سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت

جس راہ سے گزریں گے سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیء اس راہ کے ہر ذرے کو بیدار کرینگے اللہ رب العزت نے مجسمہ انسانی کو اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا اور اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا۔اور اسے دارالامتحان میں پہنچا دیا ،

اگر راہ حق کا مسافر بنے گا تو فرشتے اسکی قدم بوسی کریں اور اگر فطرت سے بغاوت پر اثر آئے تو جانور بھی اس سے پناہ مانگیں ، انسان کو رضائے الٰہی کی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی نمونہ:آئیڈیل اور کسی میرکارواں کی ضرورت پڑتی ہے کہ جسکے نقش قدم پر چل کر اور نشان منزل کو اپنا کر دائمی کامیابی حاصل کر سکے-
اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایاءخاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ایک نجات دھندہ عطا کیاء ایک بے مثال و بے نظیرءہدایت و خیر کے اس روشن چراغ کو جبل فاران کے افق سے نمودار کیا۔

جسکی کتاب حیات کا ہر ورق و صفحہءہر موضوع وعنوان اور ہر لفظ وحرف ہر زمانہ و ہر شعبہ میں ہدایت کا روشن چراغ ہے۔جس نے افق تا افق محیط تاریکیوں کے سینے پر روشنی کی کرنیں پھیلادیں۔عرب کے صحرا نشینوں نے آپکی اتباع و پیروی کر کے روم و فارس اور عرب و عجم پر حکمرانی کی۔

اتباع سنت فطری تقاضا

شریعت کے قوانین و ضوابط اپنی جگہ مگر فطرت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔محبت کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جو جتنا بڑا محسن ہوتا ہے طبیعت اس جانب مائل ہوتی ہے اور اسکے رنگ میں رنگنے کا جی چاہتا ہے۔ محب ہمیشہ اسی جستجو میں رہتا ہیکہ محبوب کی محبت میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیئے ہیں کہ دنیا انکی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اور یہاں محب تو محب ءمحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی کیا کہنے؛ہر وقت ہر گھڑی اپنی امت ہی کی فکر میں ہیںءعرش ہو یا فرشءصحت ہو یا مرض؛خوشی و غمی: مرض الموت ہو یا قیامت:حشر کا میدان ہو غرض ہر وقت ایک ہی صداءایک ہی پکار ہے
” یارب امتی امتی’
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنی محبت کرتے ہوں اور آپکے ہم پر اتنے احسانات ہوں۔ اسکے باوجود بھی مسلمان سنتوں کو سنت کہہ کر ہلکا سمجھ کر چھوڑ دے تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ یقینا ہم کچھ بھول رہے ہیں۔۔۔!

اتباع سنت قرآن کریم کی نظر میں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف انداز میں مختلف مقامات پر سنت نبوی کی اتباع و پیروی کا حکم دیا ہے جسکا خلاصہ یہی ہیکہ تمہیں پسند ہو یا ناپسند ءتم پر خوشگوار گزرے یا ناگوار تمہیں ہر حال میں محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے۔ اسی لیے الہ تعالی نے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو بہترین نمونہ قرار دیا۔ فرمایا:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌۭ

یعنی
” البتہ تحقیق تمہارے لیے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔” اور فرمایا:-

مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ

ترجمہ: “جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی۔” اور فرمایا:

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ

اس آیت میں ہللا تعال ٰی نے اپنی محبت کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع کیساتھ مشروط قرار دیا ۔

وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ

” رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو تمہیں دیں ( احکامات) انہیں لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ”

اتباع سنت نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں

نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ جانتے تھے کہ نبی و رسول کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ھے۔ اور اسکے حکم اور امر کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ اگر کوئی نافرمانی کرے گا تو پچھلی گمراہ قوموں کی طرح ہی ہوگا قوم عادءقوم ثمود وغیرہ. اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروقت اپنی امت کو اطاعت و اتباع کی ترغیب دی۔ چنانچہ فرمایا:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ

ترجمہ:
“تم پر میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت الزم ہے،اسی سے دلیل پکڑو اور اس پر مضبوطی سے جمے رہو”
اسی طرح فرمایا:-
“پس جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ؛اور جس نے مجھ سے محبت کی تو پس تحقیق وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔”

وَمن أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجنَّة

“پس جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ،اور جس نے مجھ سے محبت کی تو پس تحقیق وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔”

اتباع سنت اور صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین

بعثت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب پیتی کے دہانے پر کھڑے تھے۔ ضلالت وگمراہی کی آخری حدود پہ پہنچ چکے تھے۔ نیکی و اچھائی ان میں آخری سانسیں لے رہی تھی۔
مگر پھر انکی کایا پلٹ گئی ءانکی زئبٍگیاں بدل گئیں انہوں نے قیصر و کسریٰ کی قبائیں نوچ ڈالیںء ملائکہ انکی مدد کو اتثرے جنت کی انکی بشارتیں آئیں اور فرشتوں نے انکو سلام بھیجے ۔سمندزوں اور دریاؤں نے انکو راستے دئیے کامیابی و کامرانی نے انکے قدم چومے۔
یہ مدد و نصرت کیوں اتری؟
اس لیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے اپنے آپ کو مکمل طور پر سنت کے سانچے میں ڈھال لیا تھاء وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر مر مٹتے تھے اورسنت کے مقابلے میں کوئی رائے قبول نہ کرتےە اور خلاف سنت کاموں پر آگ بگولہ ہوجاتے۔کبھی یہ نہ سوچتے کہ اس میں کوئی فایدہ ہے یا نہیں ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
” میں ہرگز ایسا کام نہیں چھوڑوں گا کہ جسکو نبی کریم صلی اللہ علیہ|وسلم نے کیا ہو میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے سنت کو چھوڑ دیا تو گمراہ ہوجاونگا۔”

غرضیکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت کے حریص تھے ۔ جس کو جس عمل کے بارے میں بھی معلوم ہوتا کہ سنت ہے تو وہ اسے ضرور اختیار کرتا۔ اور تابعین کرام نے آپ صلی الہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے حالات واقعات کی تعلیم و تبلیغ کا بہت کام کیاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان تمام روایات و احادیث کو پوچھ پوچھ کر؛اور ایک ایک کے دروازے پر جاکے؛ مختلف علاقوں کے سفر کر کے اور تحقیق کر کے حدیث و سنت کے قیمتی ذخیرے کی حفاظت کی ۔
انہی کی ان تھک کوششوں کے نتیجے میں آج پیغمبرِ اسلام صلی الہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے اور انسانیت کے لیے باعث رہنمائی ہے۔
آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سنت ہمارے لیے یہی سبق ہےہم اگر اپنی عملی زندگی: کردار و اخلاق میں اس سے راہنمائی حاصل کریں اور اسکے تقاضوں کے مطابق خود کو بدلنے کے لیے تیار ہو جائیں تو رحمتوں برکتوں کا نزول آج بھی ہوسکتا ھے۔

در فشانی نے تری قطروں کو دریا کر دیا
دل کو روشن کر دیا آنکھوں کو بینا کر دیا
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

اپنا تبصرہ بھیجیں