اخلاق حسنہ کی اہمیت و عظمت

اخلاق حسنہ کی اہمیت و عظمت

اخلاق حسنہ کی اہمیت و عظمت

انسانی اخلاق کیا ہے اور زندگی میں ان کی اہمیت کیا ہے؟ یہ مسئلہ زندگی کے بنیادی مسائل میں سے ہے اخلاق کی حیثیت اور اہمیت کو مختصر ترین الفاظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اخلاق دراصل زندگی کے طریقے سلیقے اور قرینے کا نام ہے اور اس طریقے کا تعین اور اس سلیقے اور قرینے کا حصول ہی دراصل اخلاقیات کا حقیقی موضوع ہے.
یہ بات بھی اپنی جگہ واضح طور پر ہے کہ اخلاق اور فلسفہ اخلاق کا گہرا تعلق خود انسان کے تصور زندگی کے ساتھ ہے زندگی کا مادی تصور ایک مختلف فلسفہ اخلاق اور جداگانہ نظام اخلاق تجویز کرتا ہے جبکہ زندگی کا روحانی تصور اپنے ایک مخصوص فلسفہ اخلاق کے تحت ایک بالکل مختلف نظام کی تشکیل کو لازم کرتا ہے.

انسان کے اخلاق اسلام کے نقطہ نظر سے

اسلام کے نزدیک اس کائنات اور انسان کی تخلیق اللہ تعالی نے کی ہے اور اس تخلیق کا مقصد اس امر میں انسان کی ازمائش ہےکہ وہ اس عارضی مہلت حیات میں حسن عمل کا مظاہرہ کرتا ہے یا بد عملی کا- حسن عمل کا صلہ موت کے بعد اور ابدی زندگی کی ابدی نعمتیں ہیں اور بد عملی کی سزا ایک ہمیشہ رہنے والی حیات عذاب ہے اسلام کے عطا کردہ اس تصور حیات کی رو سے انسان کا اصل اخلاقی مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیرت و کردار کا سکون سا ایسا اسلوب اختیار کرے جو اس کے مقصد زندگی کی تکمیل میں ممدو معاون ہو سکے اور کردار و عمل کے وہ کون سے پہلو ہیں جو اس مقصد کی تکلیف میں مانع ہوتے ہیں اور ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے-
اگر غور سے دیکھا جائے تو انسان دراصل اپنے پورے کارخانہ حیات کے ذریعے سے اپنی ایک شخصیت کی تعمیر کرتا ہے اس کا ہر انداز فکر اور ہر طریقے عمل دراصل ایک اخلاقی سامان تعمیر ہے جس سے وہ اپنی شخصیت کی عمارت تیار کرتا ہے اس کی اس شخصیت کے حسن و قبح کو دیکھ کر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی تعمیر میں مسالہ حسن عمل کا استعمال ہوا ہے یا بد عملی کا- اس کی بنیاد صالح افکار اور پاکیزہ اعمال پر قائم ہوئی ہے یا فاسد افکار اور برے اعمال پر رکھی گئی ہے اگر یہ دیکھنا ہو کہ حیات اخروی میں کسی انسان کو کیا مقام حاصل ہونے والا ہے تو اس کے اس شخصیت کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی یہ شخصیت بول کر کہے گی کہ اخرت میں اس کی جائے اقامت کہاں ہونی چاہیے ایا اس کو کوئی پاکیزہ اور شاندار مسکن میسر انا چاہیے یا کوئی مقام بد اس کا ٹھکانہ بنانا چاہیے قران پاک کی بعض ایات اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قیامت کے روز ہر شخص اس شخصیت کے ساتھ اٹھے گا جس کے ساتھ وہ اس دنیا سے رخصت ہوا ظاہر ہے کہ اس شخصیت سے مراد کسی شخص کا وہ دنیاوی مقام و مرتبہ نہیں ہے جو اس مادی دنیا میں اسے میسر ہے بلکہ اس سے مراد وہ اخلاقی حیثیت ہے جس پر قائم رہ کر اس نے دنیا میں زندگی گزاری اور اپنی حیثیت کے ساتھ اس کا دفتر عمل تمام ہوا اس لیے ہم سے اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو خوب اچھی طرح یہ سوچ کر اندازہ کر لینا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں اپنے افکار و اعمال سے اپنی شخصیت کی کس قدر عمارت تعمیر کر رہے ہیں اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم اخلاق فاضلہ کا فہم و شعور حاصل کریں اور اپنی شخصیت میں ان کو اجاگر کرنے جدو جہد کریں اور اسی طرح اخلاق سیئہ سے اگاہ ہو کر ان سے ہر ممکن اجتناب کریں.

دین اور اخلاق

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ اخلاق دراصل زندگی کے طریقے سلیقے اور قرینے کا نام ہے اور اسی کی تعلیم و تربیت درحقیقت دین حقیقی کا مقصود ہے یعنی انسان کو اس کے مقصد حیات سے اگاہ کر کے اس کے تقاضوں سے روشناس کرانا اور ان کی تکمیل کے قابل بنانا چنانچہ ہمارے نزدیک حقیقی اخلاق وہی ہیں جن کی تعلیم و ہدایت ہمیں دین کے واسطے سے حاصل ہوئی ہے ہمیں زندگی کا وہی سلیقہ اور قرینہ مطلوب ہے جو خدا نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں سکھایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں-
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کے بارے میں قران مجید کی شہادت یہ ہے کہ: بے شک اپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں-
ان فرامین کی روشنی میں اب ہم میں سے ہر ایک کو صرف یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کن اخلاق حسنہ کی تعلیم فرمائی ہے اور کن برے اخلاق سے اگاہ کر کے ان سے اجتناب کی تاکید کی ہے تاکہ انسان کی اخلاقی اصلاح و تہذیب کے ربانی اصول و معیار ہمارے سامنے واضح ہو کر ا سکیں-

حسن خلق کیا ہے

حضرت نواز بن سمعان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ:نیکی اخلاق کو کردار کی اچھائی کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں خلش پیدا کرے اور تو اس بات کو ناپسند کرے کہ لوگ اس سے اگاہ ہوں-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا وہ کیا چیز ہے جو کثرت سے لوگوں کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنے گی؟ تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا خوفی اور حسن خلق پھر عرض کیا گیا وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو کثرت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی فرمایا منہ اور شرمگاہ کی عدم حفاظت- ترمذی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے:
مومنوں میں سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں- ترمذی
مندرجہ بالا ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی اچھائی دراصل ایمان کی پختگی اور خدا خوفی کا ثمرہ ہے اور دراصل دونوں ایک دوسرے کو مستلزم ہیں ایمان کے بغیر اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی اچھائی کے بغیر خدا ترسی اور خدا خوفی کا تصور بے معنی ہے اسی حسن خلق کی بدولت مومن کو اطمینان قلب کی عظیم نعمت حاصل ہوتی ہے اور اس کا یہی اطمینان قلب اس کو سیرت و کردار کی وہ عظمت عطا کرتا ہے کہ اس کے بعد نفس کی کوئی ترغیب شیطان کی کوئی تحریک دنیا کی کوئی تحریر اور اقتدار باطل کی کوئی تخویف اس کو راہ راست سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.
ایک مومن جہاں مصارف زندگی میں کردار کی عظمت و سلامت کا مظاہرہ کرتا ہے وہیں وہ اہل ایمان کے درمیان محبت اور رافت کا ایک پیکر ہوتا ہے اس کی گفتگو اس کی نشست و برخاست اس کی چال ڈھال اور اس کی باہمی میل جول ایک خاص قسم کے حسن و لطافت کا ائینہ دار ہوتا ہے قران کریم میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان ان الفاظ میں بیان کی گئی
وہ کفار پر سخت اور اپس میں رحیم ہیں- الفتح
مندرجہ بالات وضحات اس امر کے اسباب کے لیے کافی ہیں کہ ہر قسم کی نیکی اور اخلاقی عظمت دراصل حسن خلق ہی کی تعریف ہے.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ اخلاق میں فاضلہ

خندہ پیشانی سے ملنا اور سلام سے گفتگو کا اغاز کرنا

اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں یہ چیز ایک اصولی اہمیت رکھتی ہے کہ نیکی کا کوئی کام حقیر نہیں ہے خواہ بظاہر ہو کیسا ہی معلوم کیوں نہ ہو اور بدی کا کوئی کام معمولی نہیں ہے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
کسی نیکی کے کام کو حقیر مت سمجھو خواہ وہ یہ ہی کیوں نہ ہو کہ تم اپنے بھائی کو ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو- مسلم
اسی طرح سلام سے اغاز ملاقات و گفتگو کا حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ:
اپنے درمیان سلام کو عام کرو- مسلم
مراد یہ ہے کہ اہل ایمان جب بھی اپس میں ملے باہمی سلامتی اور ایک دوسرے کے حق میں اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں کی دعا کرتے ہوئے ملیں-
یہ خوش اخلاقی حسن معاشرت کا نقطہ اغاز ہے بہت سے تعلقات اسی وجہ سے کشیدہ یا ختم ہو جاتے ہیں کہ افراد کے اندر خوش خلقی کا جوہر کم ہوتا ہے یا اس کا مظاہرہ کرنے میں بخل سے کام لیا جاتا ہے چونکہ اہل ایمان ایک ایسی جماعت ہے جس کی باہمی تنظیم و استحکام غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اس لیے عام ملاقاتوں اور روزمرہ کے بے تکلف گفتگو کو بھی ایک خاص طریقے اور شائستگی کے قالب میں ڈھال دینا ضروری سمجھا گیا اور جہاں خوشگوار تعلقات کی استواری کے لیے بعض بڑی بڑی ہدایات دی گئیں وہاں اس بظاہر چھوٹی سی بات کی تعلیم کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا کہ اہل ایمان کا رسمی میل جول بھی کس کیفیت اور کس شان کا حامل ہونا چاہیے-

اپنا تبصرہ بھیجیں