقم دینے سے وجود پاسکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ قربانی جیسی عبادت جو کہ غریبوں کے لیے کس قدر نفع بخش عبادت ہے اس پر یہ اعتراض کیا کسی طور درست ہوسکتا ہے کہ اس سے غریبوں کو کچھ حاصل نہیں ہوتا؟ ہرگز نہیں، یہ تو درحقیقت اعتراض برائے اعتراض ہی کا معاملہ ھے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں