تقدس والا گھر (مسجد اقصی)

تقدس والا گھر (مسجد اقصی)

تقدس والا گھر (مسجد اقصی)

اللہ سبحانہ و تعالی اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتے ہیں منتخب فرما لیتے ہیں جسے چاہے بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں جسے چاہیں تقدس اور پاکیزگی ہے ایک ایک لفظ عطا کرتے ہیں اور جسے چاہیں برکتوں سے مالا مال کرتے ہیں. اللہ سبحانہ و تعالی کی شان یہ ہے کہ جو وہ کرتا ہے اس سے کوئی سوال نہیں ہو سکتا. اللہ سبحانہ و تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز اس کے لیے نہایت ہی اسان ہے وہ بندوں کا رب اور مالک ہے اور کسی کا محتاج نہیں ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا پابند بھی نہیں بلکہ سب اسی کے پابند ہیں وہ جب چاہیں کسی پر انعام فرما دیں اور جب چاہے کسی کو ازمائش میں مبتلا کر دیں وہ جتنی مدت تک چاہیں کسی کو صحت اور تندرست رکھیں اور جتنی مدت تک چاہیں کسی کو بیمار اور کمزور رکھیں وہ جتنی مدت تک چاہیں کسی کو غالب رکھیں اور جتنی مدت تک چاہے کسی کو مخلوق رکھیں، بندے کا کام ہے بندگی اور بندگی اقا کے سامنے اور اس کے فیصلوں کے سامنے سر جھکائے رکھنے کا نام ہے چون چراغ کرنا نہیں بندہ اور غلام اپنے اقا سے جو دعا اور التجا کرتا ہے تو وہ بھی اپنی بندگی کے اظہار کے لیے اس دعا اور التجا سے وہ احکاف بن نہیں ہو جاتا، یہ سب باتیں ہمارے دین کا اہم ترین حصہ اور عقائد کا اہم ترین باب ہیں انہیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا اور اپنے اوپر یا اپنے ارد گرد پیش انے والے معاملات میں ان حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اور بہت مفید بھی، اللہ تعالی کی اسی قدرت کاملہ کا اظہار ہے کہ اس نے روئے زمین پر ان تین مساجد مسجد الحرام جو مکہ مکرمہ میں ہے مسجد نبوی جو مدینہ منورہ میں ہے اور مسجد اقصی جو فلسطین میں ہے کوئی خاص فضیلت اور مرتبہ عطا کیا ہے.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مساجد کی طرف سفر کرنے اور ان میں نماز پڑھنے کی ترغیب دی ہے ارشاد فرمایا:
ترجمہ “کجاوے نہ کسے جائیں یعنی سفر کا خاص اہتمام نہ کیا جائے مگر تین مساجد کے لیے ایک مسجد حرام دوسری یہ میری مسجد اور تیسری مسجد اقصی”
غور کیا جائے تو اس حدیث میں یہ صاف اشارہ بھی موجود ہے کہ یہ تینوں مساجد مسلمانوں کے پاس ہونی چاہیں تبھی تو مسلمان دنیا بھر سے سفر کر کے ان مساجد میں عبادت کے لیے پہنچ سکیں گے اور اگر ان مساجد پر مسلمانوں کا قبضہ نہ ہو تو پھر ان کی طرف عبادت کے لیے سفر کرنا اور پھر وہاں پہنچ کر عبادت کرنا کیوں کر اسان ہوگا؟
یہ مسجد اقصی وہ تاریخی مسجد ہے جو روئے زمین پر اللہ تعالی کی عبادت کے لیے دوسرے نمبر پر بنائی گئی ہے.
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام میں نے پوچھا پھر کون سی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد اقصی میں نے پوچھا ان دونوں کے درمیان کتنا مدت کا فاصلہ تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 40 سال کا پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ اقصی کا معنی ہوتا ہے دور چونکہ یہ مسجد مسجد حرام سے دور واقع ہے اس لیے اسے مسجد اقصی کہتے ہیں.
دوسری بات یہ کہ ان دونوں مساجد کے درمیان 40 سال مدت کے فاصلے سے کیا مراد ہے اس بارے میں اہل علم کے دو قول ہیں، بعض اہل علم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ حضرت ادم علیہ السلام کی تعمیر کا تذکرہ ہے کہ حضرت ادم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے پہلے مسجد حرام تعمیر کی اور پھر 40 سال بعد مسجد اقصی تعمیر کی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے کی تعمیر کا تذکرہ ہے کہ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے مسجد حرام جس کے اثار مرور زمانہ کی وجہ سے غائب ہو چکے تھے دوبارہ تعمیر کی جن میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی شریک رہے اور پھر اس تعمیر کے 40 سال بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے فلسطین میں مسجد اقصی کی دوبارہ تعمیر کی.
الغرض کے اس طرح ایک طویل عرصے تک مسجد حرام بنو اسماعیل کے پاس رہی اور مسجد اقصی بنو یعقوب کے بعد اور چونکہ اسرائیل حضرت یعقوب ہی کا نام ہے تو اس لیے ان کے خاندان کے بڑے حصے کو اگے چل کر بنی اسرائیل کہا جانے لگا-
پھر شب معراج میں اللہ تعالی نے خاتم النبیین حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد اقصی پہنچایا اور دیگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی وہاں جمع فرمایا اور ان سب نے بنی اسماعیل میں منصب نبوت بلکہ منصب ختم نبوت پر فائض ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور یوں اللہ تعالی نے دکھا دیا کہ اب مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کی تولیت و وراثت بھی اسماعیل میں انے والے اللہ تعالی کے اخری نبی کو اور امت محمدیہ کو دی جا رہی ہے-
اس لیے امت محمدیہ کے کچھ لوگ اس مسجد اقصی کے پاس نگہبان بن کر رہے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میری امت کے کچھ لوگ ہمیشہ دین کے معاملے میں غالب رہیں گے اور اپنے دشمنوں کو دبائے رہیں گے ان کے مخالفین ان کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس معیشت کی تنگی کے جو انہیں پیش ائے گی یہاں تک کہ اللہ تعالی کا حکم یعنی موت یا قیامت انے تک وہ اسی طرح رہیں گے-
صحابہ نے عرض کیا وہ لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں.

اپنا تبصرہ بھیجیں