قربانی کس پر واجب ہے؟ 1

مسائلِ قربانی

مسائلِ قربانی

قربانی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیسے قبول ہو؟

قربانی ایک عظیم عبادت ہے اور عبادت کی خوبی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوجائے اور بندہ اس کے اُخروی فوائد اور اجر وثواب سے بہرہ ور ہوجائے، اس لیے ہر مسلمان کی یہی کوشش اور فکر ہونی چاہیے کہ وہ جو عبادت ادا کررہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہے بھی یا نہیں، کہیں کوئی ایسی غلطی اور کوتاہی تو سرزد نہیں ہورہی جس کی وجہ سے اس کی عبادت قبول ہی نہ ہورہی ہو! یہ جائزہ لینا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کتنے ہی نقصان اور خسارے کی بات ہوگی کہ ایک آدمی زندگی بھر قربانی کرے بھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت نہ پاسکے اور آخرت میں اس کے اجر وثواب سے محرومی رہے۔ اللہ تعالیٰ اس محرومی سے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے۔

قربانی کی قبولیت کے تین بنیادی شرائط

یہ بات اچھی طرح یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی سمیت کسی بھی عبادت کی قبولیت کے لیے تین شرائط ہیں:
1. وہ عبادت ایمان کے ساتھ ہو، یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم شخص کی کوئی بھی عبادت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی، البتہ اس کے اچھے کاموں کا بدلہ اللہ تعالیٰ دنیا میں دے دیتے ہیں لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
2. وہ عبادت شریعت کے مطابق ہو، یہی وجہ ہے کہ جو عبادت شریعت کی تعلیمات کے مطابق نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر گز قابلِ قبول نہیں۔ اور یہ یاد رکھیے کہ عبادت شریعت کے مطابق سرانجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں صحیح علم حاصل کیا جائے، صحیح علم حاصل کرنے کے بعد ہی وہ عبادت شریعت کے مطابق ادا کی جاسکتی ہے۔
3. وہ عبادت اخلاص کے ساتھ ہو، یہی وجہ ہے کہ جو عمل لوگوں کے دکھلاوے اور ریاکاری کے لیے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی قبولیت نہیں ہوتی۔
کسی بھی عبادت کی قبولیت کے لیے یہ تین باتیں پائی جانی ضروری ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی گئی تو وہ عبادت ہرگز قبول نہیں ہوگی، بلکہ وہ عبادت کہلائے جانے کے قابل ہی نہیں ہوتی۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عبادت ادا کرتے وقت ان باتوں کالحاظ نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے زندگی گزرجاتی ہے لیکن ہمیں ٹھیک طرح عبادات کرنے کی توفیق بھی میسر نہیں آتی، جیسے نفل نماز ادا کرنا بہت بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہی نفل نماز مکروہ اوقات میں ادا کرتا ہے تو اس کو ثواب تو کیا ملے گا بلکہ اُلٹا گناہ ملے گا، کیوں کہ مکروہ اوقات میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہی نہیں، تو گویا کہ نیکی جب شریعت کی تعلیمات کے خلاف کی جائے تو وہ نیکی نیکی نہیں رہتی بلکہ گناہ بن جاتا ہے۔
شیطان کی اوّلین کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ اللہ کا بندہ نیکی کے قریب ہی نہ جائے، لیکن جب وہ کسی شخص کو نیکی سے روک نہیں پاتا تو اس کی دوسری چال یہی ہوتی ہے کہ اس کی نیکی ہی برباد کردی جائے، اور نیکی برباد کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس نیکی کو شریعت کی تعلیمات اور حدود کے مطابق ادا نہ کرنے دیا جائے، جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ اس میں ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ داخل کردیا جائے۔ اس سے ان حضرات کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جو عبادت کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ یہ شریعت کے مطابق ہے بھی یا نہیں اور اس میں ہماری نیت اخلاص کی ہے بھی یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ نیکی ہر جگہ نیکی نہیں ہوا کرتی، بلکہ نیکی حقیقی معنوں میں نیکی اس وقت بنتی ہے جب وہ ایمان اور اخلاص کے ساتھ شریعت کی تعلیمات کے مطابق کی جائے!!
یہی حال قربانی جیسی عظیم عبادت کا بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس کے احکامات نہیں سیکھتے جس کے نتیجے میں سنگین غلطیاں کر بیٹھتے ہیں اور قربانی کرنے کے باوجود بھی ان کی قربانی درست نہیں ہوتی، بہت سے لوگوں کو قربانی کے نصاب ہی کا علم نہیں ہوتا، بہت سے لوگ قربانی کے جانور کی شرائط اور ضروری اوصاف ہی سے لاعلم ہوتے ہیں، بہت سے لوگ قربانی میں ایک سے زائد افراد کی شرکت کے مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں، بہت سے لوگ جانور ذبح کرنے اور اس کا گوشت تقسیم کرنے کے بنیادی مسائل بھی نہیں جانتے، اسی طرح بہت سے لوگ قربانی میں نام ونمود اور ریاکاری جیسے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں کہ ان کا مقصود دکھلاوہ ہوتا ہے، بڑے سے بڑا اور مہنگے سے مہنگا جانور اسی لیے لاتے ہیں تاکہ نام ونمود ہو، واہ واہ ہو اور شہرت ہو، جس کے نتیجے میں ان کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔
یہ ساری صورتحال بہت ہی قابلِ اصلاح اور قابلِ غور ہے، ہر مسلمان کو اس کی بھرپور فکر کرنی چاہیے۔

خلاصہ

خلاصہ یہ کہ قربانی کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ دو کام کیے جائیں:
1. ایک یہ کہ قربانی سے متعلق تمام ضروری مسائل سیکھ لیے جائیں اور پھر انھی کے مطابق قربانی کی جائے۔ یاد رکھیے کہ احکامات سیکھے بغیر ٹھیک طرح عمل ہرگز نہیں ہوسکتا۔
2. دوم یہ کہ قربانی کے لیے اپنی نیت درست کی جائے کہ قربانی کا عمل صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، اس میں کسی قسم کا نام ونمود اور ریاکاری نہ ہو۔

قرآنی آیات اور ان کی تفاسیر

☀تفسیر الرازی:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًاۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ (سورة الملك: 2)

اَلْمَسْأَلَةُ السَّادِسَةُ: ذَكَرُوا فِي تَفْسِيرِ ﴿أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ وُجُوْهًا: أَحَدُهَا: أَنْ يَكُونَ أَخْلَصَ الْأَعْمَالِ وَأَصْوَبَهَا؛ لِأَنَّ الْعَمَلَ إِذَا كَانَ خَالِصًا غَيْرَ صَوَابٍ: لَمْ يُقْبَلْ، وَكَذَلِكَ إِذَا كَانَ صَوَابًا غَيْرَ خَالِصٍ، فَالْخَالِصُ أَنْ يَكُونَ لِوَجْهِ اللهِ، وَالصَّوَابُ أَنْ يَكُونَ عَلَى السُّنَّةِ.

☀تفسير أبي السعود:

مَنْ عَمِلَ صٰلِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (سورة النحل: 97)

﴿مَنْ عَمِلَ صٰلِحًا﴾ أي عملًا صالحًا أيَّ عملٍ كان. وهذا شروعٌ في تحريض كافةِ المؤمنين على كل عملٍ صالح غِبَّ ترغيبِ طائفةٍ منهم في الثبات على ما هم عليه من عمل صالحٍ مخصوصٍ دفعًا لتوهم اختصاصِ الأجر الموفورِ بهم وبعملهم المذكور. وقولُه تعالى: ﴿مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثٰى﴾ مبالغةٌ في شموله للكل، ﴿وَهُوَ مُؤْمِنٌ﴾ قيّده به؛ إذ لا اعتدادَ بأعمال الكفرة في استحقاق الثواب أو تخفيفِ العذاب؛ لقوله تعالى: ﴿وَقَدِمْنَآ إِلىٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا﴾. وإيثارُ إيرادِه بالجملة الاسمية الحالية على نظمه في سلك الصلةِ لإفادة وجوبِ دوامه ومقارنتِه للعمل الصالح…)
☀ تفسير ابن كثير:
مَنْ عَمِلَ صٰلِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (سورة النحل: 97)
هذا وعد من الله تعالى لمن عمل صالحا -وهو العمل المتابع لكتاب الله تعالى وسنة نبيه من ذكر أو أنثى من بني آدم، وقلبه مؤمن بالله ورسوله، وإن هذا العمل المأمور به مشروع من عند الله- بأن يحييه الله حياة طيبة في الدنيا وأن يجزيه بأحسن ما عمله في الدار الآخرة. والحياة الطيبة تشمل وجوه الراحة من أيّ جهة كانت.
☀ تفسير ابن كثير:
وَقَوْلُهُ تَعَالى: ﴿وَقَدِمْنَآ إِلىٰ مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ﴾ الآية، هذا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُحَاسِبُ اللهُ الْعِبَادَ عَلَى ما عملوه من الخير والشر، فأخبر أنه لَا يحصل لِهٰؤُلَاءِ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الْأَعْمَالِ الَّتِي ظَنُّوا أَنَّهَا مَنْجَاةٌ لَهُمْ شَيْءٌ، وَذلِكَ؛ لِأَنَّهَا فَقَدَتِ الشَّرْطَ الشَّرْعِيَّ: إِمَّا الْإِخْلَاصُ فِيهَا وَإِمَّا الْمُتَابَعَةُ لِشَرْعِ اللهِ. فَكُلُّ عَمَلٍ لَا يَكُونُ خَالِصًا وَعَلَى الشَّرِيعَةِ الْمَرْضِيَّةِ فَهُوَ بَاطِلٌ، فَأَعْمَالُ الْكُفَّارِ لَا تَخْلُو مِنْ وَاحِدٍ مِنْ هٰذَيْنَ، وَقَدْ تَجْمَعُهُمَا مَعًا فَتَكُونُ أَبْعَدَ مِنَ الْقَبُولِ حِينَئِذٍ

پس ہر مسلمان کو ان تمام چیزوں کی فکر کرنی چاہیے

اپنا تبصرہ بھیجیں