The Reality and Virtue of the Days of the Month of Rajab

استاد کا ادب

استاد کا ادب

درحقیقت استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے۔ امیرالمؤمنین علی المرتضى كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ الْكَرِيمِ فرماتے ہیں:

(أَنَا عَبْدُ مَنْ علمنی حرفا وَاحِدًا إِنْ شَاءَ بَاعَ وَإِنْ شَاءَ اعْتَقَ وَإِنْ شَاءَ اسْتَرَقَ)

یعنی: جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کر دے، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔
بے شک جس نے تجھے دینی ضروریات میں سے ایک حرف بھی سکھایا وہ شخص تمہارا دینی باپ ہے۔ استاذ کی عزت و تکریم میں یہ باتیں بھی شامل ہیں کہ طالب علم کو چاہیے کہ کبھی استاذ کے آگے نہ چلے۔
نہ اس کی نشست گاہ پر بیٹھے ۔
نہ تو بغیر اجازت کلام میں ابتدا اور نہ ہی بغیر اجازت استاذ کے سامنے زیادہ کلام کرے۔
جب وہ پریشان ہو تو کوئی سوال نہ کرے بلکہ وقت کا لحاظ رکھے اور نہ ہی استاذ کے دروازے کو کھٹکھٹائے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ صبر سے کام لے اور استاذ کے باہر آنے کا انتظار کرے۔
الغرض طالب علم کو چاہیے کہ ہر وقت استاذ کی رضا کو پیش نظر رکھے اور اس کی ناراضی سے بچے اور اللہ عزوجل کی نافرمانی والے کاموں کے علاوہ ہر معاملہ میں استاذ کے حکم کی تعمیل کرے کیونکہ اللہ عز و جل کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری جائز نہیں جیسا کہ حضور نبی گریم ، رؤوف رحیم صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْ يُذْهِبُ دِينَهُ لِدُنْيَا غَيْرِهِ ۔

یعنی : لوگوں میں سے بدترین شخص وہ ہے جو کسی کی دنیا سنوارتے سنوارتے اپنے دین کو برباد کر ڈالے. استاذ کی اولا داور اس کے رشتہ داروں کی تعظیم و تو قیر بھی استاذ ہی کی تعظیم و توقیر کا ایک حصہ ہے.
ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے لڑکے کو امام اللغة اصمعی کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے بھیجا ایک دن ہارون الرشید نے دیکھا کہ اصمعی وضو میں اپنا پیر دھور ہے ہیں اور خلیفہ کا لڑ کا پانی ڈال رہا ہے یہ دیکھ کر خلیفہ نے اصمعی سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے لڑکے کو آپ کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ آپ اسے علم و ادب سکھائیں پھر آپ نے وضو کرتے وقت اسے ایک ہاتھ سے پانی ڈالنے اور دوسرے ہاتھ سے پاؤں دھونے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ اور ہر وہ طالب علم جو زمانہ طلب علمی میں استاد کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے علم کے زیور سے آراستہ ہو تو تب ہی معاشرے میں درست راہ کی شمع روشن کر سکتا ہے، اور یہی مطلب ہے باادب با نصیب کا“

اپنا تبصرہ بھیجیں