عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب 1

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلوزندگی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلوزندگی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر سے باہر کی زندگی کا عمومی نقشہ

جناب نبی اکرم صلی اللہ کی گھر سے باہر کی زندگی جو سو فیصد اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے کاوشوں پر مشتمل تھی ، اپنوں (یعنی: اسلام قبول کر لینے والوں ) اور غیروں (یعنی: غیر مسلموں ) پر دین کی محنت ، اسلامی نظام خلافت کے قیام کی ترتیب ، اندرون عرب اور بیرون اشاعت اور غلبہ اسلام کی فکر و سوچ اور ترتیب ، مسلمانوں کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کی فکر ، اور پھر اس سب کے نتیجے میں 23 سال کی نہایت ہی قلیل مدت میں ایک ایسے ماحول اور فضا کا قائم ہونا کہ جس میں ہر آنے والا اُسی رنگ میں رنگا جاتا تھا، یعنی: وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ اور دین کی خاطر تن من اور دھن الغرض سب کچھ قربان کر دینے کا جذ بہ اپنے اندر پیدا کر کے چلنے والا بن جاتا تھا۔
اور پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ محنت صرف زبانی جمع خرچ ہی نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عملی کردار ایسا جامع مکمل امت کے سامنے پیش کیا کہ اپنے تو اپنے غیروں کو بھی اس پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں مل سکتا۔ وہ کردار ایسا مکمل اور نتیجہ خیز تھا کہ من جانب اللہ قرآن مجید میں بھی آپ علیہ السلام کی مبارک زندگی کو بطور نمونہ سامنے رکھ کر اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کا قانون بنا دیا گیا۔

القَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَة حَسَنَةً (الأحزاب: ۲۱)

ترجمہ: فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے۔ الغرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجی زندگی کی ذمہ داریاں اتنی متنوع اور وسیع تر تھیں کہ ان کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور افراد خاندان کے لیے وقت نکالنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا، آج کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے ، ایک مشکل ترین بات تھی، لیکن آپ صلی اللہ کی سیرت مبارکہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج مطہرات ہوں یا اولاد، خدام ہوں یا اقربا متعلقین ہوں یا احباب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے حقوق کی اتنی رعایت فرماتے تھے اور اُسے اتنی محبت اور اہمیت دیتے تھے کہ وہ سمجھتا تھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت اُسی سے کرتے ہیں، اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے تھے۔ ہر آن آپ علیہ السلام کو ان کے حقوق کی فکر دامن گیر رہتی تھی ، اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیویوں کے حق میں ایک نہایت محبت کرنے والے شوہر، اولاد کے حق میں ایک شفیق و مہربان باپ، خدام کے حق میں ایک وسیع الظرف اور حلیم و بردبار آقا ، دوست واحباب کے حق میں نہایت جانثار اور بے لوث ساتھی کی صورت میں نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ گھر سے باہر کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں مصلے پر کھڑے نمازیوں کی امامت کرتے ہوئے نظر آتے تھے، تو کبھی راہنمائی طلب کرنے والوں کے لیے بہترین رہبر اور مشیر نظر آتے تھے، میدان جنگ میں نہایت دلیر ودانا سپہ سالار ہوتے تھے تو قتال کی صف اول کے نہایت بے جگری سے لڑنے والے مجاہد بھی ہوتے تھے ، آپ انصاف پسند عادل حاکم بھی تھے اور امت کی تربیت میں مشغول صاحب بصیرت معلم بھی تھے۔ ساری اُمت جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والی بن جائے اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں امت پر محنت فرماتے تھے وہاں ہی اُن کے غم میں ہر ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزی اور گڑ گڑا کر دعا کرتے ہوئے بھی نظر آتے تھے۔ اس زندگی میں آپ کی صفات میں دائم الفکر اور متواصل الأحزان“ کا ذکر ملتا ہے۔

گھر کے اندر کی زندگی کا عمومی نقشہ

لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سخت مزاج اور جھگڑالوشوہر ، باپ، یا بھائی کے روپ میں نظر نہیں آتے ، بلکہ بیویوں کے ساتھ انتہائی ہنس مکھ ، اُن کی دل جوئی کرنے والے، اُن میں گھل مل کر رہنے والے، گھر کے کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹانے والے، اُن کے دکھ درد میں شریک ہونے والے اور ہنسی مذاق ، پیار و محبت سے زندگی بسر کرنے والے اور تمام ازواج میں عدل و برابری کرنے والے تھے ، بچوں کے ساتھ آپ بچے ہوتے تھے، اُن کو صرف کھلانے والے ہی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ بذات خود کھیلنے والے ہوتے تھے.
آپ صل اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں سے نہایت شفقت سے پیش آتے ، ان کی دل جوئی فرماتے اور تمام اہل خانہ کے ساتھ یکساں سلوک فرماتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلوزندگی ، گھر سے باہر کی زندگی کی طرح تمام کیفیات سے معمور اور پرکشش تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے بھی تھے جاگتے بھی تھے، کھاتے بھی تھے اور بھو کے بھی رہتے تھے ، غرض زندگی کے جتنے بھی پہلو ہو سکتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی میں بھی پائے جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر یلوا زندگی میں بے اعتدالی نہیں تھی ، بلکہ ہر چیز ایک نظام کے تحت مرتب ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہر قسم کے تکلفات اور دنیوی جاہ و جلال، رکھ رکھاؤ والے ظاہری پر تعیش اسباب سے خالی لیکن سادگی اور صفائی وستھرائی کا خوبصورت منظر پیش کرنے والے ہوتے تھے۔

گھر میں آپ صلی اللہ کے اوقات کی تقسیم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کے معمولات کی تشریح کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمہ اللہ اپنی تصنیف ” اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں بحوالہ شمائل تر مذی لکھتے ہیں کہ حضرت حسنؓ اپنے والد ماجد حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ کا اپنے گھر میں اپنے ذاتی حوائج ( طعام ومنام ) کے لیے تشریف لے جانا ظاہر ہے اور آپ اس بات کے لیے منجانب اللہ ماذون و مامور تھے۔ سو آپ اپنے گھر میں تشریف لاتے تو اپنے گھر کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ۔
1. ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے
2. ایک حصہ اپنے گھر والوں کے معاشرتی حقوق ادا کرنے کے لیے ( جس میں ان سے ہنسنا بولنا شامل تھا )

اور ایک حصہ اپنے نفس کی راحت کے لیے

پھر اپنے حصہ کو اپنے اور لوگوں کے درمیان میں تقسیم فرما دیتے ( یعنی اس میں سے بھی بہت سا وقت اُمت کے کام میں صرف فرماتے اور اس حصہ کے وقت کو خاص احباب کے واسطہ سے عام لوگوں کے کام میں لگا دیتے ، یعنی: اس حصہ وقت میں عام لوگ تو نہ آ سکتے تھے مگر خواص حاضر ہوتے اور دین کی باتیں عوام تک پہنچاتے، اس طرح عام لوگ بھی ان کے منافع میں شریک ہوتے ہیں۔

گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت

آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم گھر میں نفل نماز بھی ادا کیا کرتے تھے، رات کے وقت میں تہجد کی نماز ادا فرماتے ، وتر بھی تہجد کے وقت میں گھر میں ہی ادا فرماتے تھے، فجر کی سنتیں بھی اکثر گھر میں ہی ادا کر کے مسجد تشریف لے جاتے تھے ۔ [صحیح البخاري، الرقم: ٦٢٦] حضرت ابن عباس سے منقول ہے وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ ) میں نے اپنی خالہ (ام المؤمنین ) حضرت میمونہ کے گھر رات گزاری ، تو میں نے دیکھا کہ ) جب تھوڑی رات باقی رہ گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا ( یعنی: جلدی سے اور مختصر سا ) ۔ اور آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے بھی اسی طرح وضو کیا ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ پھر آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھیر کر اپنی داہنی جانب کر لیا۔ جس قدر اللہ کومنظور تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے۔ حتی کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ پھر آپ کی خدمت میں مؤذن حاضر ہوا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے ۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (کیوں کہ احادیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ کی آنکھیں سوتی تھیں، دل نہیں سوتا تھا۔ )[صحیح البخاري، الرقم: ۱۳۸]

گھر میں قرآن مجید پڑھنے کی کیفیت

رات کے وقت میں نماز کے اندر اور نماز کے علاوہ ” قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے تھے، (صحیح مسلم، الرقم: ۷۷۰ ] کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ آواز سے ، حضرت عفیف بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے دریافت کیا : کہ کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو باواز بلند پڑھتے تھے یا آہستہ آواز سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کبھی بآواز بلند پڑھتے اور کبھی دھیمی آواز سے، میں نے کہا اللہ اکبر،…. ، ۔ [سنن ابن ماجہ، الرقم: 1354]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات ٹیک لگا کر بھی قرآن پڑھتے تھے، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ ہم ( ازوا مطہرات) میں سے کسی کے گود میں سر رکھتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے جبکہ وہ حیض سے ہوتی تھیں۔ (صحیح البخاري)

گھر میں اللہ سے دعا کرنا

رات کے وقت اکثر نماز تہجد میں دیر تک دعائیں کرتے تھے، اپنے لیے بھی اور امت کے لیے بھی ، دورانِ قراءت آیات رحمت پر رحمت کی دعائیں اور آیات عذاب پر عذاب سے پناہ کی دعائیں کیا کرتے تھے، اور دعاؤں میں اتنا روتے تھے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ [صحیح مسلم، الرقم: ۷۷۲]

گھر میں داخل ہونے کا نبوی طریقہ

1) جناب نبی کریم علیہ السلام اچانک گھر میں کبھی تشریف نہ لاتے تھے کہ گھر والوں کو پریشان کر دیں بلکہ اس طرح تشریف لاتے کہ گھر والوں کو پہلے سے آپ کی تشریف آوری کا علم ہوتا۔ [صحیح البخاري، الرقم: ١٥٠١] حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :

نَهَى رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم أن يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يَلْتَمِسُ عَشَرَاتِهِمْ –

ترجمه: نبی اکرم صلی اللہ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو اچانک گھر والوں کے پاس جا پہنچے اور ان کو خیانت ( جس طرح خاوند نے کہا ہوا ہے، اس طرح نہ رہنے ) کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں ڈھونڈے“۔ [صحیح مسلم، الرقم: ۴۹۶۹]

کیونکہ اس میں ایک تو گمان بد ہے جو شریعت میں منع ہے۔ دوسرے عورت کی دل شکنی کا باعث ہے اور اس میں صد با قباحتیں ہیں۔ بالخصوص جب کوئی شخص سفر سے واپس آئے تو اس کے لیے اور زیادہ اہتمام کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں اچانک نہ آئے بلکہ اطلاع دے کر آئے ، چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے، ایک جہاد میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، جب ہم اس جہاد سے واپس مدینہ آئے تو ہم اپنے گھروں کو جانے لگے ۔ تو آپ میں اللہ نے فرمایا:

أمهلوا حَتَّى نَدخُلَ لَيْلًا، أي عِشَاء كَي تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ المُغِيبَةُ. [صحیح مسلم، الرقم: ٤٩٦٤)

ترجمہ: ٹھہر وہم رات کو جائیں گے تا کہ جس عورت کے سر کے بال پریشان حال ہیں تو وہ کنگھی کر لے اور جس کا خاوند غائب تھا وہ پا کی کرے۔ (یعنی بال وغیرہ صاف کر لے )۔گھر میں داخل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے ۔ سنن ابو داؤد، الرقم: (٥٩٦]
جب آپ اندر تشریف لاتے تو کچھ نہ کچھ دریافت فرمایا کرتے ۔ بسا اوقات پوچھتے کہ کیا کچھ کھانے کو ہے ؟ [ سنن الترمذي، الرقم : ٢٤٧٠]
اور بسا اوقات خاموش رہتے یہاں تک کہ ما حضر پیش کر دیا جاتا۔ نیز منقول ہے کہ جب آپ گھر میں تشریف لاتے یہ دعا پڑھتے :

الحمد لله الذي كَفَانِي وَاوَانِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي وَ سَقَانِي وَالحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي مَنَّ عَلَيَّ أسْأَلُكَ أَن تُجِيرَنِي مِنَ النَّارِ

ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے میری ( تمام ضروریات کی کفایت فرمائی اور مجھے ٹھکانا بخشا، اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے کھلایا اور پلایا، اور تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھ پر احسان فرمایا، اے اللہ ! ) میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے ( عذاب ) نارسے بچا لیجیے۔

گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام

حضرت اسود سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں میں آکر کیا کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خدمت یعنی گھر یلو زندگی میں حصہ لیتے تھے۔ (مخدوم اور ممتاز بن کر نہ رہتے تھے بلکہ گھر کا کام بھی کر لیتے تھے، مثلاً : بکری کا دودھ دوھ لینا۔ اپنی نعلین مبارک سی لینا ) اور جب نماز کا وقت آتا تو مسجد چلے جاتے ۔ (سنن الترمذي، الرقم: ٢٤٨٩)

گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ برتاؤ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں اور خادموں کے ساتھ بہت خوش اخلاقی کا سلوک فرماتے اور کبھی کسی سے سرزنش اور سختی سے پیش نہآتے۔ [مسلم: ۲۳۰۹) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں کے لیے اس کا بڑا اہتمام فرماتے کہ کسی کو کسی بات کی ناگواری نہ ہو۔ [مسلم: ٢٠٥٥]
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کے پاس ہوتے تو بہت نرمی، خاطر داری کرتے اور بہت اچھی طرح ہنستے بولتے تھے ۔ [سالترمذي، الرقم: ١١٦٢]
بیوی بچوں کی عبادات کی فکر کے بہت ساری احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ پہلو بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے افراد کو بھی اپنے ساتھ عبادت میں شریک کرتے تھے ، اور گاہے گاہے انہیں بھی اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت سے زیادہ نہیں سوتے تھے اور ضرورت سے زیادہ جاگتے بھی نہ تھے، چنانچہ جب ضرورت لاحق ہوتی تو آپ دائیں طرف اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آرام فرماتے حتی کہ آپ کی آنکھوں پر نیند غالب آجاتی [صحیح البخاري، الرقم: ٢٤٧ ] ۔ اس وقت آپ شکم سیر نہ ہوتے ۔ نہ آپ سطح زمین پر لیٹ جاتے اور نہ زمین سے بچھو نا زیادہ اونچا ہوتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا ہوتا۔ جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوتی ۔ آپ تکیہ پر ٹیک لگاتے اور کبھی رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ لیتے اور سب سے بہتر نیند دائیں جانب کی ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ کی نیند بقدر اعتدال تھی

قدر ضرورت سے زیادہ نہ سویا کرتے تھے اور نہ قد رضرورت سے زیادہ اپنے آپ کو سونے سے باز رکھا کرتے تھے ۔ یعنی حضور اکرم صلی اللہ خواب بھی فرماتے اور قیام بھی فرماتے جیسا کہ نوافل و عبادت میں حضور صلی اللہ کی عادت کریمہ تھی کبھی رات میں سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اس کے بعد پھر سو جاتے ۔ اس طرح چند بار سوتے اور اٹھتے تھے.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز استراحت

حضرت براء فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت آرام فرماتے اپنا دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا پڑھتے:

“رَبِّ قني عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ [سنن ابوداؤد، الرقم: ۵۰۴۵)

ترجمہ : ”اے رب ! تو مجھے اپنے عذاب سے بچائیو جس روز تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے :

اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا “- [صحیح البخاري، الرقم : ٦٣٢٥ )

ترجمہ : “اے اللہ ! میں تیرا نام لے کر مرتا ہوں اور جیتا ہوں”۔ اور جب جاگتے تو یہ دعا پڑھتے :

الحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانًا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ” – [صحیح البخاري، الرقم: ٦٣٢٥]

ترجمہ : ”سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مار کر زندگی بخشی اور ہم کو اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں