ماہِ ذُو القَعدہ کے فضائل اور اعمال

ماہِ ذُو القَعدہ کے فضائل اور اعمال

ماہِ ذو القعدہ حرمت اور عظمت والا مہینہ ہے

ماہِ ذو القعدہ قمری اسلامی سال کا گیارہواں مہینہ ہے، یہ اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عزت، احترام، فضیلت اور اہمیت عطا فرمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتے ہیں:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِي كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡأَرۡضَ مِنۡهَآ أَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ ۚذٰلِكَ الدِّينُ الۡقَيِّمُۚ (36)

ترجمہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قمری اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے قمری اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینےحرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو

’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘

کہا جاتا ہے، یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جن سے ان چار مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ: ’’زمانہ اب اپنی اُسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا (اس ارشاد سے مشرکین کے ایک غلط نظریے اور طرزِ عمل کی تردید مقصود ہے جس کا ذکر اسی سورتِ توبہ کی آیت نمبر 37 میں موجود ہے۔)،
سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت (، عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں یعنی: ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘

3197- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «اَلزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا: أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ».

’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ کی فضیلت کا نتیجہ اور اس کا تقاضا

ان چار مہینوں (یعنی ذُوالقعدہ، ذُوالحجہ، مُحرم اور رجب) کی عزت وعظمت اور احترام کی بدولت ان میں ادا کی جانے والی عبادات کےاجر وثواب میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ گناہوں کے وبال اور عذاب میں بھی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہینوں میں عبادات کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنےکا بخوبی اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرات اہلِ علم فرماتے ہیں کہ جو شخص ان چار مہینوں میں عبادت کا اہتمام کرتا ہے اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی عبادات کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تو سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوتی ھے۔پہلی آیت میں ارشاد ہے

’’إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا‘‘

اس میں لفظِ عِدَّةَ تعداد کے معنی میں ہے، اور ’’شُھُور‘‘ شَہر کی جمع ہے، ’’شَھر‘‘ کے معنی مہینہ ہے، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ متعین ہے، اس میں کسی کو کمی بیشی کا کوئی اختیار نہیں۔اس کے بعد

’’فِىْ كِتٰبِ اللّٰهِ‘‘

کا لفظ بڑھا کر بتلا دیا کہ یہ بات ازل سے لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی تھی، پھر ’’يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ‘‘ فرما کر اشارہ کردیا کہ قضائے خداوندی اس معاملہ میں اگرچہ ازل میں جاری ہوچکی تھی، لیکن یہ مہینوں کی ترتیب اور تعیین اس وقت عمل میں آئی جب آسمان وزمین پیدا کیے گئے۔
▪ پھر ارشاد فرمایا:

’’مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ‘‘

، یعنی ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا: ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گذاری کا اہتمام اسلام میں بھی باقی ہے۔

حجۃ الوداع کے خطبہ یوم النحر میں رسول کریم ﷺ نے ان مہینوں کی تشریح یہ فرمائی کہ تین مہینے مسلسل ہیں: ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے۔ مگر ماہِ رجب کے معاملہ میں عرب کے دو قول مشہور تھے، بعض قبائل اس مہینہ کو رجب کہتے تھے جس کو ہم رمضان کہتے ہیں، اور قبیلہ مضر کے نزدیک رجب وہ مہینہ تھا جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو رجبِ مضر فرما کر یہ وضاحت بھی فرمادی کہ جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے وہ ماہِ رجب مراد ہے۔

’’ذٰلِكَ الدِّينُ الۡقَيِّمُ‘‘

یہ ہے دینِ مستقیم، یعنی مہینوں کی تعیین اور ترتیب اور ان میں ہر مہینہ خصوصًا

’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘

کے متعلق جو احکام ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے حکمِ ازلی کے مطابق رکھنا ہی دینِ مستقیم ہے، اس میں اپنی طرف سے کمی بیشی اور تغیر و تبدل کرنا کج فہمی اور کج طبعی کی علامت ہے۔

’’فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ أَنْفُسَكُمْ‘‘

یعنی ان مقدس مہینوں میں تم اپنا نقصان نہ کر بیٹھنا کہ ان کے معینہ احکام واحترام کی خلاف ورزی کرو یا ان میں عبادت گذاری میں کوتاہی کرو۔

ماہِ ذو القعدہ کی فضیلت اور حُرمت کا تقاضا

ان چار مہینوں میں سے چوں کہ ذو القعدہ کا مہینہ بھی ہے، اس لیے اس کی عزت واحترام کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس مہینے میں عبادات کی طرف بھرپور توجہ دی جائے اور گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔

ماہِ ذو القعدہ کے عمومی اعمال

ماقبل میں مذکور تفصیل سے ماہِ ذو القعدہ کی عمومی عبادات کی حقیقت اور اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ اس مہینہ کی فضیلت اور اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں گناہوں سے خصوصی طور پر اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ عبادات کا بھی خوب اہتمام کیا جائے۔ یہ عبادات دن میں بھی ادا کی جاسکتی ہیں اور رات میں بھی، اس کے لیے کوئی وقت یا تاریخ خاص نہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص عبادت مقرر ہے، بلکہ ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق پورے مہینے کے شب وروز میں موقع محل کے اعتبار سے جس قدر فرائض، واجبات، سنتوں، مستحبات، نوافل، ذکر وتلاوت، دعاؤں، صدقات، روزوں اور دیگر نیک اعمال کا اہتمام کرسکتا ہے تو یہ بڑی ہی سعادت کی بات ہے۔

📿’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ میں روزے رکھنے کی ترغیب

حضور اقدس ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ: ’’ماہِ رمضان کے روزے رکھو اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھا کرو۔‘‘ ان صحابی نے عرض کیا کہ میرے لیے روزوں میں مزید اضافہ فرمائیے کیوں کہ مجھ میں روزے رکھنے کی طاقت ہے، تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔‘‘ ان صحابی نے پھر عرض کیا کہ میرے لیے روزوں میں مزید اضافہ فرمائیے، تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو۔‘‘ ان صحابی نے پھر عرض کیا کہ میرے لیے روزوں میں مزید اضافہ فرمائیے، تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ میں روزہ رکھ لیا کرو اور چھوڑ بھی دیا کرو۔‘‘ یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی، اور آپ ﷺ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا، ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا۔ یعنی کہ ان مہینوں میں تین دن روزے رکھو پھر تین دن ناغہ کرو اور اسی طرح کرتے رہو۔(سنن أبي داود)
حدیث شریف یہ ہے

2430- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِىِّ عَنْ أَبِى السَّلِيلِ عَنْ مُجِيبَةَ الْبَاهِلِيَّةِ عَنْ أَبِيهَا أَوْ عَمِّهَا أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ ﷺ ثُمَّ انْطَلَقَ فَأَتَاهُ بَعْدَ سَنَةٍ وَقَدْ تَغَيَّرَتْ حَالَتُهُ وَهَيْئَتُهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمَا تَعْرِفُنِى؟ قَالَ: «وَمَنْ أَنْتَ؟» قَالَ: أَنَا الْبَاهِلِىُّ الَّذِى جِئْتُكَ عَامَ الأَوَّلِ. قَالَ: «فَمَا غَيَّرَكَ وَقَدْ كُنْتَ حَسَنَ الْهَيْئَةِ؟» قَالَ: مَا أَكَلْتُ طَعَامًا إِلَّا بِلَيْلٍ مُنْذُ فَارَقْتُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لِمَ عَذَّبْتَ نَفْسَكَ؟» ثُمَّ قَالَ: «صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ وَيَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ». قَالَ: زِدْنِى؛ فَإِنَّ بِى قُوَّةً. قَالَ: «صُمْ يَوْمَيْنِ». قَالَ: زِدْنِى. قَالَ: «صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ». قَالَ: زِدْنِى. قَالَ: «صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ، صُمْ مِنَ الْحُرُمِ وَاتْرُكْ». وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثَةِ فَضَمَّهَا ثُمَّ أَرْسَلَهَ:

بعض صحابہ کرام وتابعین عظام سے ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ میں روزے رکھنےکا ثبوت

1. حضرت سالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘

میں روزے رکھا کرتے تھے

مصنف عبد الرزاق میں ہے
7856- عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن سالم:

أن ابن عمر كان يصوم أشهر الحرم.

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

9316- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَسَارٍ وَسَلِيطٍ أَخِيهِ قَالا: كَانَ ابْنُ عُمَرَ بِمَكَّةَ يَصُومُ أَشْهُرَ الْحُرُمِ.

حضرت یونس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ

’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘

میں روزے رکھا کرتے تھے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

9315- حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ أَشْهُرَ الْحُرُمِ.

چوں کہ

’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘

میں ماہِ ذو القعدہ بھی داخل ہے اس لیے ان روایات سے ماہِ ذو القعدہ میں بھی روزے رکھنے کی ترغیب معلوم ہوجاتی ہے۔

ماہِ ذو القعدہ حج کا مہینہ ہے

ماہِ ذو القعدہ کی فضیلت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ حج کے مہینوں میں سے ہے جن کو ’’اَشہُرِحَج‘‘ کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حج کے مہینے تین ہیں: شوال، ذو القعدہ اور ذو الحجہ، ۔
:
5329- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي قَوْلِهِ: «الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ» [البقرة: 197] قَالَ: «شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ».
رَوَاهُ الطبرانی

وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: أَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ. صحيح البخاري

اپنا تبصرہ بھیجیں