تعزیت

تعزیت سے متعلق اسلامی تعلیمات

تعزیت سے متعلق اسلامی تعلیمات

فوتگی کے موقع پر میت کے لواحقین کو صبر کی تلقین کرنا سنت عمل ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایسے غم کے مواقع میں مسلمانوں کی تعزیت فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ مشہور تابعی حضرت قاسم رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ :

أَنَّ النَّبِيُّ كَانَ يُعَنِّي الْمُسْلِمِينَ فِي مَصَائِبِهِمْ . [ مصنف عبدالرزاق، الرقم : ۶۰۷۱]

تعزیت کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم علیه السلام نے فرمایا:

مَنْ عَزَّى مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ. [سنن الترمذي، الرقم : ۱۰۷۳]

ترجمہ: جس نے کسی مصیبت زدہ کی بیمار پرسی کی ( یعنی: اس کو تسلی دی ) ، تو اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا مصیبت زدہ کو
مصیبت پہنچنے اور اس پر صبر کرنے پر ملتا ہے۔

حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ عَزَّى تَكُلَى كُسِيَ بُرْدًا فِي الْجَنَّةِ. [سنن الترمذي الرقم: ۱۰۷۶]

ترجمہ: جس نے کسی ایسی عورت کی تعزیت (ماتم پرسی ) کی جس کا لڑکا مر گیا ہو، تو اسے جنت میں اس کے بدلہ ایک عمدہ کپڑا پہنایا جائے گا۔

تعزیت کا مسنون طریقہ

تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کے متعلقین ولواحقین کو تسلی دی جائے ، صبر کے فضائل سنا کر صبر کی ترغیب دی جائے، اور میت کو ایصال ثواب کرتے ہوئے اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تعزیت کا مطلب ہے مصیبت زدہ سے یا میت کے اقارب سے اظہار افسوس کرنا انھیں تسلی دینا صبر کی تلقین کرنا اور ایسی باتیں کرنا جس سے ان کا غم ہلکا ہو۔ مثلاً یوں کہے: اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ، ان کے درجے بلند فرمائے ، اور آپ کو صبر پر اجر عظیم دے، یا یہ کہنا کہ اللہ کی امانت تھی ، جو اس نے لے لی وغیرہ۔
تعزیت کے الفاظ اس موقع پر سب سے بہتر وہی ہو سکتے ہیں جو نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم نے استعمال کیے، وہ یہ ہیں:

إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِندَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرُ وَلْتَحْتَسِب

( ترجمہ: جولیا وہ بھی خدا کا ہے، اور جو دیا وہ بھی اسی کی ملکیت ہے۔ ہر ایک چیز کا اس کے پاس وقت مقرر ہے ( یعنی مرحوم کی زندگی متعین تھی ) ۔ لہذا صبر کرو! اور ثواب کی امید رکھو۔) اور یہ الفاظ بھی کہے جاسکتے ہیں:

“أَعْظَمَ اللهُ أَجْرَكَ وَأَحْسَنَ عَزَاءَكَ وَغَفَرَ لِمَيِّتِكَ“۔

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ آپ کے ثواب کو بڑھائے اور خوب صبر وتحمل کی توفیق دے، اور آپ کی میت کی مغفرت فرمائے۔)

تعزیت میں نیت کیا کی جائے؟

تعزیت اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے ، اس میں ریا کاری کی نیت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح تعزیت کرنے میں بدلے کی نیت بھی نہیں ہونی چاہیے۔اگر کوئی شخص کسی وجہ سے حاضر نہ ہو سکے یا تعزیت نہ کر سکے تو اس شخص سے تعلق اور بول چال ہی ختم نہیں کر لینی چاہیے۔ تعزیت محض رسم پوری کرنے کا نام نہیں ہے، کسی کی تعزیت اسی نیت اور جذبے کے ساتھ ہونی چاہیے کہ میت کے لواحقین کے غم کو اپنا غم سمجھے تعزیت کی مدت تعزیت کرنے کی مدت تین دن ہے، اس کے بعد تعزیت کرنا مکروہ ہے، تا ہم اگر کوئی شخص سفر ، مرض علم نہ ہونے ، یا کسی اور وجہ سے تین دنوں میں تعزیت نہ کر سکے تو اس کے لیے تین دن کے بعد بھی تعزیت کرنا جائز ہے.

بذریعہ خط، میسج و غیره تعزیت کرنا

کوئی شخص اپنی مشغولیت، بیماری، بڑھاپے یا ملک سے باہر وغیرہ ہونے کی صورت میں بذریعہ خط ، موبائل فون میسیج اور واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے بھی تعزیت کر سکتا ہے۔

تعزیت کتنی بار کرنی چاہیے؟

جس گھر میں میت ہو جائے تو تعزیت کے واسطے ان کے گھر جانا صرف ایک بار سنت ہے، مسلسل تین دن تک ان کے ہاں جانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ یہ نا پسندیدہ ہے ، اس رواج کا ترک لازم ہے۔

عورتوں کا تعزیت کے لیے جانا

محرم یا نامحرم مرد کی وفات پر عورتوں کا عورتوں کے پاس ہی تعزیت کے لیے جانا ، خلاف شرع امور اور بے پردگی سے بچتے ہوئے درست ہے۔ البتہ خواتین کا دور دور سے جماعت کی شکل میں اہتمام کے ساتھ دعا اور فاتحہ خوانی کے لیے آنا جانا درست نہیں اور پھر ایسے موقعہ پر خواتین نامحرم زندہ مردوں سے پردے کا اہتمام بھی نہیں کرتیں ، تو یہ اور بھی زیادہ برا ہے، یہ سب امور قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہیں، لہذا ان سے بچنا لازم ہے، البتہ نا محرم خواتین کا مردمیت کے چہرہ دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، ہاں اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو دیکھنے کی گنجائش ہے، لیکن میت کا چہرہ دیکھنے کے لیے با قاعدہ عورتوں کا جمع ہونا اور اسے رسم بنانا درست نہیں اس سے بچنا چاہیے۔

فوتگی والے گھر پہلی عید میں تعزیت کے لیے جانا

دستور ہے کہ جس سال کسی گھر میں فوتگی ہوئی ہو، آنے والی پہلی عید کے دن اس گھر میں تعزیت کے لیے جانے کو لازم سمجھا جاتا ہے، اس کی شرعا کوئی حقیقت نہیں ہے، اسے لازم سمجھنا اور اہتمام کرنا درست نہیں ہے۔

اہل میت کے لیے ایک دون و ایک رات کا کھانا تیار کرنا

فوتگی کے موقع پر اہل میت کے پڑوسیوں اور دور کے رشتہ داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس غم کے موقع پر اہل میت کے لیے ایک دن اور ایک رات کا کھانا بھیجنے کا اہتمام کریں ، احادیث مبارکہ کی روشنی میں مذکورہ حکم سے مقصود یہ ہے کہ اہل میت میت کی تجہیز وتکفین میں مشغولیت کی بناء پر کھانے پکانے کا انتظام نہیں کر سکتے تو ان کے لیے کھانے کا بندو بست کیا جائے اور اگر وہ غم کی وجہ سے نہ کھا ئیں تو باصرار ا نہیں کھلایا جائے۔

تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے کھانے کا انتظام

تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے، خواہ یہ کھانا پہلے دن ہو، یا تیسرے دن ہو، دسویں دن ہو، یا چالیسویں اور برسی کے موقع پر ہو، کیونکہ دعوت کھلانا خوشی کے موقع پر ہوتا ہے، نہ کہ غمی کے موقع پر ایسی دعوت اور کھانے کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے، البتہ بوقت انتقال دور سے آنے والے رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے وہاں کھانا کھانا جائز ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں