Mosaam Garma

موسم گرما سے متعلق شریعت کی تعلیمات

موسم گرما سے متعلق شریعت کی تعلیمات

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت لأولى الألْبَابِ آل عمران : ۱۹۰

ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم تبدیلی میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ تلاوت کے بعد آپ صلی اللہ نے ارشادفرمایا:
اس پر افسوس ہے جو یہ آیت پڑھے اور اس میں غور نہ کرے دن اور رات کے بدل بدل کر آنے سے ہی موسم بنتے ہیں، من جانب اللہ پورے سال میں چار موسم آتے ہیں، سرما، گرما، بہار اور خزاں ، یہ چاروں موسم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں، کہ حضرت انسان اپنی جسمانی ساخت کی مخصوص خصوصیات کی بناء پر کسی ایک موسم میں ہی زندگی بسر نہیں کر سکتا، بلکہ اسے جسمانی نشونما کے لیے الگ الگ موسموں کی ضرورت پڑتی ہے، چنانچہ سال کے چار موسموں میں سے ایک موسم گرما ہے۔ اس میں دن بڑے ہوتے ہیں اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ موسم گرما میں ایک مسلمان کے لیے اللہ عزوجل نے عبرت و موعظت کے چند پہلور کھے ہیں، یہ موسم گرما اپنے اندر پیغام رکھتا ہے اور انسان کو ذات خداوندی کی طرف متوجہ کرتا ہے، موسموں کی تبدیلی میں بھی انسان کے لیے عبرت و موعظت کے عجیب پہلو چھپے ہوئے ہیں، چاند سورج کی قربت اور دوری موسموں کی تبدیلی کی وجہ بنتی ہے، جب سورج کرہ ارضی سے دور ہوجاتا ہے تو سخت سردی پڑتی ہے اور جب یہ کرہ ارض سے قربت اختیار کر لیتا ہے، تو گرمی کی حدت و تمازت ہوتی ہے، یہی چاند سورج ؛ حیات کائنات کے جز ولا زم ہیں ، ان کے بعد و قربت سے گرمی کی شدت اور سردی کی بردوت پیدا کی جاتی ہے۔ دنیا کی یہ گرمی آخرت کی گرمی کا ایک حصہ ہے اس تپش کو سوچتے ہوئے میدان حشر اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ اے میرے رب ! میرے ہی بعض حصے نے میرے بعض حصے کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جوان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے ۔ (صحیح البخاری رقم ۳۲۶۰) لہذا ایک مسلمان کے نزدیک موسم گرما کے وجود میں آنے کے اسباب حقیقی میں سے ایک سبب جہنم کے سانس لیتا ہے۔ گرمی کی شدت کے وقت کیا کرنا چاہیے؟ گرمی کی شدت عروج پر ہو اور کوئی شخص ہزار بار بھی یہ بولے کہ گرمی بہت ہے۔ گرمی بہت ہے، ہائے گرمی ، ہائے گرمی ، وغیرہ وغیر ہ تو سوچیں اس کے یہ کہنے سے موسم ٹھنڈا ہو جائے گا؟ نہیں ہو گا، اس طرح یہ شخص محض اس طرح بولتے رہنے سے موسم کے مضر اثرات سے نہیں بچ پائے گا، یا ایسے موسم میں ہونے والے گنا ہوں اور بے اعتدالیوں سے، دوسروں کی حق تلفیوں سے اپنے کو نہیں بچا سکے گا۔ بلکہ اسے اس دنیا میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی خاطر بہت کچھ کرنا ہو گا ، اپنی حفاظت بھی کرنی ہوگی ، اپنے کو گنا ہوں سے بھی بچانا ہوگا، اپنی عبادات کی نگرانی بھی کرنی ہوگی ، اور دوسروں کو بھی اپنے شر اور انہیں اذیت دینے سے بچانا ہوگا، یعنی: اس طریقے سے آخرت کی گرمی اور سختی سے بچنے کی کوشش بھی خوب سے خوب کرنی ہوگی ۔ اس دن کی گرمی کا تصور کر کے اس سے بچنے کی دعا اور اس سے بچنے والے اعمال کے اندر لگنا چاہیے گرمی میں آنے والے پسینے میں شرابور ہو جانے کے وقت میدان حشر میں ہر ہر شخص کے اپنے گناہوں کے بقدر پسینے میں ڈوبے ہونے کا تصور باندھ کر اس سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے ۔دنیا کی گرمی میں پیاس کی شدت اور گرمی کی وجہ سے حلق کے خشک ہو جانے کے وقت میدان حشر اور جہنم کی پیاس کو سوچ کر، اس وقت اس مہتا جگی سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا: ” جہنم نے موسم گرما ہو یا موسم سرما ؛ سنت نبوی ملالہ پر عمل کرتے ہوئے تین بار اللہ سے جنت کا سوال اور تین بار اللہ سے جہنم سے پناہ مانگنی چاہیے کہ ہمارے اس عمل سے جنت اور دوزخ خود ہمارے لیے دعا گو ہوں گی، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہم نے ارشاد فرمایا:
جواللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے

( اللهم إني أسئلك الجنَّةَ )

تو جنت کہتی ہے: اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کر دے، اور جو تین مرتبہ جنم سے پناہ مانگتا ہے.

اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ

تو جہنم کہتی ہے : اے اللہ ! اس کو جہنم سے نجات دے دے۔ (سنن الترمذی، الرقم ٢٥٧٢) اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ نے قیامت کی گرمی سے بچنے کے لیے ، اور اس دن عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات قسم کے اعمال اختیار کرنے والے خوش نصیبوں کا تذکرہ فرمایا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ان سات افراد میں شامل کر لیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم اللہ نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالی اس دن اپنے ( عرش کے ) سایہ دن اُس کے عرش کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا:
انصاف کرنے والا حاکم .
وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو .
ہر وقت مسجد میں لگار ہے۔
دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہو، اس محبت کی بنیاد پر وہ جمع ہوتے ہوں اور اسی پر جدا ہوتے ہیں
جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں.
وہ انسان جو صدقہ کرے یہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں ۔ (صحیح البخاری) موسم گرما میں اپنی حفاظت کیجیے.

گرمی سے پیدا ہونے والے امراض سے پناہ مانگنا

گرمی کی وجہ سے بخار اور دیگر کئی امراض پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، ان سے حفاظت کے لیے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان سے بچنے کے لیے بھی دعا گو رہنا چاہیے۔بلا وجہ دھوپ میں نہ بیٹھنا: موسم گرما کے ان گنت فائدے ہیں سب سے اہم دھوپ جو کہ پودوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی گرم موسم کی وجہ سے فصلیں اور پھل پکتے ہیں۔ دھوپ کی مدد سے ہمارے جسم میں وٹامن ڈی بنتی ہے جو کہ ہمارے جسم کی صحت کے لیے، ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے بہت مفید ہے، جسم کے بہت سے زہر یلے جراثیم بھی مر جاتے ہیں۔ لیکن بلا وجہ گرمی میں یا دھوپ میں بیٹھنا اچھا عمل نہیں ہے، کیونکہ گرمی جہنم کی تپش سے ہے، لہذا بلا وجہ دھوپ میں بیٹھنا اپنے آپ کو زندگی میں ہی جہنم کی تپش پہنچانے کے مترادف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس گرمی کی وجہ سے بعض بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں، چنانچہ اسلام نے انسان کو تکلیف سے دور رکھنے کے لیے خیر خواہی کے طور پر دھوپ اور گرمی میں بیٹھنے سے منع فرمایا ۔ سائے دار جگہ کی حفاظت کرنا۔ موسم گرما میں چونکہ گرمی سے بچنے کے لیے سایہ دار جگہ تلاش کر کے وہاں آرام کیا جاتا ہے، اس لیے ایسی جگہوں میں قضائے حاجت کرنا، یا گندگی وغیرہ ڈالنالوگوں کو اذیت پہنچانے والا عمل ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہے، احادیث مبارکہ میں ایسے اعمال پر لعنت وارد ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ (سنن ابو داؤد، الرقم : ٢٦) ) گرمی سے بچنے کے لیے سرپر کپڑا رکھنا، حکماء کا قول ہو کہ جس نے اپنے آپ کو بیماری سے محفوظ رکھنا ہو وہ سردی اور گرمی سے اپنے سر اور پاؤں کو بچائے چنانچہ سخت گرمی اور دھوپ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ کے جانثار صحابہ آپ مسلم پرسایہ کرنے کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۱۲۹۸)

موسم گرما میں چھت پر سونا

سخت گرمی میں رات کے وقت گھروں کی چھتوں پر سونے کا معمول ہوتا ہے، بوقت ضرورت ضرور سوئیں لیکن اس وقت جب اس چھت کی منڈیر ہو، ورنہ بغیر منڈیر کی چھت پر سونے سے احادیث مبارکہ میں منع کیا گیا ہے، کہ مبادا رات کو سوتے ہوئے کوئی شمع چلنے کا عادی ہو اور اس طرح سوتے میں چل کر چھت سے نیچے ہی گر کر ہلاک نہ ہو جائے ۔ ( الأدب المفرد، الرقم: ١١٩٤)

موسم گرما میں نہروں، تالابوں میں نہانا

گرمی سے بچنے کی خاطر نو جوانوں کا ایک محبوب مشغلہ نہروں میں نہانا بھی ہوتا ہے ، اگر آپ تیرا کی کے ماہر ہیں، تو کسی چھوٹی نہر میں ایسے وقت میں نہانے میں کوئی حرج نہیں جس وقت میں طغیانی نہ ہو، اور ایسی صورت میں بھی چند امور کا خیال رکھنا ضروریہ ہے ایسالباس پہن کر نہا ئیں جو پورے ستر کو چھپائے ہوئے بھی ہو اور اس میں سے ستر والے اعضاء نمایاں بھی نہ ہوں ۔
والدین کی اجازت یا انہیں اطلاع کیے بغیر نہانے کے لیے نہ جائیں ۔
نہروں میں گہرائی والی جگہوں میں داخل نہ ہوں۔
سوئمنگ پولز اور تالابوں میں نہاتے ہوئے موسیقی وغیرہ لگانے سے بچیں ۔
ایسی جگہ جہاں مردوزن کا مخلوط اجتماع ہو، وہاں نہانا جائز نہیں، بلکہ محض مستورات کا انفرادی طور پر بھی ایسی جگہوں میں نہانا کئی فتنوں کا باعث ہے اور اسلامی مزاج کے خلاف ہے، اس لیے مستورات اکیلی بھی ایسی کھلی جگہوں میں نہانے سے بچیں.

گرمیوں کے لیے موزوں پھل اور سبزیوں کا استعمال

ہر موسم کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، اس طرح ہر موسم کے اپنے ذائقے دار اور رسیلے اور بے شمار خصائص پر مشتمل پھل بھی ہوتے ہیں، موسم گرما میں انسان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بھر پور غذائیت اور لذت کی حامل بہت سی ایسی سبزیاں، اجناس اور پھل پیدا فرماتے ہیں جو اسی موسم کے ساتھ خاص ہوتے ہیں جو گرمی کے موسم میں انسانی وجود کو ٹھنڈک پہنچانے کے ساتھ ساتھ جسم میں موجود زہریلے مواد کو خارج کرتے ہیں اور مختلف قسم کے وٹامنز کی کمی کو بھی پورا کرتے ہیں اور کینسر، ذیا بیطس اور متعدد امراض سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ ( مثلا: موسم گرما کے پھلوں میں آم، تربوز، خربوزہ، آلوچے ، فالسے ، جامن، لیچی، اسٹرابیری، پپیتے اور آڑو قابل ذکر ہیں، ان پھلوں کو گرمیوں کے موسم میں اپنی خوراک کا حصہ بنا کر آپ اس موسم کے مضر نقصانات کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اور موسم گرما کی چند مشہور اور خاص سبزیاں کریلہ، گھیا کدو، کالی توری ،بھنڈی توری، بینگن، ٹماٹر، سبز مرچ ، شملہ مرچ اور کھیراوغیرہ بہت اہم ہیں ۔ ) فوائد اور لذات سے بھر پور ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ؛ ان نعمتوں کے خالق کی تعریف و توصیف کے کلمات ادا کر کے قولا اور عملا بھی شکر گذار ہو، اور اس کی اطاعت وفرماں برداری بجالائے اور کفران نعمت سے بچے۔

بارش میں نہانا

سخت گرمی کے موسم میں اپنے ستر کی حفاظت کرتے ہوئے نہانا بھی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۱۸۹۸:ل١٤٢) موسم گرما میں اپنی عبادات کی حفاظت یجیے.

موسم گرما میں نماز فجر میں سستی

گرمی کے موسم میں دن طویل اور راتیں مختصر ہونے، اور دن بھر کام کی تھکاوٹ کی وجہ سے عشاء کی نماز رہ جانے کااور چھوٹی راتوں میں آرام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے صبح فجر کی نماز کے رہ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ لہذا اپنے ذہن کو تیار کر کے اور تھوڑی ہمت کر کے ان دونوں نمازوں میں باجماعت حاضری کی کوشش کرنی چاہیے۔ حدیث پاک میں بھی ان دونوں نمازوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے اور ان میں شرکت کی
ترغیب دی گئی ہے۔ (صحیح مسلم، الرقم: 1751)

سفرمیں نماز نہ چھوڑ نا

نماز کی توکسی حال میں معافی نہیں ہے، گرمی کی شدت اور سفر، دونوں امور میں ہی انسان اپنے آپ کو مشقت میں پاتا ہے، اس دوران نمازوں کا اہتمام کرنا یقینا بڑی ہمت کی بات ہے، لیکن مضبوط ایمان والے اطاعت خداوندی میں ان مشقتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور ان احوال میں بھی نماز کا اہتمام کرتے ہیں.

گندم کی کٹائی اور عشر

موسم گرما میں گندم کی کٹائی ہوتی ہے، اسی طرح باغات میں کئی قسم کے پھلوں کی فصلیں اس موسم میں تیار ہوتی ہیں ، اس لیے ان مواقع پر اپنی فصلوں کے عشر یا نصف عشر کا اہتمام کرنا بھی ایک نہایت اہم امر شرعی ہے۔ ( عشر اور نصف عشر کے تفصیلی احکام بوقت ضرورت مفتیان کرام سے معلوم کیے جاسکتے ہیں ۔

موسم گرما میں اپنے ستر کی حفاظت کیجیے

موسم گرما میں گرمی کی شدت کی وجہ سے عموماً باریک کپڑے اور بسا اوقات مختصر کپڑے پہنے جاتے ہیں، بالخصوص رات کو سوتے وقت بہت سارے مرد صرف شلوار، بنیان یا تہ بند پرہی اکتفاء کرتے ہیں ، لہذا! گرمی والے ایسے احوال میں لباس کے انتخاب میں ان امور کا خیال کرنا ضروری ہے کہ لباس اتنابار یک نہ ہو کہ اس میں سے جسم کے مخفی اعضاء (مرد کے لیے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک کے اعضاء ) نظر نہ آئیں۔ رات کو سوتے ہوئے تہ بند کے نیچے جانگیہ وغیرہ بھی ضرور پہن لیا جائے۔ اگر ہوا خوری کی وجہ سے کچھ کپڑے اتارنا پڑیں تو اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ شلوار یا تہ بند ناف سے زیادہ نیچے تک نہ ہواور گھٹنوں اور ران کو ننگا نہ کیا جائے۔ بلا عذر ستر کھونا لعنت اترنے کا موجب قرار دیا گیا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، الرقم: ۳۱۲۵) گرمیوں میں بالخصوص نماز فجر کے لیے آتے ہوئے شب باشی والے لباس میں ہی چلے آنا کراہت کا باعث ہے، اس سے بچا جائے۔ تالابوں نہروں اور بارش میں نہاتے ہوئے ہوئے بھی ایسے کپڑوں کا استعمال کیا جائے جن میں جسم نہ چھلکے، اور وہ لباس مکمل ستر کو چھپانے والا بھی ہو۔

موسم گرما میں اپنے آپ کو گنا ہوں سے بچائے

موسم گرما میں جب شب باشی کے لیے اپنی چھت پر جائے تو دیہاتوں وغیرہ میں چونکہ گھروں کی چھتیں ایک دوسرے کے چھتوں کے ساتھ ملی ہوتی ہیں، اور دوسرے گھر والے بھی سونے کے لیے اپنی چھت پر آئے ہوتے ہیں، تو اپنی چھت پر چڑھ کر دوسروں کے گھروں میں جھانکنا، اور ان کی مستورات کو دیکھنا سخت گناہ ہے، اس سے بچنے کی مکمل کوشش کی جائے احادیث میں اس فعل کی سخت نکیر کی گئی ہے۔ (صحیح مسلم، الرقم: ۲۱۵۸) تالابوں میں یا بارش میں نہاتے ہوئے اگر دوسروں نے ایسے باریک کپڑے پہنے ہوں کہ ان کے اعضاء مستورہ ظاہر ہورہے ہوں تو بہت اہتمام سے اپنے آپ کو بدنظری سے بچایا جائے۔ گرمی کی شدت سے بچنے کی خاطر بہت سے لوگ اے سی وغیرہ چلانے کی خاطر بجلی کی چوری کے مرتکب ہو جاتے ہیں، یہ بھی بہت بڑا اور سنگین جرم ہے، اور اس جرم سے معافی بھی آسان نہیں ہے، کہ یہ پوری عوام کا حق تھا جسے یہ خود اکیلا نصب کرنے والا بن گیا۔ موسم گرما میں عموما لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اکثر عوام واپڈا والوں کولعن طعن یا گالیاں دینے میں ملوث نظر آتی ہے، یاد رکھیں کہ یہ ایسا لا یعنی اور گناہ والا فعل ہے کہ دنیا میں تو سوائے اپنے آپ کو ہی ذہنی زور د کوب کرنے کے اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں اور آخرت میں وبال ہی وبال ہے۔ موسم گرما میں مچھروں کی بہتات ہوتی ہے، موذی حشرات الارض کو آگ سے جلا کر مار نامنع ہے، تا ہم بوقت ضرورت مچھروں کو مارنے کے لیے زہریلی دوا اور الیکٹرانک مشین کا استعمال جائز ہے، چونکہ اس میں بجلی ہوتی ہے، آگ نہیں ھوتی، اس لیے ایسے آلے کے استعمال کی گنجائش ہے۔

موسم گرما میں دوسروں کو اذیت دینے سے بچیں

) موسم گرما میں لوگ سایہ دار جگہوں میں بیٹھ کر گرمی کی تپش سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں لیکن بعض ناداں اور جاہل لوگ سایہ دار جگہوں پر بول و براز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں بیٹھنا محال ہو جاتا ہے۔ شرعاً ایسا کرنا سخت ممنوع ہے۔ ) موسم گرما میں پسینہ آنے کی وجہ سے جسم میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے، جس سے پاس بیٹھنے والے شخص کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ احترام کی وجہ سے اس سے اس کی شکایت بھی نہیں کرتا اور بسا اوقات متبادل جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے اٹھ بھی نہیں سکتا، یہ ایذاء مسلم ہے، جو شرعی نقطہ نگاہ سے حرام ہے، چنانچہ ابتداء اسلام میں تو جمعہ کا غسل واجب قرار دیا گیا تھا، پھر بعد میں اس حکم میں تخفیف ہوگئی تھی ، الغرض ! خوب اہتمام سے غسل وغیرہ کے ذریعہ اپنے آپ سے پسینے کی بو کوزائل کیا جائے۔

موسم گرما میں دوسروں کو اذیت دینے سے بچیں

موسم گرما میں لوگ سایہ دار جگہوں میں بیٹھ کر گرمی کی تپش سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں لیکن بعض ناداں اور جاہل لوگ سایہ دار جگہوں پر بول و براز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں بیٹھنا محال ہو جاتا ہے۔ شرعاً ایسا کرنا سخت ممنوع ہے پسینے سے بچنے کی خاطر بسا اوقات انسان خوشبو و عطر کا استعمال کرتا ہے تو ضروری ہے کہ خوشبو یا عطر ایسا ہو جو دوسروں کو تکلیف دینے والا نہ ہو، یعنی بہت تیز نہ ہو، کہ حساس طبیعت والے تیز خوشبو کی وجہ سے تکلیف میں پڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے پاس موجود مزدور طبقہ اور ملازمین بھی گرمی کی شدت کو ہماری طرح ہی محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو رب عزوجل کی تقسیم ہے کہ اس نے ہمیں کام لینے والا، اور انہیں کام کرنے والا بنایا، ان کے آرام، سایہ اور خوراک کا خیال رکھنا بھی شریعت کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔ موسم گرما میں بے زبان جانوروں کو بھی سایہ میں کھڑے کرنا اور بر وقت ان کے دانہ پانی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اجتماعی زندگی میں رہنے والے افراد کے لیے یہ بھی ضروری ہے ان جگہوں میں وقف اشیاء سے دوسروں کو محروم رکھتے ہوئے خودا کیلے ہیں ان اشیاء کا غاصبانہ استعمال نہ کریں ، جیسے: مساجد یا مدارس میں اے سی ، اور پنکھوں کے سامنے خود ہی قبضہ جما کر بیٹھے رہنا وغیرہ بارش کے موسم میں پانی کی وجہ راستوں میں کیچڑ ہوتا ہے، ایسی جگہوں سے سواری پر گزرتے ہوئے بالخصوص دوسروں کو کیچھڑ کی چھینٹوں سے محفوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے، تا کہ ہماری بے احتیاطی کی وجہ سے دوسرا اذیت، تکلیف اور مشقت میں نہ پڑے۔

موسم گرما میں پانی پلانے کا اہتمام کیجے

گرمی کے موسم میں سب سے فرحت بخش اور پر لطف نعمت ٹھنڈا پانی ہے۔ قیامت کے دن نعمتوں میں سب سے پہلا حساب ٹھنڈے پانی کا ہوگا۔ پانی ایک عظیم نعمت ہے، لہذا اس نعمت کا احساس اور اس کا شکر ادا کرنے کے لیے اس موسم میں بڑے پیمانے پر پانی کے صدقے کا اہتمام کریں، جیسے نہر یا کنواں کھدوانا فلٹریشن پلانٹ لگوانا، مساجد و مدارس میں کولر نصب کروانا، بالخصوص جمعہ والے دن بسہولت میٹھے پانی کا بندو بست کرنا وغیرہ۔ اسی طرح چھوٹے پیمانے پر جیسے : مزدوروں، مسافروں، طالبعلموں بلکہ چرند پرند اور جانوروں تک کے لیے گھروں کی چھتوں پر پانی کا انتظام کرنا، اپنی دوکانوں پر عوامی مقامات اور ٹریفک اشاروں پر پانی کا انتظام کرنا وغیرہ۔ یہ بہترین صدقہ جاریہ شمار ہوگا۔ ) پانی پلانا باعث مغفرت ہے۔ (ایک شخص کا کتے کو کنویں سے پانی نکال کر پلانا، اور اس طرح ایک فاحشہ عورت کا پیاسے کتے کو پانی پلانا) امام قرطبی رحم اللہ لکھتے ہیں کہ بعض تابعین سے یہ منقول ہے کہ جس کے گناہ زیادہ ہوں تو وہ لوگوں کو پانی پلائے تحقیق اللہ تعالی نے اس شخص کو معاف کر دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا تو الہ ایسے شخص کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو ایک موحد مؤمن کو پانی پلائے اور اسے زندہ کرے۔ (تفسیر القرطبی 215/7) احادیث میں فوت شدگان کی طرف سے صدقہ و خیرات کے لیے پانی پلانے کی ترغیب موجود ہے۔ (سن النسائی، الرقم: ۳۶۶۶) پانی پلانا ایک ایسی نیکی ہے کہ جس کے باعث انسان کو جسمانی بیماریوں سے بھی شفا حاصل ہوتی ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام العلاء میں ایک واقعہ نقل کیا کہ ایک شخص نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے اپنے گھٹنے کے متعلق سوال کیا جو سات سال سے زخمی تھا اور اس سے خون رس رہا تھا، اس شخص نے کہا: میں کافی اطباء سے علاج کروا چکا ہوں لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا، امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کسی اسی جگہ پر کنواں کھد واؤ جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہے، مجھے امید ہے کہ ادھر پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے گا ادھر تیرے گھٹنے کا خون رک جائے گا۔ پس اس شخص نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کیا اور اس طرح اس کے گھٹنے کا خون رک گیا۔ (سیر اعلام النبلاء: ۴۰۸/۸) گرمی سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی شدید متاثر ہوتے ہیں، اور بعض اوقات پانی نہ ملنے کی وجہ سے جانور مر بھی جاتے ہیں ۔ رسول کریم مبل اللہ کا ارشاد ہے کہ جس نے کوئی کنواں کھدوایا اور اس سے کسی پیاسے انسان، جن یا چرند پرند نے پیا تو اس کا اجر قیامت کے دن اسے ضرور ملے گا۔ ( الترغیب والترہیب، الرقم :۲۷۱)

اپنا تبصرہ بھیجیں