نظر بد

نظر بد

نظر بد

نظر بد اتارنے کے لیے سر پر کچھ وارنا

خدارا اپنی اصلاح کیجیئے

👈🏻 ہمارے معاشرے میں نظر بد کو دور کرنے کے واسطے نت نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ نظر بد کو دور کرنے کے لیے لوگوں میں ایک طریقہ ھے جسے *”سر وارنا”* کہا جاتا ھے۔ جس کا طریقہ یہ ھے کہ:

1. پہلے کسی کالے بکرے یا کالے مرغے کو ذبحہ کر کے اس کا مخصوص وزن کا گوشت ایک تھیلی میں ڈال لیا جائے۔ پھر اسے اس شخص کے سر کے اوپر لایا جائے جو بیمار ھے (یعنی بد نظری کا شکار ھے)۔ تھیلی کو سر کے گرد پہلے سات مرتبہ دائیں سے بائیں اور پھر سات مرتبہ بائیں سے دائیں گھومائیں (اسی گھومانے کے عمل کو “سر وارنا” کہتے ہیں)۔ اس کے بعد اس تھیلی کو کسی ویران جگہ پر جا کر پھینک دیں یا جانوروں کو ڈال دیں تو اس شخص کی بیماری دور ہو جاتی ھے اور اسے نظر بد سے چھٹکارا مل جاتا ھے جس سے وہ صحت مند ہو جاتا ھے۔

2. دیسی کالی مرغی کے انڈوں کو تھیلی میں ڈال کر متاثر شدہ شخص کے سر پر سے وار کر کسی دیوار میں جا کر انڈوں کو مار کر توڑ دیں تو نظر بد ذائل ہو جاتی ھے.

3. سر پر سے لال مرچوں کو وار کر ان کو جلانے سے نظر دور ہو جاتی ھے.

4. پھٹکری کو سر پر سے وار کر اسے جلائیں اور پھر جلنے کے دوران پھٹکری میں کوئی شکل سی بنے گی، آگ بند کر دیں تو پھٹکری فورا جو شکل اختیار کرے گی وہ اس شخص کی ہو گی جس نے فلاں شخص کو نظر بد لگائی ھے.

یہ ایک غلط سوچ ھے

اَصل:

نظر بد کا لگ جانا برحق ھے اور ہمیں نبی ﷺ نے نظر بد کے برحق ہونے کا اور اس سے نجات اور بچاؤ کا طریقہ بھی بتلایا ھے۔ ہمارے معاشرے میں موجود ایسے طور طریقے جو فقط پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے اندر ہی ملتے ہیں، ان سب کی اصل ہندو دھرم کے عقائد ہیں جن پر نسلوں سے ہم مسلمانوں میں بڑے التزام سے عمل کیا جا رہا ھے۔ مگر ہم ان کی اصل سے ناواقف ہیں کہ آیا ان کی اسلام میں کیا حیثیت ھے یا یہ طریقے کسی مسلمان کی ایجاد ہیں یا پھر کسی اور دھرم کی؟

ہندوانہ عقائد

تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ھے کہ اس طرح کے ٹونے ٹوٹکے درِحقیقت ہم مسلمانوں میں ہندوؤں سے آئے ہیں۔ مزید یہ کہ نہ صرف ہندوؤں سے آئے ہیں بلکہ ہندو دھرم کے عقائد سے بھی جڑے ہیں۔ کچھ چیدہ چیدہ عقائد کا با حوالہ ذکر ذیل میں کیا جا رہا ھے، ملاحظہ ہوں:-

1. سب سے پہلے ایک پھٹکری لیں اور اسے سر کے اوپر سات مرتبہ بائیں جانب کھمائیں۔ پھر پھٹکری کو گرم توے پر رکھ دیں تھوڑی دیر بعد پھٹکری مائع حالت میں آ جائے گی اور تھوڑی دیر بعد ٹھوس شکل اختیار کر لے گی۔ پھٹکری کو اپنے ساتھ لے کر سڑک پر آئیں اور اسے شمالی جانب پھینک دیں۔ پھینکنے کے بعد سیدھا گھر واپس آ جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ اس عمل کو اگر منگل اور ہفتے کے دن کیا جائے تو زیادہ بہتر و مفید ھے

2. کچھ لال مرچیں رائی کے بیچ اور نمک کو اکٹھا کر لیں۔ پھر انھیں بائیں جانب متاثرہ شخص کے سر کے اوپر سات مرتبہ گھمائیں اور پھر اسے آگ میں جلا دیں۔ اگر مرچوں کو جلانے کے دوران اس میں سے مرچوں کی سخت بدبو نہ آئے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اس شخص کو واقعی بہت سخت نظر بد لگی ھے۔

حاصلِ کلام

درج بالا تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ نظر بد اتارنے کے لیے سر پے سے کسی بھی چیز کو *وارنے کا عقیدہ خالصتاً ہندوؤں کا ھے۔* اسی لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے معاملات سے دور رہیں، بلکہ ان کے بجائے ان تعلیمات پر عمل کریں جو قرآن اور حدیث ﷺ سے ثابت ہیں۔ مزید یہ کہ جب مسلمانوں کو نظر بد سے بچنے کے لیے اسلام نے تمام باتیں سکھا دی ہیں تو ہندوانہ ٹونے ٹوٹکوں کو آزمانے کی کیا ضرورت ھے۔ یا تو اسلامی شریعت میں نظر بد سے بچاؤ کے لیے راہنمائی موجود نہ ہوتی تو بغیر شرکیہ ٹونے ٹوٹکوں کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں تھا، جبکہ ہمیں تو نظر بد سے بچاؤ کے لئے تمام باتیں پہلے ہی سکھلا دی گئی ہیں۔

نظر بد سے حفاظت اور اس کا اثر ختم کرنے کے کئی طریقے احادیث مبارکہ سے

1 – سورۂ فاتحہ ، آیتہ الکرسی ، معوذتین اور مندرجہ ذیل دعا پڑھیں :

” أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامة . “

2۔ جس کو نظر بد لگ جائے تو اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قولِ مبارک سے دم کیا جائے :

“بسمِ اللهِ اللَّهُمَّ أَذْهِبْ حَرَّهَا وَبَرَدَهَا وَوَصْبَهَا”.

ترجمہ : اللہ کے نام پر ، اے اللہ تو اس (نظریہ) کے گرم و سرد کو اور دکھ درد کو دور کر دے ۔ اس کے بعد یہ کلمات کے :

“قم باذن الله

ترجمہ : اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا ۔ (حصن حصین)

3۔ نظر بد دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی نظر لگی ہے ، اُسے وضو کرایا جائے اور اُس کے استعمال شدہ پانی کو کسی برتن میں جمع کر لیا جائے اور پھر جسے نظر لگی ہے اس پانی سے اُس کو غسل کرایا جائے ۔ جیسا کہ احادیث مبارکہ میں اس کا طریقہ مذکور ہے ، ذیل میں مشکاۃ شریف سے وہ روایت اور اس کی تشریح نقل کی جاتی ہے :

“حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا نظر بد حق ہے ، یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو ۔ (مسلم)۔

اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے ۔ ” کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے ، اس کا سب سے ادنی فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا ۔ چناں چہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کر لو”۔

نیز دوسری روایت میں ہے

” حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سهل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (میرے والد) سهل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھا (یعنی ستر چھپائے ہوئے ) تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے ) میں نے تو آج کے دن کی طرح کوئی خوب صورت بدن کبھی) نہیں دیکھا ۔ اور پردہ نشین کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک و خوش رنگ) نہیں دیکھی ۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا ) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا ( جیسے ) سہل کو گرا دیا گیا ( یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے، چناں چہ ان کو اٹھا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ “یا رسول اللہ ! آپ سہل کے علاج کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں ؟ اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگاتی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ (جی ہاں) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگاتی ہے ، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے! کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی؟ ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کسے.

بارك اللهُ عَلَيْكَ

” تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کو حکم دیا کہ (تم سہل کے لیے اپنے اعضاء کو) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو ، چناں چہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کولھوں) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا ، اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے، جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا ( شرح السنتہ مؤطا امام مالک)”۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحقیق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کے دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد ماماں پر دھوئے ، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے ، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے ۔

واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل و سمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لاحاصل و لایعنی ھے خود بھی بچیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان ہندوانہ طور طریقوں سے دور رکھی اللّٰه ﷻ ہم سب کو زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کا پیروکار بنا دیں۔ ۔ ۔آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں