کسب حرام

کسب حرام

مال حرام کی آگ نے پورے ماحول کو جلا کر خاکستر کر رکھا ہے ہر طرف اسی کا تذکرہ ہے سارا معاشرہ اسی کے زیر اثر بدامنی بے حیائی بدکاریوں کے فروخت اور ناشکری کی زد میں ہے جو جس طرح پر جس درجہ با اختیار ہے اپنے لیے یہ اگ کمانے کے لیے اپنے اختیار کو صرف کر رہا ہے بس فرق ہے تو صرف اختیار کی کمی زیادتی کا کیا حکمران ِکیا ملازمین ِکیا تاجر ِکیا استاد سب ہی ایک راستے پر گامزن ہیں جب تک دلوں میں اس چیز سے تنفر پیدا نہیں ہوگا اور ہر شخص اسے اگ کی طرح جلانے والی چیز نہیں سمجھے گا حالات میں بہتری کی سوچ بس خواب ہی رہے گی.

انسان سے جو بد اعمالی اور برائیاں صادر ہوتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں:

1: ایسے برے اعمال جن کا اثر اس وقت تک رہتا ہے جب تک انسان ان میں مبتلا ہو جب اس برائی میں مشغول نہ ہو تب اس کا اثر اس پر نہیں ہوتا-
2: ایسی برائیاں جن کا اثر ہر وقت انسان پر طاری رہتا ہے حتی کہ اس وقت بھی جب وہ عبادت میں اور نیک اعمال میں مشغول ہو.

اس دوسری قسم میں سب سے سخت اور مضر ترین برائی کسب حرام ہے یعنی معیشت کے ایسے ذرائع اختیار کرنا جو شرعا حرام ہے مثلا سود رشوت ناجائز چیزوں کی تجارت جائز چیزوں کی ناجائز انداز میں تجارت غضبِ دھوکہ دہی ِیتیموں کا مال ناحق کھانا وغیرہ وغیرہ.
جس ادمی کا ذریعہ معاش حلال نہ ہو وہ حرام کھاتا اور کماتا ہو اس سے مال حرام کا اثر کسی حال میں بھی جدا نہیں ہوتا وہ نماز میں ہو حج کر رہا ہو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے رو رہا ہو بیت اللہ کے دیوانہ وار چکر لگا رہا ہو خلق خدا کی خدمت میں مشغول ہو والدین کی خدمت کر رہا ہو یا کوئی بھی نیکی -اس کے پیٹ میں غذا حرام ِتن پر لباس حرام ِجیب میں موجود رقم حرام گویا وہ شخص جہنم کی اگ میں پوری طرح گھرا ہوا ایسے میں نہ عبادت اوپر جاتی ہے نہ دعائیں نہ خدمات رنگ لاتی ہیں اور نہ انسو اثر دکھاتے ہیں نہ صدقہ قبول ہوتا ہے نہ خیرات پر کوئی اجر ملتا ہے لوگ دھوکے میں پڑے ہیں حرام کمانے اور کھانے کو معمولی جرم سمجھتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ نیک اعمال اور صدقہ انہیں وبال سے بچا لے گا حالانکہ قران و حدیث سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اس کے برخلاف ہے.

قران مجید کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال کا صالح ہونا موقوف ہے ” اکل حلال “پر یعنی اکل حرام کو صالحات کے زمرے میں شمولیت سے روکتا ہے ارشاد باری تعالی پر غور فرمائے:
اے رسولوں کی جماعت حلال پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے اعمال کرو – اکل حلال ایسا مہتمم بالشان حکم ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے نفوس قدسیہ کو اس کی اس پرزور انداز میں تاکید کی گئی ہے دراصل یہ تاکید ان کی امتوں کو ہے اور پھر واعملوصالحا کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اعمال صالحہ کی بنا اکل طیبات پر ہے کھانا حلال ہوگا تو نیک اعمال کی توفیق بھی ملے گی اور قبولیت بھی نصیب ہوگی اور اگر کسب حلال نہیں تو کتنے بڑے بڑے اعمال اکارت جاتے ہیں.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں مستجاب الدعوات بن جاؤں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک انس اپنی کمائی کو پاک رکھو تمہاری دعا قبول کی جائے گی .
بے شک بندہ اپنے منہ میں حرام کا لقمہ لے جاتا ہے تو اس کی 40 دن تک دعا قبول نہیں ہوتی.
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے لوگوں!اللہ تعالی پاک ہے اور قبول نہیں کرتا سوائے پاک چیزوں کے اور اللہ تعالی نے ایمان والوں کو اسی کا حکم دیا ہے جس کا حکم اپنے انبیاء کو دیا اور اس نے فرمایا اے ایمان والو کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں سے جو ہم نے تمہیں رزق کے طور پر دیا ہے.
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایسے شخص کا جو لمبے سفر پر ہو پراگندہ بال ہو غبار الود ہو اسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یا رب کہہ کر دعا کر رہا ہو مگر اس کا کھانا حرام لباس حرام اور غذا حرام ہو بس اس کی دعا کیوں کر قبول کی جا سکتی ہے؟
طویل سفر غبار پتلی حالت اسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا یا رب کہہ کر مانگنا یہ سب قبولیت کے اسباب ہیں ایسے بندوں کی دعا فورا سنی اور قبول کی جاتی ہے مگر مال حرام نے ان تمام کیفیات کا اثر زائل کر دیا.
اور دیکھیے صدقہ ایسا عمل ہے جو رب تعالی کے غضب کو بجھانے والا ہے مصائب اور افات کو ٹالنے والا ہے رزق میں زبردست برکت کا باعث ہے جنت کی نعمتوں کے حصول کا ضامن ہے مگر حرام مال سے ہو تو بالکل ضائع بلکہ وبال کا سبب ہے.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے مال حرام جمع کیا پھر اسے صدقہ کر دیا اسے اس میں کوئی اجر نہیں ملے گا اور اس کا گناہ اس پر ہوگا.
کسب حرام میں بدترین قسم سود ہے ایسا بدترین گناہ جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد روایات میں سات سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک قرار دیا ہے سود کے اموں میں پھیلاؤ کی وجہ سے لوگوں نے اس بدترین مال کو حلال کرنے کی تاویلات گھڑی جدید و قدیم کا فرق ظلم کا وجود اور عدم اور نہ جانے کیا کیا تاویلات گھڑیں مگر ان سب سے اثر شناعت پر فرق نہیں پڑتا جدید ہو یا قدیم تجارتی ہو یا قرض کا سود سب کا سب قطعی حرام اور بدترین مال ہے.
قران مجید کی ایات اور احادیث مبارکہ پڑھ کر دیکھیں کیسی شناخت کیسی سخت وعیدیں اور کیسے لرزہ خیز عذاب سود کے بارے میں وارد ہوئے سود اللہ اور اللہ کے رسول سے اعلان جنگ ہے سود سے مال بڑھتا نہیں گھٹتا ہے حدیث شریف میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص سود کے ذریعے مال بڑھاتا ہے انجام کار اس کا مال گھٹ جاتا ہے ایک اور حدیث مبارکہ میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سود میں سخت ترین گناہ ہے ان میں کم ترین درجے کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات ایک شخص کو دیکھا کہ ایک نہر میں غوطہ لگا رہا ہے اور پتھر نگل رہا ہے بتایا گیا کہ یہ سود کھانے والا شخص ہے.
حرام کمانے اور حرام کھانے کی یہ تمام رعایتیں جو حقیقت میں قران و حدیث میں وارد ہونے کی وعیدوں کا عشر عشیر بھی نہیں ذہن میں رکھ کر ہم سب سوچیں اور فکر کریں کہ ہمارا کسب حلال ہو ورنہ یہ مال جہنم بھڑکا رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس گوشت کی پرورش والے حرام سے ہوئی وہ جہنم میں جلائے جانے کا ہی مستحق ہے. (الترغیب و ترھیب)

اپنا تبصرہ بھیجیں