
وطن سے محبت کا اسلام کا تصور
وطن سے محبت کا اسلام کا تصور
انسان کیا حیوان بھی جس سرزمین میں پیدا ہوتا ہے، اُس سے محبت و انس اس کی فطرت میں ہوتی ہے۔ چرند، پرند، در ندحتی کہ چیونٹی جیسی چھوٹی بڑی کسی چیز کو لے لیجئے، ہر ایک کے دل میں اپنے مسکن اور وطن سے بے پناہ انس ہوتا ہے۔ ہر جاندار صبح سویرے اٹھ کر روزی پانی کی تلاش میں زمین میں گھوم پھر کر شام ڈھلتے ہی اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتا ہے۔ ان بے عقل حیوانات کو کس نے بتایا کہ ان کا ایک گھر ہے ، ماں باپ اور اولاد ہے، کوئی خاندان ہے؟ اپنے گھر کے درودیوار، زمین اور ماحول سے صرف حضرت انسان کو ہی نہیں بلکہ حیوانات کو بھی الفت ومحبت ہو جاتی ہے۔ تو جیسے غیر شعور جانوروں کو بھی اپنی زمین کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے، اس سے کہیں بڑھ کر انسان بھی جہاں رہتا ہے، اسے اس زمین، ملک اور وطن کے ساتھ الفت ہو جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے ہاں افراط و تفریط پایا جاتا ہے۔ کچھ تو بالکل ہی وطن سے محبت کو جائز نہیں قرار دیتے اور کچھ کے ہاں سب سے بڑھ وطن کی محبت ہوتی ہے۔
وطن سے محبت قرآن مجید کی روشنی میں
آزاد وطن ملنے پر شکر الہی کی ترغیب
انسان کو ہر حال ہی میں رب تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنے کا حکم ہے۔ مگر رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں بطورِ خاص لوگوں کو وطن ملنے پر اللہ کا شکر یہ ادا کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ رب تعالی کا فرمان ہے:
وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَا وَكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيْبَتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (الأنفال: 26)
اور ( وہ وقت یاد کرو) جب تم ( کی زندگی میں عدداً ) تھوڑے تھے ملک میں دبے ہوئے تھے۔ تم اس بات سے ( بھی ) خوفزدہ رہتے تھے کہ (طاقتور ) لوگ تمہیں اچک لیں گے۔ پس (ہجرت مدینہ کے بعد ) اس (اللہ ) نے تمہیں ( آزاد اور محفوظ ٹھکانا ( وطن ) عطا فرما دیا اور تمہیں اپنی مدد سے قوت بخش دی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا فرمادی تا کہ تم اللہ کی بھر پور بندگی کے ذریعے اس کا ) شکر بجالا سکوں مہاجر صحابہ کرام کا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا اللہ کو پسند آیا۔
چونکہ وطن اور اپنے علاقہ سے محبت ایک فطری محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مہاجر صحابہ کرام بھی نہ ہم جو اپنے وطن کو چھوڑ کر رسول اللہ سی ایم کے پاس مدینہ منورہ چلے گئے۔ اللہ نے ان کی اس قربانی کی قدر کی اور ان کی تعریف میں قرآن مجید نازل فرما دیا
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحشر: 8)
فی کا مال ) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی بچے لوگ ہیں۔
قرآن مجید میں جان اور وطن کی قربانی کا ایک ساتھ تذکرہ
اپنے وطن اور اس کی مٹی سے پیار اور محبت کرنا ایک فطری عمل ہے اور اسلام نے بھی اس فطری عمل کو برقرار رکھا ہے۔ اس بات کا اندازہ قرآن مجید میں موجود کئی مقامات سے لگایا جا سکتا ہے۔ قرآن مقدس میں اللہ تعالی نے اپنی جانوں کی محبت کو وطن کی محبت کے ساتھ ملا دیا ہے یعنی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان جس طرح اپنی جان سے محبت کرتا ہے اسی طرح وطن سے بھی محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِ كُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا (النسا: 66)
اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں ( یعنی وطن ) سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ بجالاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور بہت زیادہ مضبوطی والا ہو۔ اس آیت سے پتا چلا کہ وطن سے محبت انسان کے دل میں بہت ہی زیادہ ہوتی ہے اور انسان اس کے چھوڑنے کو پسند نہیں کرتا ۔
انسان کا وطن سے محبت کرنا
قرآن مجید میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالَ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِي اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبة :24)
(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے ( بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے ( دیگر ) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے ( محنت سے ) کمائے اور تجارت دکاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (سالی ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (عذاب) لے آئے ، اور اللہ نا فرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ اللہ تعالٰی نے یہاں محبت وطن کی نفی نہیں فرمائی صرف وطن کی محبت کو اللہ اور رسول اور جہاد پر ترجیح دینے سے منع فرمایا ہے۔ لہذا اس آیت سے بھی وطن سے محبت کا شرعی جواز ملتا ہے۔
وطن پر قابض ظالموں سے اپنا وطن بچانے پر جہاد کا حکم
یہ بھی اپنے ملک سے محبت والفت کی علامت ہے کہ اگر دشمن ہمارے ملک پر ناحق قبضہ کرلے تو دشمن سے اپنے ملک کو لینے کے لیے ان سے جہاد کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا موسی علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنی مقبوضہ سرزمین میں داخل ہونے اور قابض ظالموں سے اپنا وطن آزاد کروانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
يَقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتى كَتَبَ الله لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خسرين (المائدة: (21)
اے میری قوم! ( ملک شام یا بیت المقدس کی ) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے نہ پلنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ کے بعد بنی اسرائیل جب اپنی کرتوتوں کے باعث ذلت و غلامی کے طوق پہنے بے وطن ہوئے تو ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے نبی یوشع علیہ اسے کہنے لگے کہ ہمارے لئے کوئی حاکم یا کمانڈر مقرر کر دیں جس کے ماتحت ہو کے ہم اپنے دشمنوں سے جہاد کریں اور اپنا وطن آزاد کروائیں۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ایسا تو نہیں ہو گا کہ تم پر جہاد فرض کر دیا جائے اور تم نہ لڑو؟ اس پر وہ کہنے لگے:
مَا لَنا أَلَّا نَقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَقَدْ أخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَاطُ فَلَمَّا كُتِبَ۔۔۔
محبوب شہر کی آبادکاری کے لیے اولا د کو مکہ میں چھوڑنا
! سیدنا ابراہیم علیہم کا اپنی اولاد کو مکہ مکرمہ میں چھوڑنے کا مقصد بھی اپنے محبوب شہر کی آبادکاری تھا۔ انہوں نے بارگاہ الہ میں عرض کی:
رَبَّنَا إِلَى أَسْكُنتُ مِنْ ذُريَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ وَارْزُقُهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (إبراهيم، 14 : 37)
اے ہمارے رب ! بے شک میں نے اپنی اولاد ( اسماعیل علیہ ) کو ( ملکہ کی ) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اسے ہمارے رب ! تا کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے ) پھلوں کا رزق عطا فرما، تا کہ وہ شکر بجالاتے رہیں.
وطن سے محبت کرتے ہوئے امن و امان کی دعا کرنا
انسان جس ملک میں رہتا ہے، اس ملک سے قلبی لگاؤ ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان پھر اس کی سالمیت کے لیے رب کے حضور دعائیں کرتا رہتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہا کا شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرنا در حقیقت اس حرمت والے شہر سے محبت کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَيَنِي أَنْ تَعْبُدَ الْأَصْنَام(إبراهيم: 35)
اور (یاد کیجیے ) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے رب ! اس شہر ( مکہ ) کو جائے امن بنادے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچالے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے وطن مدینہ منورہ کے لیے کئی بار رب تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔
وطن سے محبت احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
احادیث مبارکہ میں بھی اپنے وطن سے محبت کی واضح نظائر ملتی ہیں، جن سے محبت وطن کی مشروعیت اور جواز کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔
امن اومان والا وطن نعمت الہی
یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان اپنے وطن کے اندر آرام ، سکون اور اطمینان کے ساتھ زندگی گزارے اور ملک میں امن سے ہو ۔ جیسا کہ رسول اللہ سلیم نے فرمایا:
مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافَى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لهُ الدُّنْيَا
تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی۔ سن الترمذی: 2346، قال الألباني حسن.
کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟ چونکہ رسول اللہ اپنے وطن مکہ مکرمہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدہ خدیجہ رض آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔ ورقہ بن نوفل نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے کیا دیکھا ہے؟ تو رسول اللہ سلیم نے غار میں جود دیکھا تھا وہ بیان فرمادیا۔ اس پر ورقہ بن نوفل کہنے لگے :
هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيَّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ )
ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہم پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جو ان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ تو رسول اللہ صلی علیم نے بڑے تعجب سے سوال کیا:
أو مخرجي هم؟
کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟ اس پر ورقہ بن نوفل کہنے لگے :
نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِي، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا
۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ صحیح مسلم: 160 ، صحيح البخاري: 3
اس روایت کے تحت امام سہیلی لکھتے ہیں
فَفِي هَذَا دَلِيلٌ عَلَى حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَى النَّفْسِ
اس میں آپ سلام کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ کا لیڈر پر کتنی شاق تھی . (الروض الأنف للسهيلي 414413:1)
مکہ! اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا
وطن سے محبت کی بہت بڑی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود مکہ مکرمہ سے والہانہ محبت ہے۔ یہی وجہ ہے جب آپ سرا کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا تو آپ سا لیہہ نے مکہ کی محبت میں کہا کہ میرا دل نہیں کرتا کہ تمہیں چھوڑ دوں ۔ چنانچہ سید نا ابن عباس پیشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے فرمایا:
مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلْدَةٍ وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكَ، مَا سَكَنَتُ غيرك
تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا عزیز ہے اگر مجھے میری قوم یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔
صحیح ابن حیان: 3709، قال الألباني: صحيح لغيره
یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتا اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس مدینہ آنے کے لیے سواری کو تیز بھگانا
سفر سے واپسی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے وطن میں داخل ہونے کے لئے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے ، جیسا کہ سیدنا انس رض بیان کرتے ہیں :
أن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ المَدِينَةِ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُيَّهَا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے ، اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔ (صحيح البخاري: 1886)
مدینہ کی محبت میں آپ کا اللہ کے سواری تیز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ سی ایم کا وطن ہے، اور اس میں آپ کے اہل وعیال تھے جو آپ کو لوگوں میں سب سے محبوب تھے، اور جہاں انسان کے گھر والے ہوتے ہیں اس وطن سے قدرتی طور پر محبت کا ہونا اور وہاں لوٹ کر آنے پر خوش ہونا فطری عمل ہے، اور آپ علیہ السلام کے اس عمل میں بہترین نمونہ ہے، اور آپ ﷺ نے امت کو سفرختم ہونے کے بعد جلدی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹنے کی تعلیم دی ھے۔)
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے وطن کے لیے اللہ سے دعائیں مانگتے
سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں: میں رسول اللہ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تا کہ آپ علم کی خدمت کرتا رہوں۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ کو احد پہاڑ نظر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَتُحِبُّهُ
یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے دست مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَحَرِّمُ مَا بَيْنَ لأَبَتيها كَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا ومدنا
اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بنا تا ہوں جیسے ابراہیم علیہا نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مذ میں برکت عطا فرما۔ (صحيح البخاري: 2889) یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں نبی اکرم نکال لی ہم اپنے وطن مدینہ منورہ کی خیر و برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔
سید نا بلال حبشی رض کا اپنے وطن کو یاد کر کے اشعار پڑھنا
کئی صحابہ کرام رض سے وطن کی محبت منقول ہے جیسا کہ سیدنا بلال جب مدینہ منورہ آئے تو اپنے اصلی وطن مکہ کو یاد کرتے اور اشعار پڑھتے تھے:
أَلا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبيتَن لَيْلَةٌ … بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَتْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ … وَهَلْ يَبْدُونْ لي شَامَةٌ وَطَفِيلُ
اے کاش! کیا میں مکہ کی اذخر اور جلیل گاس والی وادیوں میں رات گزارونگا ؟ کیا میں کسی دن مکہ میں موجود مجنہ پانیوں کے پاس جا سکوں گا؟ کیا میرے لیے دوبارہ مکہ کے شامہ اور طفیل پہاڑ جلوہ افروز ہونگے ۔؟
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلال رض کی اس کیفیت کے بارے میں آگاہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی:
اللهم حبب إلَيْنَا المَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ، أَوْ أَشَدَّ
اے اللہ جس طرح ہماری (اپنے وطن مکہ ) کے ساتھ محبت ہے اسی طرح ہماری دلوں میں مدینہ کی محبت کو بھی بٹھا دے یا اُس سے بھی زیادہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت کو ڈال دے۔ (صحيح البخاری: 3926)
حب الوطنی کے عملی تقاضے
وطن سے محبت کرنا فطری عمل ہے، وطن سے محبت ہو جاتی ہے، اس میں کوئی گناہ والا معاملہ نہیں۔ البتہ گناہ یہ ہے کہ صرف وطن کی محبت ہی کو سارا کچھ سمجھ لیا جائے ، وطن کی محبت ہمیں اسلام اور اہل اسلام سے بھی بڑھ کر ہو جائے ، وطن کی محبت میں آکر فواحش کا ارتکاب کرنا شروع کردیں، وطن کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہوئے چودہ اگست وغیرہ کے دن موسیقی سننا، رقص وسرور کی محافل کا انعقاد کرنا اور اللہ کی حدود کو پامال کرنا۔ اگر ہمیں واقعی اپنے وطن کے ساتھ محبت ہے تو اس محبت کا اظہار ان چند اعمال سے کیجئے :
شکر باری تعالی
حب الوطنی کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم چودہ اگست کو ڈانس کریں محفل موسیقی منعقد کریں، عورتوں کو روڈ اور راستوں پر بے پردہ حالت میں پیش کریں، اور وہ کام کریں جن سے اللہ ناراض ہو، بلکہ ایک ایمان والے کی ذمہ داری ہے اس وطن کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے جیسا کہ رسول اللہ سلیم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا تھا:
لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَلْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ
اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا ، اپنے بندے کی مدد کی اور تمام دشمنوں کو اس اکیلے اللہ نے شکست دی صحیح مسلم : 1218
اس موقع پر اللہ تعالی کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی آٹھ رکعات نماز بھی ادا کی۔ وطن میں نفاذ اسلام کی بھر پور کوشش کیجئے: حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس ملک میں قرآن وسنت کے نفاذ کے لئے مخلصانہ کوشش کریں اور حقیقی معنی میں اس ملک کو مدنی فلاحی ریاست بنائیں کیونکہ کہ اس ملک کے لیے اس سے بڑی کوئی اور خیر خواہی نہیں ہوسکتی ،
وطن کے قوانین کی پاسداری
حب الوطنی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہم تمام ان ملکی قوانین کی پاسداری کریں جو ہماری شریعت کے مخالف نہ ہوں، حکمرانوں کا احترام کریں، اور اپنے ملک کی ترقی، خوشحالی اور بقاء کے لیے اللہ سے ہر وقت دعا گور ہیں اور اس کے لیے کوشش و محنت کریں، اور اس ملک کی افواج اور سپاہ جو ہماری ملک کی سرحدوں پر موسم سرما اور گرما میں جان کی پرواہ کیے بغیر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کے لئے بالخصوص دعا میں کریں ، اسی طرح اپنے حکمرانوں کی اصلاح کے لئے دعا گور ہیں۔
اہل وطن سے محبت کیجئے
وطن سے محبت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس وطن میں رہنے والے تمام مسلمانوں سے بھی محبت کریں ، ان کو اپنا بھائی سمجھیں ، ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں ، بالخصوص ملک کے غریب اور نادار افراد کی ضرور مدد کریں۔
ملک و قوم کی سالمیت کی ہمیشہ دعا کرتے رہیں
رسول اللہ علیم نے وطن سے محبت کا ایک طریقہ ہمیں یہ بھی سکھایا ہے کہ اپنے وطن کے لیے اللہ کے حضور دعائیں کرتے رہا کریں۔ اپنے وطن کے شہیدوں کے لیے دعائیں، جن کی محنتوں سے یہ ملک ہمیں میسر آیا، ملک کے حکمرانوں سمیت تمام عوام کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ کے ہاں دعائیں کریں۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو