انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت

انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت

انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت

~افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ھے ملت کے مقدر کا ستارہ ~

ہماری غلط فہمیاں

موجودہ دور میں گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ مکر وفریب، جھوٹ ، رشوت اور دغا بازی کا تصور لازمِ ذات ہو کر رہ گیا ہے، اسی لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے۔ یہ بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے معاشرے کے اندر چند در چند غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں، یہاں ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔

اپنے ووٹ کو استعمال کرنا شرعاً ضروری ہے

پہلی غلط فہمی تو سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کا منشا اتنا برا نہیں، لیکن نتائج بہت برے ہیں ۔ وہ یہ ہے کہ آج کی سیاست مکر و فریب کا دوسرا نام بن گئی ھے۔
ماضی میں ہماری سیاست بلاشبہ مفاد پرستوں کے ہاتھوں گندگی کا تالاب بن چکی ہے۔ لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے، اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا او پھر ایک نہ ایک دن یہ نجاست خود ان کے گھروں تک پہنچ کر رہے گی۔۔ یہ غلط فہمی خواہ کتنی نیک نیتی کے ساتھ پیدا ہوئی ہو، لیکن بہر حال غلط اور ملک وملت کے لیے سخت مضر ہے۔ لہذا عقل مندی اور شرافت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سیاست کی اس گندگی کو دور دور سے برا کہا جاتا رہے، بلکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھ سے چھینے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کر رہے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛

إن الناس إذا رأوا الظالم فلم يأخذوا على يديه، أوشك أن يعمهم الله بعقاب منه. (سنن ترمذی ، حدیث نمبر 2168 )

اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرمائیں ۔“
اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے اور انتخابات میں سرگرم حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔

ووٹ نہ ڈالنے کا نقصان

حضرت ابو موسی اشعری رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

من كتم شهادة إذا دعى إليها كان كمن شهد بالزور. (معجم اوسط طبرانی میں 270 ، جلد:2)

” جس کسی کو شہادت کے لیے بلایا جائے، لیکن پھر وہ اسے چھپائے تو وہ ایسا ہے، جیسے جھوٹی گواہی دینے والا ”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:-
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مسند احمد میں روایت ہے؛

من أذل عنده مؤمن فلم ينصره وهو يقدر على أن ينصره، أذله الله على رؤوس الأشهاد يوم القيامة. (الجامع الصغير ، حدیث نمبر 8356)

جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جا رہا ہو اور وہ اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے میدان میں ) برسر عام رسوا کرے گا۔“

ووٹ نہ دینا حرام ہے

شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی سی ہے، اور جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام اور نا جائز ہے، اسی طرح ضرورت کے موقع پر شہادت کو چھپانا بھی حرام ہے۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے

ولا تكتموا الشهادة ومن یکـتـمـهـا فـانـه آثم قلبه. (البقرة:283)

گواہی کونہ چھپاؤ، اور جو گواہی کو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے۔“

بلکہ گواہی دینے کے لیے تو اسلام نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان اپنا یہ فریضہ ادا کردے، اور اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے۔ حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا: ألا أخبركم بخير الشهداء الذي يأتي بشهادته قبل أن يُسألها. (صحیح مسلم :1719) ” کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ وہ شخص ہے جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے۔“ ووٹ بھی بلا شبہ ایک شہادت ہے، قرآن وسنت کے یہ تمام احکام اس پر بھی جاری ہوتے ہیں، لہذا ووٹ کو محفوظ رکھنا دین داری کا تقاضا نہیں، اس کا زیادہ سے زیادہ صحیح استعمال کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ یوں بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر شریف، دین دار اور معتدل مزاج کے لوگ انتخابات کے تمام معاملات سے بالکل یکسو ہو کر بیٹھ جائیں تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ پورا میدان شریروں ، فتنہ پردازوں اور بے دین افراد کے ہاتھوں میں سونپ رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کبھی بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ حکومت نیک اور اہلیت رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں آئے ، ، اگر دین دار لوگ سیاست سے اتنے بے تعلق ہو کر رہ جائیں تو پھر انہیں ملک کی دینی اور اخلاقی تباہی کا شکوہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا، کیونکہ اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے اور ان کے حکام کا سارا عذاب و ثواب انہی کی گردن پر ہو گا اور خود ان کی آنے والی نسلیں اس شر و فساد سے کسی طرح محفوظ نہیں رہ سکیں گی جس کے آگے بند باندھنے کی انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی ۔

انتخابات خالص دنیاوی معاملہ نہیں

انتخابات کے سلسلے میں ایک دوسری غلط فہمی پہلی سے زیادہ سنگین ہے، چونکہ دین کو لوگوں نے صرف نماز ، روزے کی حد تک محدود سمجھ لیا ہے، اس لیے سیاست و معیشت کے کاروبار کو وہ دین سے بالکل الگ تصور کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے معاملات دین کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اپنی نجی زندگی میں نماز، روزے اور وظائف و اوراد تک کے پابند ہوتے ہیں، لیکن نہ انہیں خرید و فروخت کے معاملات میں حلال و حرام کی فکر ہوتی ہے، نہ وہ نکاح و طلاق اور برادریوں کے تعلقات میں دین کے احکام کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔
یقین رکھیے کہ آخرت میں ایک ایک شخص کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے ایسے لوگ انتخابات کو بھی ایک خالص اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اس نے اپنی اس ”شہادت“ کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا
دنیاوی معاملہ سمجھ کر اس میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں کو گوارا کر لیتے ہیں اور یہ نہیں
سمجھتے کہ ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ اپنا ووٹ اپنی دیانت دارانہ رائے کے بجائے محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی نا اہل کو دے دیتے ہیں، حالانکہ وہ دل میں خوب جانتے
ہیں کہ جس شخص کو ووٹ دیا جارہا ہے ، وہ اس کا اہل نہیں یا اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا
شخص اس کا زیادہ حق دار ہے، لیکن صرف دوستی کے تعلق ، برادری کےرشتے یا ظاہری لحاظ و مروت سے متاثر ہو کر وہ اپنے ووٹ کو غلط جگہ استعمال کر لیتے ہیں اور کبھی خیال میں بھی نہیں آتا کہ شرعی لحاظ سے انہوں نے کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے؛

واذا قلتم فاعدلوا ولو كان ذا قربی

اور جب کوئی بات کہو تو انصاف کرو، خواہ وہ شخص (جس کے خلاف بات کہی جارہی ہے ) تمہارا قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ۔ “ ( الانعام 152)
لہذا جب کسی شخص کے بارے میں ضمیر اور دیانت کا فیصلہ یہ ہو کہ جس شخص کو ووٹ دے رہے ہو، وہ ووٹ کا مستحق نہیں ہے یا کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت رکھتا ہے تو اس وقت محض ذاتی تعلقات کی بنا پر اسے ووٹ دے دینا جھوٹی گواہی کے ذیل میں آتا ہے، اور قرآن کریم میں جھوٹی گواہی کی مذمت اتنی شدت کے ساتھ کی گئی ہے کہ اسے بت پرستی کے ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے۔
ارشاد ہے؛

فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور پس تم پر ہیز کرو بتوں کی نجاست سے اور پر ہیز کر جھوٹی بات کہنے سے ۔ “ ( الج: 30)

حدیث شریف میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر جھوٹی گواہی کو اکبر الکبائر میں شمار کر کے اس پر سخت وعید میں ارشاد فرمائی ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں بڑے بڑے گناہ نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور خوب اچھی طرح سنو! جھوٹی گواہی ، جھوٹی بات !
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے ، جب جھوٹی گواہی کا ذکر آیا تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور جھوٹی گواہی“ کا لفظ بار بارارشادفرماتے رہے۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : 6871 / مسلم: حدیث نمبر : 87)

یہ وعیدیں تو صرف ووٹ کے اس غلط استعمال پر صادق آتی ہیں جو محض ذاتی تعلقات کی بنا پر دیا گیا ہو، اور روپے پیسے لے کر کسی نا اہل کو ووٹ دینے میں جھوٹی گواہی کےعلاوہ رشوت کا عظیم گناہ بھی ہے۔
لہذا ووٹ ڈالنے کے مسئلہ کو ہرگز گز یوں نہ سمجھا جائے کہ یہ ایک خالص دنیاوی مسئلہ ہے اور دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ یقین رکھیے کہ آخرت میں ایک ایک شخص کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے دوسرے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دیتا ہے کہ اس نے اپنی اس ”شہادت“ کا استعمال کس حد تک دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔

نا اہل کو ووٹ دینا شدید تر گناہ ہے

بعض حضرات یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر نا اہل کو ووٹ دینا گناہ ہے تو ہم کون سے پاکباز ہیں؟ ہم صبح سے لے کر شام تک بے شمار گناہوں میں ملوث رہتے ہیں، اگر اپنے گناہوں کی طویل فہرست میں ایک اور گناہ کا اضافہ ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ یہ نفس و شیطان کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ اول تو انسان اگر ہر گناہ کے ارتکاب کے وقت یہی سوچا کرے تو وہ کبھی کسی گناہ سے نہیں بچ سکتا، اگر کوئی شخص تھوڑی گندگی میں ملوث ہو جائے تو اس کو اس سے پاک ہونے کی فکر کرنی چاہیے، نہ کہ وہ غلاظت کے کسی تالاب میں چھلانگ لگا دے۔
دوسری بات یہ کہ گناہ گناہ کی نوعیتوں میں بھی بڑا فرق ہے۔ جن گناہوں کے نتائج بد پوری قوم کو بھگتنے پڑیں ، ان کا معاملہ پرائیویٹ گناہوں کے مقابلے میں بہت سخت ہے۔ انفرادی نوعیت کے جرائم ، خواہ اپنی ذات میں کتنے ہی گھناؤنے اور شدید ہوں لیکن ان کے اثرات دو، چار افراد سے آگے نہیں بڑھتے ، اس لیے ان کی تلافی بھی عموماً اختیار میں ہوتی ہے، ان سے تو بہ واستغفار کر لینا بھی آسان ہے اور ان کے معاف ہو جانے کی امید بھی ہر وقت کی جاسکتی ہے۔ اس کے برخلاف جس گناہ کا برا نتیجہ پورے ملک اور پوری قوم نے بھگتا ہو، اس کی تلافی کی کوئی صورت نہیں، یہ تیر کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں آسکتا، اس لیے اگر کسی وقت انسان اس بد عملی سے آئندہ کے لیے تو بہ کر لے تو کم از کم ماضی کے جرم سے عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے اور اس عذاب سے رہائی کی امید بہت کم ہے۔ اس حیثیت سے یہ گناہ چوری، ڈاکہ، زنا کاری اور دوسرے تمام گناہوں سے شدید تر ہے اور اسے دوسرے جرائم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
یہ درست ہے کہ ہم صبح و شام بیسیوں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں، مگر یہ سب گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت تو بہ کی توفیق بخشے تو معاف بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی تلافی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی گردن ایک ایسے گناہ میں بھی پھنسا لیں جس کی تلافی ناممکن اور جس کی معافی بہت مشکل ہے۔

ہمارے ووٹ کی اہمیت

بعض لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ لاکھوں ووٹوں کے مقابلے میں ایک شخص کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے؟ اگر وہ غلط بھی ہو جائے تو ملک وقوم کے مستقبل پر کیا اثر انداز ہوسکتا ہے؟
لیکن خوب سمجھ لیجیے کہ اول تو اگر ہر شخص ووٹ ڈالتے وقت یہی سوچنے لگے تو ظاہر ہے کہ پوری آبادی میں کوئی ایک ووٹ بھی صحیح استعمال نہیں ہو سکے گا۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا جو نظام ہمارے ہاں رائج ہے، اس میں صرف ایک ان پڑھ، جاہل شخص کا ووٹ بھی ملک و ملت کے لیے فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر ایک بے دین ، بد عقیدہ اور بد کردار امید وار کے بیلٹ باکس میں صرف ایک ووٹ دوسرے سے زیادہ چلا جائے تو وہ کامیاب ہو کر پوری قوم پر مسلط ہو جائے گا۔ اس طرح بعض اوقات صرف ایک جاہل اور ان پڑھ انسان کی معمولی سی غفلت، بھول چوک یا بد دیانتی بھی پورے ملک کو تباہ کر سکتی ہے۔ اس لیے مروجہ نظام میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہے اور یہ ہر فرد کا شرعی قومی اور ملی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو اتنی ہی توجہ اور اہمیت کے ساتھ استعمال کرے جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں