نیکیوں میں جلدی کیجئے

نیکیوں میں جلدی کیجئے

نیکیوں میں جلدی کیجئے

بنی نوح آدم کی فطرت میں اللہ تعالی نے عجلت رکھی ہے ۔ مگر زیادہ تر یہ عجلت معصیت کے ارتکاب میں نظر آتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ڈھیل دیتا ہے، وہ اہل معصیت کی طرح عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدَّ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًا (الكهف: 58)

تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انہیں جلدی عذاب کر دے بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے۔

عبات گو کہ فطری امر ہے لیکن یہ بھی مذموم ہوتی ہے تو کبھی ممدوح ہوتی ہے ۔ گناہوں کے کاموں میں عجلت بہت بری ہے جبکہ اعمال صالحہ کی انجام دہی میں جلدی کرنا مستحسن ہے۔

ماہ رمضان میں سبھی لوگ اللہ کی رحمت کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال سر انجام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی سے ضروری ہے کہ نیکیوں کی عادت ڈالیں، زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کریں، تا کہ ہمیں نیکیوں کی عادت پڑ سکے.

نیکی میں جلدی کرنے کا مطلب

اعمال صالحہ میں جلدی کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کام کو ایک جھٹکے میں تمام کر لیا جائے نہیں بلکہ اس کا مقصود یہ ہے کہ کسی بھی بھلائی کو انجام دینے میں تاخیر اور ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے ، اسے بلا تاخیر فوری طور پر انجام دے دیا جائے ۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ تاخیر کرنے سے ممکن ہے کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے اور سوچا ہوا نیک کام ادا نہ ہو سکے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ آج کے زمانے میں نیکی کرنا مشکل اور برائی انجام دینا سہل ہے کیونکہ گناہوں میں جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے اور اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے جبکہ نیکی کے راستے میں متعدد رکاوٹیں ہیں ۔ نیک کام سے روکنے کے لئے نفس، شیطان، برا ماحول، برا ساتھی ، سستی ، ضعیفی، بیماری ، مشغولیت اور موت گھات میں لگے ہوئے ہیں.

نیکی میں جلدی کرنے کی ترغیب

نیکی میں جلدی کرو

انسان کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ نیک اعمال کر کے اللہ کی جنتوں کا حق دار بن جائے ، مگر انسان اپنے مقصد حقیقی کو بھول کر عجیب و غریب کاموں میں وقت صرف کرنے لگ گیا ہے۔ حالانکہ زندگی میں آنے کا مقصد نہیں بھولنا چاہیے۔

اللہ تعالی نے انسان کو یاد دہانی کرواتے ہوئے لئے ایک مقامات پر کہا کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرو۔ بلکہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرو ۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة : 148)

پس تم نیکیوں کی طرف دوڑو ایک دوسرے مقام پر فرمایا:

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (المائدة: 48)

نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو، سب کو اللہ کے پاس پہنچنا ہے پھر تمہیں بتائے گا جس میں تم اختلاف کرتے تھے۔

نیکی میں جلدی ؛ مومنوں کی صفت

یہ مومن کی عادت نہیں ہے کہ وہ مسئلہ سن لینے کے بعد بھی یہ کہے کہ ابھی بہت وقت ہے میں کرلوں گا یہ والی نیکی بھی ، ابھی عمر ہی کیا گزری ہے، کچھ فرصت ملے گی تو نیکیاں بھی کر ہی لوں گا۔ مومن تو وہ ہوتا ہے کہ جب اسے کسی نیک عمل کا پتا چلے وہ اس کام میں بے حد جلدی کرتا ہے،اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد اس نیک کام کو سرانجام دے دے۔ مومن کی یہی صفت رب تعالی نے قرآن مجید میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (المومنون: 60/61)

اور جو دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل اس سے ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہی لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور وہی نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں ۔

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر رب تعالیٰ نے مومنوں کی صفات کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَغْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (النور: 52/51)

مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تا کہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔

مغفرت کے حصول کے لیے جلدی کرو:

جیسے گناہ کر لینے کے بعد اس پر اصرار کرنا مناسب نہیں ایسے ہی گناہ کر لینے کے بعد تو بہ میں تاخیر کرنا بھی اچھا عمل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران : 133)

اپنے پروردگار کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جوڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر فرما یا

سابقوا إلَى مَغْفِرُۃ مِنْ رَبِّكُمْ (الحديد (2)

اپنے رب کی مغفرت کی طرف دوڑو اللہ کی طرف بھا گو ! ارشاد باری تعالی ہے:

ففروا إلي الله إني لكم منه نذير ميين (الذاريات: 50)

اللہ کی طرف بھا گو۔ بلاشبہ میں اس کی طرف سے تمہیں کھلا ڈرانے والا ہوں۔

اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرو۔ بلکہ اللہ تعالی فرمار ہے ہیں کہ نیک کام کر کے اللہ کی طرف بھاگو ۔ نیکیوں میں بہت زیادہ جلدی سے کام لو۔

نیکیوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرو

نیک اعمال میں ایک دوسرے سےآگے مقابلہ کریں، اپنے سے زیادہ نیک شخص کے ساتھ مقابلہ کریں نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کو�پیچھے کرنے کوشش کریں نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کو ہرانے کی کوشش کریں۔

تو رب تعالی نے ہمیں حکم دیا

وفي ذالك فليتنافس المتنافِسُونَ (المطففين: 26)

فتنوں سے پہلے پہلے نیک اعمال کر لو

فتنوں سے انسان کی حفاظت صرف اس کے نیک اعمال ہی کر سکتے ہیں۔ اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے ظہور سے پہلے پہلے نیک اعمال سے اپنی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بادروا بالأعمال فتنا تقطع الليل المظالم يصبح المرء مؤمنا ويمسی كافرا، أو يمسي مؤمنا واصبح كافرا، يبيع دينه بغرض من الدنيا

جلدی جلدی نیک کام کر لو ان فتنوں سے پہلے ہوا نہ میری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہوگیا اور اپنے دین کو بیچ دے گا دنیا کے مال کے بدلے۔ صحیح مسلم

وصیت لکھنے میں جلدی کرو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما حق امري مسلم له في يوم فيه يبيت ليلتين إلا ووسيلة مكتوبة عندہ
کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس اہمیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دورات بھی وصیت کو لے کر اپنے پاس محفوظ ر کھے بغیر گزارے. (صحیح البخاري 2018 7/14)

رسول اللہ علیہ نے فرمایا:

أسرعوا بالجنازة، فانها إن تك صالحة فخير تقدمونها إليه، وَإِن تك سوى ذلك، فشرتضعونه عن رقابكم

جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہو تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔ صحيح

نیکی میں جلدی کرنیوالوں کا اجر

نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ نیکیوں میں سبقت لینے کے سبب جو لوگ جنت میں سبقت لے جائیں گے اللہ تعالی نے ان کا بیان کرتے ہوئے

السابقون السابقون أوليك المقربون في جنات النعيم (الواقعة: 10/24)

اور سب سے اول ایمان لانے والے یہی سب سے قریب لوگ ہونگے جنت کی نعمتوں میں۔۔۔

نیکی میں جلدی کرنے کے واقعات

پہلے انبیاء کا تذ کرہ

سیدنا ابرا ہیم علیہ السلام کی دعا

قل إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لوبذلك أمرت وأنا أول الْمُسْلِمِينَ (الانعام : 161/163)

کہہ دو کہ بیشکا میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھے اس کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں۔

سیدنا موسی نے فرمایا

وعجلت اليك رب لترضى (طه: 84)

اے میرے، رب میں نے تیری طرف جلدی کی انے میں کہ تو راضی ہو جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نیکی میں جلدی کرنا: ، انہوں نے کہا:

صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِيعًا دخل على بعض نسائه ثم خرج ورأى مَا فِي وُجُوہ القَوْمِ مِنْ تَعْجبهِمْ لسرَعَتِهِ، فَقَالَ: ذكرت وأنا في الصلاة تبرا عندنا، فكرفت أن يمسي – أو يبيت عندنا . فأمرت بقسمته

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی آپ کا سلام پھیر تے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے ، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ اللہ نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہور ہا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یاد آگیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیا تھا۔ مجھے پر معلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یارات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ

أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما أن تصدق، فوافق ذلك مالا عندي فقلت اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما قال فجئت بنضف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، مما أبقيت لاهلك ؟ فقلت مثله وأتي أبو بكر رضي الله عنه بكل ما عنده فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم، مما أبقيت لأهلك قال: أبقيت لهم الله ورسوله، قلت: لا أسابقك إلى شيء أبدأ

ایک دن ہمیں رسول اللہ اللہ نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس دولت تھی، میں نے کہا: اگر میں کسی دن ابو بکررضي الله عنه پر سبقت لے جا سکوں گا تو آج کا دن ہو گا۔

چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے ؟ میں نے کہا: اس قدر یعنی آدھا مال، اور ابو بکر بھی لہذا اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوئے، رسول اللہ علیہ نے ان سے پو چھا اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے ؟ انہوں نے کہا؛

میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں ۔ جب میں نے (دل میں ) کہا: میں آپ سےکبھی بھی کسی معاملے میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا.

سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ؛

عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رض نے بیان کیا؛

مَا كَانَ لَنَا خَمر غَيْرُ فَضِيخِكُمْ هَذَا الَّذِي تُسَمُّونَهُ الفَضِيخَ، فَإِنِّي لَقَائِمُ أَسْقِي أَبَا طَلْحَةَ، وَفُلَانًا وَفُلَانًا، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : وَهَلْ بَلَغَكُمُ الْخَبَرُ؟ فَقَالُوا : وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ : حُرِّمَتِ الخَمْرُ، قَالُوا : أَهْرِقُ هَذِهِ القِلالَ يَا أَنَسُ، قَالَ : فَمَا سَأَلُوا عَنْهَا وَلَا رَاجَعُوهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ

ہم لوگ تمہاری فضیخ (کھجور سے بنائی ہوئی شراب ) کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے ، یہی جس کا نام تم نے فضیخ رکھا ہے۔ میں کھڑا ابوطلحہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا: تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہا: انس اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔ (صحيح البخاري: 4617)

سبحان اللہ ! اس واقعہ نے تو ایمان تازہ کر دیا ، اللہ نے صحابہ کرام کا مقام یونہی بلند نہیں کیا، ان کے اعمال بھی اعلی تھے۔ اللہ کا پیام حرمت سنتے ہی شراب بہادئے ، ذرہ برابر بھی کسی نے نہ تر دو کیا ، نہ تاخیر کی اور نہ ہی ایک قطرہ حلق سے نیچے اتارا۔
ان باتوں کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر جلد بازی ہے مگر دنیا کمانے میں اور گناہ کا کام کرنے میں، بھلائی کے کاموں میں جلدی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے جابجا مختلف عملوں کا بڑا بڑا اجر بتلایا ہے اور عظیم انعامات کا وعدہ کیا ہے مگر ان کی طرف دل راغب نہیں ہوتا اور اگر دنیا کی بات کی جائے مثلا کہا جائے کہ جو فلاں جگہ اور فلاں وقت پر حاضر ہوگا اس کو ایک ایک لاکھ روپیہ ملے گا چنانچہ اس خبر کو سننے والا ہر کوئی وقت پر روپیہ لینے اس جگہ حاضر ہو جائے گا ۔اس بات کا صاف مطلب ہے کہ ہمارا ایمان بہت کمزور ہے اس کی اصلاح اور قوت دینے کی ضرورت ہے۔ آئیے آج سے عزم کرتے ہیں کہ اپنے ایمان کی اصلاح کریں گے اور انبیاء وصالحین کی مذکورہ خوبی کو اپنے اندر پیدا کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں