فضائل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

فضائل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

فضائل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت ، زہد و ورع ، تقوی اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے ۔ تاریخ میں اس حوالے سے سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ، عدل و انصاف کی بات ہو تو آپ اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔ آپ خلافت راشدہ کے دوسرے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولو العزم عبقری شخصیت ، خسر رسول صلی اللہ علیہ وسلم، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ہیں۔ سید نا عمر فاروق کی انہیں جمیع صفات کی وجہ سے ان کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کر دیئے جو وحی کا حصہ بن گئے ۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن گئے ، وہ عموما رسول اللہ کے ساتھ رہتے ، آپ کے مشیر خاص بن گئے ، تادم حیات اسلام اور اہل اسلام کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔

فضائل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

زبان نبوت سے دین پر ہونے کی نبوی گواہی:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ کی نہ صرف ایمان کی گواہی دی ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کے دین کی گواہی بھی دے رکھی ہے، چنانچہ سید نا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:

بَيْنَا أَنَا نَامَ رَأَيْتُ النَّاسَ عُرِضُوا عَلَيَّ، وَعَلَيْهِمْ قُمُص، فَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ التَّدْيَ، وَمِنْهَا ما يَبْلُغْ دُونَ ذَلِكَ، وَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ وَعَلَيْهِ قَمِيصُ اجْتَرَهُ، قَالُوا : فَمَا أَوْلَتَهُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ : الدِّين

میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیصیں پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی ۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے اس کی تعبیر کیا لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے۔ صحیح البخاري : 3691

کلمہ پڑھنے کے بعد ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہی وہ ایمان ہے جس کے باعث انسان کے لیے جنت، بلندی درجات ہیں، اسی ایمان کے لانے کا بار ہا مرتبہ قرآن مجید میں ہمیں رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ مومن بننا چاہتے ہیں، مگر نہیں معلوم کہ وہ مومن بن پائیں یا نہیں لیکن یہ اعزاز سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دنیا ہی میں ایمان کی گواہی دے دی تھی ۔

ایمان کی گواہی:

كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذُ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لا ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبُّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عمرُ : فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الآنَ يَا عُمَرُ

ہم نبی کریم صلی علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطاب رض کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عرض کی : اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ، سوائے اپنی جان کے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ( ایمان اس وقت مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رض نے عرض کی : پھر واللہ ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم سی ای ام نے فرمایا کہ ہاں ، عمر ! اب تیرا ایمان پورا ہوا ہے۔صحیح البخاري: 6632

علم کی گواہی:

ویسے تو بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم حاصل کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے رہے اور آپ سے بہت ساری باتیں سیکھ لیں ،مگر یہ اعزاز بھی آپ ہی کے نصیب میں آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے دین، ایمان کے ساتھ ساتھ عالم دین ہونے کی گواہی بھی دی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ سلائی ہم نے ارشاد فرمایا:

بَيْنَا أَنَا نَامٌ، شَرِبْتُ، يَعْنِي اللَّبَنَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَى الرِّيِّ يَجْرِي فِي ظُفُرِي أَوْ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ نَاوَلَتُ عُمَرَ فَقَالُوا : فَمَا أَوَّلْتَهُ؟ قَالَ : العِلْمَ

میں نے خواب میں دودھ پیا ، اتنا کہ میں دودھ کی سیرابی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پر بہ رہی ہے، پھر میں نے پیالہ عمر (رضی اللہ عنہ ) کو دے دیا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ کا ہم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔ صحیح البخاري: 3681

حق گوئی کی نبوی شہادت:

واہ قربان جائیں !سید نا عمر بن خطاب رض پہ کہ جن کے سچے اور حق پر ہونے کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ۔ آپ ہمیشہ مبنی بر حقیقت گفتگو فرماتے ، ان کے فیصلے برحق ہوتے ، کتنے ہی مواقع ایسے ہیں کہ سید نا عمر رض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی مشورہ دیتے تو اللہ تعالی سید نا عمررض کی موافقت میں قرآن نازل فرما دیتا، کتنے ہی فیصلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے ہوتے جن میں جو فیصلہ عمر رض کا ہوتا ، وہی فیصلہ رب کعبہ کا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللهَ تَعَالَى جَعَلَ الحَقُّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ عمر

(رض) کی زبان اور دل پر سچ کو رکھ دیا گیا ہے. مسند احمد : 5145144/8)

محبوب مصطفی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے صحابہ کرام بھی ا تھے ، جو آپ کے پاس رہتے ، آپ سے تعلیم حاصل کرتے ، آپ کا ہر ہر حکم ماننے کے لیے ہر دم تیار رہتے ، آپ کے لیے مر مٹنے کا جذبہ ہر وقت ان کے سینوں میں ہوتا مگر یہ اعزاز بھی سید نا عمر رض کا ہیکہ آپ صرف ان چند صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ محبت کیا کرتے تھے ، چنانچہ عمر و بن عاص رض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں:

أيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ فَقَالَ : أَبُوهَا، قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَعَدَّ رِجَالًا

آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے سے؟ آپ ا نے فرمایا : عائشہ سے،انہوں نے کہا مردوں میں سے ،فرمایا اسکے والد پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے . صحیح البخاری: 3662

مراد مصطفی :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت کیا تو آہستہ آہستہ بہت سے لوگ اسلام لے آئے ، اسلام قبول کرنے والے زیادہ غریب لوگ تھے، سید نا عمر رض کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ باقی تمام صحابہ کرام رض خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے مگر سیدنا عمر رض کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کرکر کے مانگا ہے، تا کہ ان کے ذریعہ اسلام پہلے سے اور زیادہ مضبوط ہو جائے۔ سید نا عبد اللہ بن عمر بھی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علی ییم یہ دعا مانگا کرتے تھے:

اللهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ

اے اللہ! ان دونوں یعنی ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو قوت دے۔سنن الترمدى:3681

الہام کا ہونا

یہ اعزاز بھی صرف سید نا عمر بن خطاب رض کاہیکہ آپ امت محمدیہ میں سے وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں الہام ہوتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمم مُحدَّثُونَ، فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ، فَإِنَّهُ عُمَرُ

تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔صحیح البخاری: 3689

دینی امور میں انتہائی سخت:

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو مختلف مختلف خوبیوں سے نوازا ہوتا ہے، کچھ اچھے ہوتے ہیں، کچھ بہت ہی اچھے ہوتے ہیں، کچھ برے ہوتے ہیں اور کچھ بہت ہی برے ہیں۔ کچھ کسی اعتبار سے تو اچھے ہوتے ہیں اور کسی اعتبار سے بڑے ہوتے ہیں۔ مگر یہ اعزاز بھی سیدنا عمر رض کا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ایک خاص خوبی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمر دین کے معاملہ میں انتہائی سخت ہیں، وہ دین کے معاملے میں کسی سستی غفلت اور کمپرومائز کا شکار نہیں ہوتے ۔ چنانچہ سیدنا انس رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أرحم أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ

میری امت میں سب سے زیادہ میرے امتیوں پر نرمی کرنے والے ابوبکر (ی) ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ( بی ) ہیں۔ سنن الترمذي: 3790

عمر رضی اللہ عنہ جنتیوں کے سردار :

سید ناعلی رض فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور تیسرا کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا، تو آپ کی نظر سید نا ابوبکر اور عمر پر پڑی تو آپ نے فرمایا:

هَذَانِ سَيْدَا كُبُولِ أَهْلِ الجنَّةِ مِنَ الأوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالمُرْسَلِينَ

یہ دنوں نبیوں اور رسولوں کے علاوہ اگلے پچھلے تمام عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہوں گے۔سنن الترمذی: 3664،

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا !

! شاید سید نا عمر رض کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمررض ہوتے ۔ جیسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر ان سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَوْ كَانَ نَبِيَّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ( بی ) ہوتا۔(سنن الترمذی: 3686 )

جسے دیکھ کر شیطان بھی راہ بدل لے!

سعد بن ابی وقاص رض فرماتے ہیں کہ عمر رض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں ( امہات المومنین میں سے ) بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آپ کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے آپ سے نان و نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں ۔ جوں ہی عمر رض نے اجازت چاہی تو وہ تمام کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اور وہ داخل ہوئے تو آپ مسکرا رہے تھے۔ عمر رض نے عرض کیا :

أطحَكَ اللهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ الله

یا رسول اللہ! اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔

آپ صلی اللہ نے فرمایا:

عجِبْتُ مِنْ هَؤُلاءِ اللَّاتِي كُنْ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ

مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں لیکن تمہاری آواز سنتے ہی سب پردے کے پیچھے بھاگ کیں۔

فَأَنْتَ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا هبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ؟ فَقُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَفَظُ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یا رسول اللہ ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا۔ پھر انہوں نے (عورتوں سے ) کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور نبی کریم ملا ہم سے نہیں ڈرتیں ، عورتوں نے کہا کہ ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ نبی کریم سلیم کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں۔اس پر آپ سال اللہﷺ نے فرمایا:

إيها يَا ابْنَ الخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجا قَطُّ، إِلَّا سَلَكَ فَجا غَيْرَ فَجَك

اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو اسے چھوڑ کر وہ کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔صحيح البخاري: 3683

اپنا تبصرہ بھیجیں